اردو زبان کا کسی خطے کی بجائے زبان سے تعلق | Urdu zaban ka kisi khtay ki bajaye zaban se talluq
کتاب ۔۔۔۔۔تاریخ ادب اردو 1
صفحہ۔۔۔۔۔۔.45/54
موضوع ۔۔۔۔۔۔۔اردوزبان کا کسی خطے کی بجائے زبان سے تعلق
مرتب کردہ ۔۔۔۔۔۔کنول
اردو زبان کا کسی خطے کی بجائے زبان سے تعلق
یہاں پر اردو زبان کے آغاز کے بارے میں چندنظریات کا مختصر الفاظ میں تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔ ان نظریہ سازوں میں انفرادی اختلافات تو ملتے ہی ہیں مگر ان چاروں میں ایک بات مشترک ہے اور دو ہے یہ کہ حافظ محمود شیرانی، نصیر الدین ہاشمی اور سید سلیمان ندوی کے بر عکس ان محققین نے اردو زبان کا آغاز کسی خاص خطہ سے مشروط کرنے کی بجائے اردو کو کسی اور زبان کی "بیٹی "یا ” بہن ” قرار دیا۔ ان نظریہ سازوں نے اردوزبان کی جڑیں تلاش کرنے میں تاریخ میں بہت دور تک سفر طے کیا اتنا کہ عین الحق فرید کوٹی تو آریاؤں کی آمد سے بھی سیکڑوں برس پیچھے تک ماضی میں جا پہنچتے ہیں۔ اس وقت اردو لسانیات میں افکار و تصورات کا خاصہ متنوع نظر آتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: اردو زبان کے آغاز سے متعلق مختلف نظریات کا تنقیدی جائزہ مقالہ pdf
گذشتہ نصف صدی نے ہمیں ایسے لسانی محققین عنایت کیے ۔جن کی تحقیقات اور فراہمی مواد کے ضمن میں کی گئی کاوشیں خصوصی تذکرہ چاہتی ہیں ۔
لیکن ہم صرف چار ماہرین یعنی ڈاکٹر مسعود حسین خان، ڈاکٹر شوکت سبزواری، ڈاکٹر سہیل ماری اور عین الحق فرید کوٹی کے تصورات کا مختصر ترین الفاظ میں تعارف پیش کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اردو زبان کی تشکیل اور ارتقا کے حوالے سے مختلف نظریات
ان نظریہ سازوں نے اردو کو محض جغرافیائی خطہ اور بادشاہوں کے عہد حکومت کی "ضمنی پیدوار ” سمجھنے کے بر عکس مختلف زبانوں کی ساخت "نحوی قواعد "لفظ سازی اور اشتقاق سے وابستہ فنی اصولوں کے مطالعہ کی روشنی میں اردو زبان کے آغاز کی بات کی اور یوں کہ اردو زبان ایک خودرو زبان کے بر عکس کسی اور زبان کی آمیزش تسلسل اور توسیع قرار پائی۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان نظریہ سازوں کی یہی سب سے بڑی عطا ہے۔ ان کے نظریات اور تصورات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور اختلاف ہوا بھی ان پر علمی نوعیت کے اعتراضات کئے جا سکتے ہیں اور اعتراضات ہوئے تھی۔ ان پر فنی لحاظ سے نکتہ چینی ہو سکتی ہے اور ہوئی بھی۔ لیکن اتنا اعتراف لازم ہے کہ ان تصورات کا مطالعہ دلچسپ اور پر لطف ہے۔ مزید بر آں یہ کہ انہوں نے نئے مباحث چھیڑ کر اور نئے مسائل کی نشاندھی کر کے اردو لسانیات کو تنوع آشنا کیا اور ان سے مستزاد یہ امر کہ اردو کے آغاز کی بحث کو مخصوص خطوں تک ہی محدود کر دینے کے بر عکس اسے ماضی بعید کی کھلی فضا کا ذائقہ شناس بنا دیا اور اس میں ان کا جواز مضمر ہے۔ صحیح اور غلط کی بات جانے دیجئے۔ علمی نظریات کو دوام نہیں ہو تا۔
2- ڈاکٹر مسعود حسین خان کا نظریہ:
