وطنیت کی تعریف
وطن اور وطن سے محبت فطری ضرورتیں ہیں لیکن یہی وطن جب سیاسی اصطلاح بن جائے تو وہ ایک بت کی صورت اختیار کر لیتا ہے دنیا کی جتنی سلطنتوں نے اپنے وطن سے نکل کر دوسری قوموں کو غلام بنایا ہے انہوں نے اسی جذبہ قوم پرستی سے کام لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اقبال اور تصور وطنیت آرٹیکل | PDF
موضوعات کی فہرست
جس کا اول و آخر وطن کی پرستش تھا کسی بھی ابتدائی دینی ریاست نے اپنوں یا غیروں کے وطن پر قبضہ نہیں کیا جالوت کی جوع الارض کا جواب جوع الارض سے نہیں دیا گیا تھا۔
ہاں اسرائیل پر بار بار کی یورشوں اور اسرائیلیوں کی بار بار غلامی و رہائی سے غیر دینی تاریخ بھری پڑی ہے عظیم رومن ایمپائر ہو یا یورپی سامراجیوں کی قومی حکومتیں وہ سکندراعظم کی صورت میں ہو یا ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں ہر کہیں دوسری اقوام و اوطان کو اپنے زیر نگیں لانا ان کا مطمع نظر رہا دین ہرکسی کو اللہ کی بندگی میں لانے کا نام ہے یہاں جہادفی سبیل اللہ ہوتا ہے۔
اس وقت اسلام کا دشمن سائنس نہیں اسلام کی پوزیشن سائنس کے خلاف نہایت مضبوط ہے مگر اس کا دشمن یورپ کی علاقائی قومیت ہے جس نے عربوں کو خلافت (عثمانیہ ) کے خلاف اکسایا مصر میں مصر مصریوں کے لئے آواز بلند کی اور ہندوستان
کو چین انڈین ڈیموکریسی کا بے معنی خواب دکھایا۔”
قومیت کا ملکی تصور جس پر زمانہ حال میں بہت کچھ حاشیے چڑھائے گئے ہیں اپنی آستین میں اپنی تباہی کے جراثیم خود پرورش کر رہا ہے ۔
یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جے اقبال ہی سمجھے بلکہ خود مغربی مفکرین بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے ۔ وطن تو ہندوستان بھی تھا اور ہندوستانی کیا وطنیت کے تحت برطانوی سامراج کو دیس نکالا نہ دیتے؟
ضرور لہذا اسی خوف سے تو مسلم ہندو فسادات کو ہوا دی گئی "آل اللہ یا نیشنل کانگریس جیسی تنظیمیں بنا کر مذہبی جوش و جذبہ سے باہمی سر پھٹول کا اہتمام کیا گیا اس لئے کہ آل اللہ یا نیشنل کا تصور کسی مذہبی دوئی کا روادار نہ ہو سکتا تھا
اور اس کان نمک میں داخل ہونے والوں کو نمک ہی بنا پڑتا گیا قومیں اوطان سے بنتی ہیں جیسے متنازعہ انکار نہیں اچھلتے رہے اور قومی اتحاد میں رخنہ و فساد نہیں پڑتا رہا؟
اتحاد قومی کسی بھی حوالے سے ہوتا برطانوی سامراج کی موت ہوتا یہ خوف موسیولی بان جیسے ماہرین عمرانیات کی تحریروں میں واضح ہے۔
جس روز ہند میں قومیت کا احساس پیدا ہونے لگا وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو اور گو یہ احساس اس حد تک نہ بھی بڑھے کہ غیر قوم کو عملی طور پر ملک سے باہر نکال دینے ۔
کا جوش پیدا کر سکے بلکہ اسی قدر خیال پیدا کر دے کہ غیر قومی کی اعانت شرم کی بات ہے تو اسی روز گویا ہماری حکومت ختم ہو جائے گی ۔
چونکہ وطنیت مسلمانوں کے لئے نقصان دہ تھی اس لئے علامہ نے خود یورپ کے لئے بھی اسے نقصان دہ ثابت کرنا چاہا اور مسلمانوں کو بھی اس کے مضر قومی اثرات و نتائج سے آگاہ کیا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے محکم ہے جمعیت تری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی دنیا پر واضح کیا کہ جدید تصور قومیت ایک ایسا بت اور اس بت کی پرستش کی راہ ہے جس کا نتیجہ سوائے باہمی جنگ و جدال کے اور کوئی نہیں ہو سکتا دو عالم گیر جنگوں کا تجزیہ کرنے والے اس سے مختلف اسباب جنگ نہیں تلاش کر سکے۔
ہمیں ایک فیصلہ کن مرحلہ درپیش ہے ہمیں طے کرتا ہے کہ ہم جغرافیائی قومیت کا اصول تسلیم کر لیں یا جیسا کہ اسلام کا تقاضا ہے اپنا ملی اور سیاسی وجود قائم رکھیں جغرافی قومیت میں اسلام کی حیثیت محض ایک نظام اخلاق کی رہ جائے گی جس کی انتہا ممکن ہے لا دینی پر ہو۔”
یعنی تان وہیں ٹوٹی” صرف اور صرف لادینی کا تاریک غار جس میں اولاد آدم لحظہ لحظہ قدم قدم تا گلو دھنستی جارہی ہے۔
اس وجہ سے مجھ کو ایشیاء کے لئے اور خصوصاً اسلام کے لئے فرنگ سیاست کا یہ نظریہ (وطنیت)ایک خطرہ عظیم محسوس ہوتا ہے ۔”
پروف ریڈر نائمہ خان
حواشی
کتاب کا نام: علامہ اقبال کا تصور خودی،کوڈ: 5613،صفحہ: 145،موضوع: وطنیت(وطنیت کی تعریف و تفہیم)،مرتب کردہ:،ثمینہ شیخ