وارث شاہ (1722 تا 1798)
وارث شاہ جن کی شہرت کا باعث ان کی تصنیف ہیر ہے۔جنڈیالہ شیر خان کے رہنے والے تھے جو ضلع شیخوپورہ کا ایک گاؤں ہے۔
ان کے حالات زندگی اس قدر تاریکی میں ہیں جس قدر ان کی ناموری کا آفتاب روشن ہے۔
ان کی تصنیف میں جس طرح جنڈیالہ کا باشندہ ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے اسی طرح قصور کا نام بھی آیا ہے اور پاک پتن کا بھی۔
عام قیاس یہی ہے کہ قصور میں مخدوم حافظ غلام مرتضی ہی سے علوم ظاہری کی تعلیم حاصل کی ( وہی مخدوم جن کی بلھے شاہ نے بھی شاگردی کی اور اس طرح یہ بات چل نکلی کہ دونوں ہم مکتب تھے
جو اس حد تک تو ٹھیک ہو سکتی ہے کہ ایک ہی استاد کے دونوں شاگرد ہوں لیکن دونوں ہم عصر شاگرد نہیں تھے) ۔
اس کے بعد یہ پتہ نہیں چلتا کہ انہوں نے کہیں بیعت کی یا نہ کی البتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بابا فرید کے مزار پر حاضری دی۔
پھر ٹھٹھ جاہد میں قیام کیا اور غالباََ امام مسجد کے طور پر وہاں سے ملکہ بانس چلے گئے جہاں ہیر رانجھے کا وہ قصہ تصنیف کیا جس نے انہیں شہرت دوام بخشا۔
یہ قصہ سب سے پہلے دمودر جھنگی نے پنجابی میں لکھا تھا ۔ اگرچہ فارسی میں دمودر سے پہلے بھی منظوم کیا جا چکا تھا۔
دمودر کے بعد اور وارث شاہ سے پہلے احمد کوی اور مقبل کے قصے بھی لوگوں کی زبانوں پر تھے اور وارث کے بعد بھی بہت سے قابل ذکر شاعروں نے اس قصے کو نظم کیا لیکن قبول عام کا تاج ہیر وارث شاہ ہی کے سر پر سجا ۔
یہ قصہ 1180 ہجری میں لکھا گیا۔ کتاب کے اندر نادر شاہ کا بھی ذکر ہے جو 1739 میں حملہ آور ہوا تھا اور ابدالی کا بھی جو نادر شاہ کے بعد یہاں آتا رہا۔
اس طرح سکھوں کا بھی اس میں ذکر ہے جسے وہ چاٹ کہتا ہے سکھ نہیں کہتا۔
ہیر رانجھے کی داستان محبت جسے پنجابی کے معروف شاعروں نے علامت کے طور پر بھی استعمال کیا ہے ان لوک کہانیوں میں سے ایک تھی جو ہر ملک کی طرح یہاں بھی لوگوں میں نہ جانے کب سے سنائی جا رہی تھی۔
یہ کوئی تاریخی واقعہ نہیں ہے تا ہم اس میں بہت سی جذباتی ، اخلاقی ، معاشرتی اور معاشی سچائیاں موجود ہیں اور لوگ اس لیے زیادہ پسند کرتے آئے ہیں کہ اس میں ایسی سچائیوں کی دولت دوسروں سے زیادہ ہے۔
### جذباتی سچائی
عمر کے ایک حصے میں ہر کوئی آرزو کرتا ہے کہ اسے من مرضی کا کوئی ایسا ساتھی ملے جس سے وہ ٹوٹ کر چاہے۔
جس طرح ہیر اور رانجھے ایک دوسرے کو مل گئے تھے۔یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی اور قصے میں ایسے دو افراد کو بھی برسوں ملتے رہنے کا موقع نہیں ملتا
اور نہ ان کو پیمان وفا باندھنے کی اتنی زیادہ مہلت ملتی ہے
اس طرح قاضی مذہب کی آڑ میں جسے زبردستی سے کام لیتا ہے اس کے خلاف نفرت بھی اس راستے کی مسلمات میں سے ہے۔
### اخلاقی سچائی
یہ داستان کا حصہ تو نہیں ہے لیکن وارث شاہ نے جگہ جگہ ایسے مصرعوں کی پیوند کاری کی ہے جن میں ان اخلاقی سچائیوں کا درس دیا گیا ہے جن سے انکار ممکن نہیں ہے جیسے:
اے وارث نیکی اور بندگی کر کے دوبارہ اس دنیا میں آنا نہیں ہوگا۔
وارث شاہ بعد میں تو عبادت گزاری کے لیے پچھتائے گا جب عزرائیل گردن پر سوار ہو کر بولنے لگے گا۔
وارث شاہ ساڑھے تین ہاتھ زمین تیری ملکیت ہے تو کیوں زیادہ کے لیے ہاتھ پاؤں مرتا پھرتا ہے۔
بادشاہ سے عدل کے بارے میں ہی پوچھ گچھ ہوگی جب قیامت کے دن تولنے تلوانے کا وقت آئے گا۔
معاشرتی سچائی
اس کا اظہار بھی شاعر نے جا بجا مصرعوں میں کیا ہے جیسے:
کمزوروں کے رشتے زور والے چھین لیتے ہیں اور وہ بے بسی کے باعث لب تک نہیں ہلا سکتے۔
بھائیوں کے بغیر مجلسیں لطف نہیں دیتیں اور بھائیوں کے بغیر زندگی میں بہار نہیں ہوتی۔
آسودہ حال لوگوں کی لاکھ لاکھ خوشامدیں کی جاتی ہیں جبکہ غریب کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔
معاشی سچائی
اس کا سب سے بڑا اظہار تو ہیر کو سیدا کھیڑا کے ساتھ بیاہ دینے سے ہوتا ہے جس میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں تھی کہ اس کا باپ بہت بڑا جاگیردار تھا۔
اس کے علاوہ بھائیوں کے زمین کے معاملے میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ وطیرے سے بھی کھلتا ہے کہ مال و زر کا لالچ کس طرح بھائی کو بھائی کا بدخواہ کر دیتا ہے۔
اس سلسلے میں دو مصرعے دیکھیے:
رشوت دے کر بھائی اچھی زمین کے خود وارث بن گئے اور رانجھے کو بنجر جگہ دے دی۔
اگر پلو سے پیسہ کھول کر میرے ہاتھ پر رکھ دے تو میں گود میں اٹھا کر یعنی بڑے پیار سے پار اتار دوں۔
حواشی
کتاب کا نام : پاکستانی زبانوں کا ادب ,کورس کوڈ : 5618
موضوع : وارث شاہ ( 1722 تا 1798),صحفہ : 249 تا 250
مرتب کردہ : سمعیہ بی بی