ڈاکٹر مسعود حسین خان لسانی محققین میں خاصی شہرت کے حامل ہیں انہوں نے اردو لسانیات کے ساتھ ساتھ زبان کے بارے میں تازہ تر مغربی تصورات کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ زبان کے ضمن میں وہ اسلوبیاتی تصور کے قائل ہیں اور اس کی روشنی میں انہوں نے بعض معروف شعراء کی شاعری کا اسلوبیاتی مطالعہ بھی کیا۔
جہاں تک ان کی لسانی کاوشوں کا تعلق ہے تو ان کی معروف تالیف "مقدمہ تاریخ زبان اردو” ( لاہور 1966ء) خصوصی تذکر ہ چاہتی ہے جس میں انہوں نے حافظ محمود شیرانی ، نصیر الدین ہاشمی اور مولانا محمد حسین آزاد کے نظریات کی تردید کرتے ہوئے اردو کے آغاز کے سلسلہ میں نیا تصور پیش کیا۔
"تشکیل ایک نئے لسانی نظریہ کی” کا عنوان قائم کر کے ڈاکٹر صاحب نے اپنا موقف ان الفاظمیں پیش کیا:
"زبان دہلوی ترکوں اور مسلمانوں کی قیادت میں جمنا پار کے جاٹ اور گوجر لے جاتے ہیں۔ شہر دہلی چار بولیوں کے سنگم پر واقع ہے۔ جمنا پار ٫ ہریانی اور میواتی بولیاں رائج ہیں شمالی مشرق میں کھڑی اور جنوب میں برج کا علاقہ ہے۔ اردو کے ارتقاء میں ان تمام بولیوں کے اثرات مختلف زبانوں میں پڑتے رہے ہیں۔ دکن کی زبان کا محاورہ سلاطین دہلی کے عہد کی یاد گار ہے۔ جبکہ آگرہ کی برج کے اثرات ہنوز نہیں پڑے تھے۔ دہلی میں بولیوں کی آنکھ مچولی کی داستان تفصیل سے بیان کرنا نا ممکن ہے اس لئے کہ اس حمد کا تحریری مواد تقریبا مفقود ہے ۔ البتہ صوفیاء کے اقوال اور ملفوظات میں جوجابجا ہندی اور ہندوی کے بھرے ہوئے فقرے ملتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جاٹوں اور گوجروں کی زبان کا محاورہ اس زمانے میں غالب تھا، یہی سطح دکن میں پہنچتی ہے۔ چونکہ ہریانی اور پنجابی میں بہت سے عناصر مشترک ہیں اس بنا پر پروفیسر شیرانی رکن کے لسانی مواد کا مقابلہ پنجابی سے کر کے سلسلہ اس سے ملا دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خسرو کی ” زبان دہلوی” میں ایک سے زیادہ بولیوں کا محاورہ لسانی ارتقاء کی جولان گاہ میں آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ دکن میں بھی ایک سے زیادہ بولیاں پہنچی ہیں اس لئے اردو کی ابتداء کے سلسلہ میں نئے نظریہ کی تشکیل اس طور پر کی جاسکتی ہیں ۔کہ ہم نواح دہلی کی تمام بولیوں کا تقابلی مطالعہ کریں اور دکنی زبان کی خصوصیات کو پنجابی کی جائے ان میں پہنچانے کی کوشش کریں ایسا کرتے وقت ان بولیوں کے جدید روپ ہی پیش نظر نہ رہیں
بالکہ ان قدیم نمونوں کا بھی جائزہ لیں جو دستیاب ہیں ۔ مذکورہ بالا تقابلی مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں ” قدیم اردو کی تشکیل براہ راست ہریانی کے زیر اثر ہوئی ہے اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑے ہیں اور جب پندرہویں صدی میں آگرہ سلطنت بن جاتا ہے اور کرشن تحریک کے ساتھ برج بھاشا مقبول ہو جاتی ہے تو سلاطین دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعہ درست ہوتی ہے اصلاح زبان کا سلسلہ لکھنو تک جاری رہتا ہے۔”
ڈاکٹر شوکت سبزواری نے اگر چہ متعدد علمی اور ادبی موضوعات و مسائل پر قلم اٹھایا مگر ان کی اصل شہرت ایک نظریہ سازلسانی محقق کے طور پر ہے۔اس سلسلہ میں ان کی یہ چار کتابیں معروف ہیں۔
داستان زبان اردو (کراچی : 1960)
اردو لسانیات (کراچی : 1966)
لسانی مسائل ( کراچی : 1963)
ان میں سے اول الذکر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے ان کا تحقیقی مقالہ تھا انہوں نے 1953ء میں ڈھا کہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مزید تفصیلات کے لئے راقم کی ڈاکٹر شوکت سبزواری کی منتخب
کتابیات مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد 1992ء کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے )۔
3- ڈاکٹر شوکت سبزواری کا نظریہ
ڈاکٹر شوکت سبزواری نے "اردو زبان کا ارتقاء "اور "داستان زبان اردو "میں اردو کے آغاز میں جو کچھ لکھا
اس کے بموجب :
” آج جس زبان کو ہم اردو کہتے ہیں وہ آریا قبائل کے ہم رکاب پاک و ہند آنے والی پراکرت کے کسی قدیم روپ کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ زبان کی عام فطرت کےمطابق یہ زبان کبھی ایک حالت پر قائم نہیں رہی ،برابر ادلتی بدلتی اور زمانے کے ختم نہ ہونے والے بہاؤ کے ساتھ ساتھ آگے کی طرف بہتی رہی۔”
(داستان زبان اردو کراچی 1987ء ص : 200)
وہ اس سے قبل اردو زبان کا ارتقاء میں یہ لکھ چکے تھے :
"اردو ہندوستانی یا کھڑی قدیم دیدک بولیوں میں سے ایک بولی ہے جو ترقی کرتے کرتے یا یوں کہیے کہ ادلتے بدلتے پاس پڑوس کی بولیوں کو کچھ دیتے کچھ ان سےلیتے اس حالت کو پہنچی جسے ہم آج دیکھتے ہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ میر ٹھ اور اس
کے نواح میں بولی جاتی تھی ۔”
(اردو زبان کا ارتقاء ڈھاکہ
1956 ء ص : 84)
ڈاکٹر شوکت سبزواری کے بموجب :
پالی اس کی ترقی یافتہ ادبی اور معیاری شکل ہے اور اردو اور پالی دونوں کا منبع ایک ہے۔
پالی ادب ، فن اور فلسفے کی زبان ہے اور ہندوستانی روزانہ بول چال لین دین اورکاروبار کی ۔ پالی اعلیٰ درجہ کو پاکر ٹھر گئی لیکن ہندوستانی عوام کو زبان ہونے کی وجہ سے اور بازار باٹ میں بولے جانے کے باعث برابر تر شتی ترشتاتی اور
چھلتی چھلاتی رہی "۔
(ایضا،ص: 87)
مندرجہ بالا اقتباس کے ضمن میں یہ واضح رہے کہ ڈاکٹر شوکت سبزواری جیسے "ہندوستانی ” کہہ رہے ہیں وہ اردو ہی ہے۔ تو یہ ہے مختصر الفاظ میں ڈاکٹر شوکت سبزواری کا نظریہ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ ” داستان زبان اردو” کے پیش لفظ میں انہوں نے اس امر کی تردید کر دی کہ وہ "پالی کو اردو زبان کی اصل ” قرار دیتے ہیں ان کے بقول :
"اپنی طرف سے میں نے کوئی نیا نظریہ پیش نہیں کیا اور نہ اس کی ضرورت تھی”
(داستان زبان اردو ص) (4)
ڈاکٹر شوکت سبزواری کے نظریہ میں کیونکہ پالی زبان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اس لئے پالی کے بارے میں مختصر بیان کیا جاتا ہے۔ سنتی کمار چیڑجی نے ہند آریائی اور ہندی میں پالی زبان کے بارے میں لکھا ہے :
"پالی وسطی علاقہ کی پرانی زبان پر مبنی ادبی زبان تھی۔ بعد میں چینیوں نے اس قدیم
مشرقی بولی میں ترمیم کی اور اسے کافی بدل ڈالا لیکن مجموعی طور پر اپنی مقدس
تحریروں میں وہ اس کے پابند رہے اور وہاں اس کو "اردھ ماگدھی ” کہا جاتا ہے..
پالی ایک ایسی قدیم ہند آریائی بولی تھی جس میں بودھی صحیفے مہا تم بدھ کی اپنی مشرقی بولی سے ترجمہ کئے گئے اس پالی کو غلطی سے مگدھ یا جنوبی بہار کی قدیم زبان تصور کیاجاتا ہے اس کے برخلاف یہ وسطی علاقہ (متھر اسے اجین تک) کی بولیوں پر مبنی ادبی
زبان تھی۔ دراصل یہ مغربی ہندی کی صورت تھی، وسطی علاقہ کی زبان کی حیثیت سے پالی آج تک ہندی یا ہندوستانی کی مانند تھی۔ یہ آریہ ورت یا آریائی سر زمین کےمرکز یا قلب کی زبان تھی، ارد گرد کے مشرق مغرب شمال مغرب جنوب اورجنوب مغرب کے لوگوں کے لئے اس کو سمجھنا مشکل نہیں تھا۔ بدھ تعلیمات کا یہ پالی ترجمہ (اور بعد میں سنسکرت ترجمہ) مشرقی بولی کی اصل تعلیمات سے بھی سبقت لے گیا۔ پالی بدھ مت کے تھیرواد (Thervad) مکتب فکر کی ادبی زبان بن گئ۔”
(ہند آریائی اور ہندی زبان ص155)
اشوک نے بدھ مت کی تبلیغ کے لئے پالی زبان کا انتخاب کیا تھا جس اس کی مشہور لاٹوں پر بھی پالی ہی میں احکا م کندہ کئے گئے تھے۔
"رگ دید ہندوستان کی قدیم ترین اور آریاؤں کی وہ پہلی کتاب ہے۔ جو ہم تک پہنچی ہے چنانچہ اس میں اردو الفاظ کی موجودگی یہ ثابت کر رہی ہے کہ ہماری زبان ویدک کال سے بھی پہلے اس علاقے میں بھاشا کے طور پر کام آرہی ہے۔ ان الفاظ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہماری بول چال کی آوازوں میں ہزاروں سال سے آج تک زیر و زیر پیش کا بھی فرق نہیں آیا ہے اور اس طرح کے ماخذ اور اشتقاق سے متعلق اب تک کی تمام غلط فہمیاں اور تمام نظریات از خود باطل ہو جاتے ہیں”
(مقالہ مطبوعہ نقوش (لاہور) سالنامہ 1967ء
4- ڈاکٹر سہیل بخاری کا نظریہ
ڈاکٹر سہیل ماری نے اپنے ایک مقالہ بعنوان "اردو زبان کا آغاز ” میں ایسا نظریہ پیش کیا جس کی رو سے حافظ محمود شیرانی ، نصیر الدین ہاشمی، سید سلیمان ندوی اور دیگر ماہرین لسانیات کے تمام نظریات ان کے بموجب ازخود باطل ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سہیل بخاری کی متعدد کتابوں میں سے لسانی نظریہ سازی کے لحاظ سے اردو کا روپ (لاہور 197ء) اور اردو کی کہانی (لاہور : 1975 ء ) حوالہ کی چیز قرار پا چکی ہیں۔ ڈاکٹر سہیل طاری کے انتقال کے بعد ہونے والی کتاب نظامیات اردو (لاہور : 1989ء) ہے۔ اس امر کے باوجود کہ یہ نظریہ بے حد نزاعی ہے
ماہرین لسانیات نے بالعموم اس کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا۔
ڈاکٹر سہیل طاری کے استدلال کے بموجب :
"ہر زبان کا نام نسبتی ہوتا ہے جو اس کے علاقہ پر رکھا گیا ہے چنانچہ ہماری اردو زبان کا اصلی اور قدیم نام کھڑی بولی ہے اور اردو کا دوسرا نام ہے جو عہد شاہجہان میں یا اس کے بعد رکھا گیا تھا۔ کھڑی کا نام بھی نسبتی ہے جو علاقہ کھڑسے اپنا تعلق ظاہر کر رہا ہے چنانچہ کھڑی کا مطلب ہو ا علاقہ کی بولی یعنی لفظ کھڑی میں یائے نسبتی ہے۔ کھڑ غالباً اڑیسہ کے جنوب میں سمندر کے قریب واقع ایک کٹا پھٹا علاقہ ہے۔ کیونکہ کھڑ کے متبادل الفاظ کھنڈ اور کاٹ ہیں …. میرے اندازے کے مطابق میں اس کھڑی بولی کی جنم بھوی ہے جس کی فارسی پسین میں قلم بند کی ہوئی ایک شکل کو ہم اردو کہتے ہیں اور دیوناگری پس میں قلم بند کی ہوئی دوسری شکل کو ہندی کے نام سے پکارتے ہیں”۔
(مقالہ بعنوان کار دو زبان کا آغاز دار نقاء ، مشمولہ اردو زبان کی تاریخ مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ ، علی گڑھ 1955 ء ص : 116)
اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ متنازعہ نظریات کا سلسلہ ختم ہو گیا تو ایسا نہیں کیونکہ عین الحق فرید کوئی تو سہیل بخاری سے بھی ماضی میں پیچھے چلے گئے اتنے پیچھے کہ شاید مزید پیچھے جانے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ عین الحق فرید کوئی کے بموجب قدیم زمانہ یعنی قبل مسیح میں آریہ قبائل کی آمد سے بھی قبل شمالی ہندوستان میں دراوڑی نسل آباد تھی اور ان سے بھی پہلے منڈا نسل کے مختلف قبائل آباد تھے جب یہ آریہ آئے تو انہوں نے دراوڑوں اور دیگر نسلوں کے افراد کو جنوب کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا چنانچہ اب بالعموم یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ جنوبی ہند کی بعض معروف زبانیں جیسے تامل، ملیالم، کنٹری اور تلگو در اصل دراوڑی زبان کے روپ ہیں۔ اس ضمن میں سینتی اکمارچیڑ جی ہند آریائی اور ہندی میں لکھتے ہیں کہ :
"ایرانی خاندان کی پشتو اور بلوچی زبانوں اور ہند آریائی سندھی کے درمیان یا ان کے قرب وجوار میں بلوچستان کے کوئٹہ کے ارد گر دبر اہوی بولی جاتی ہے جو دراویدی کی الگ تھلگ زبان ہے”
(ہند آریائی اور ہندی ص : 62)
سینتی کمار چیٹرجی دراوڑی کے ضمن میں لکھتے ہیں :
"لفظوں اور ان کی شکلوں میں مادوں اور فقروں کی انداز میں درادیدی قریب یا بعید کے کسی بھی خاندان سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی۔”
(ایضاس : (42)
اور عین الحق فرید کوٹی نے اسی دراوڑی زبان کو اردو( اور ساتھ ہی پنجابی زبان) کا بھی کا خذ قرار دیا ہے وہ اردو زبان کی قدیم تاریخ میں اس خیال کا اظہار کرتے ہیں :
"جب ہم اردو زبان کی صرف و نحو کا پنجابی اور برج بھاشا کی صرف و نحو سے موازنہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ جہاں اردو اور پنجابی کے در میان گہرا رشتہ موجود ہے۔ وہاں اس کے برج بھاشا کے ساتھ اختلافات کی خلیج وسیع ہے۔(ص : 80)
جب ہم اردو زبان کے لغوی سرمائے اور صرف و نحو کا موازنہ بر صغیر کی موجودہ زبانوں سے کرتے ہیں تو جو زبان اس کے سب سے زیادہ نزدیک نظر آتی ہے وہ پنجابی ہے (ص : 93) آریاؤں کی آمد کے وقت وادی سندھ میں دراوڑی قبائل کو بالا دستی حاصل تھی …… منڈ ا قبائل بر صغیر کے قدیم ترین باشندے ہیں اور دراوڑوں کی آمد سے قبل یہاں آباد تھے ۔ (ص : 96) آج سے کوئی چھ ہزار سال قبل یا اس سے بھی پہلے یہاں منڈا گروہ کی زبانوں کا چلن تھا (ص : 125) آریاؤں کی آمد سے قبل وادی سندھ میں دراوڑ اور منڈا اقوام کا دور دورہ تھا اور ہڑپہ و موہنجوداڑو کی گلیوں اور بازاروں میں انہی گروہوں سے تعلق رکھنے والی زبانیں بولی جاتی تھیں (ص : (171) اور عین الحق فرید کوٹی کے بموجب ہیں دراوڑی اردو اور پنجابی کی ماخذ ہے۔”
5 – عین الحق فرید کوٹی کا نظریہ:
عین الحق فرید کوٹی نے مندرجہ ذیل مثال سے مختلف زبانوں کا اشتراک واضح کیا ہے۔
پنجابی – ڈھوک ، جھوک : پانی کے ذخیرے کے کنارے آباد گاؤں
سندھی۔ جھوک : پانی کے ذخیرے کے کنارے آباد گاؤں
پشتو ڈاگ ڈاگر ڈالی ڈھکی ندی نالہ، جھیل یا ان کے کنارے آباد گاؤں
بلوچی – ڈو کو ڈھاکہ ڈھاک ، جھوک : ندی نالہ چشمہ یا ان کے کنارے آباد گاؤں
براہوی : ڈیک پانی ندی نالہ وغیرہ
(اردو زبان کی قدیم تاریخ سر ورق کی پشت پر دیا گیا نقشہ )
رشید اختر ندوی کی ایک دلچسپ تحقیقی کتاب ہے ۔ پاکستان کا قدیم رسم الخط اور زبان (اسلام آباد : 1995ء) اس میں انہوں نے مغربی ماہرین لسانیات کے شواہد کی بنا پر دراوڑی کے بارے میں لکھا ہے۔
"رگ دید الفاظ کی موجودگی اس امر کا ثبوت ہےکہ ان دنوں دراویڈی شمال مغربی ہند میں موجود تھےاور وہی زبان آج بھی شمال مغربی دراویڈی کی نماہندہ ہے۔”
(پاکستان کا قدیم رسم الخط اور اردو زبان اسلام آباد (1995ء ص : 225)
رشید اختر ندوی بلوچستان میں آباد براہوہی نسل کی زبان کے بارے میں لکھتے ہیں :
علمائے لسان کا خیال ہے کہ بروہی قبیلہ جب سے بلوچستان کے اس پہاڑی حصہ میں ایران سے اگر آباد ہوا تھا تو ان کے اور یہاں کے اصل آباد کاروں ڈراویڈی قبائل میں حد درجہ خلط ملط ہوا تھا اور یہ زبان اس اختلاط کی پیداوار ہے اور امتدادزمانہ کے باوجود اپنے حسب و نسب سے خاصی مضبوطی کے ساتھ چپکی رہی ہے”۔
(پاکستان کا قدیم رسم الخط اور اردو زبان اسلام آباد 1995 ء ص : 225)
عین الحق فرید کوٹی نے اپنے ایک نظریہ کی تائید میں منڈا ،در اوڑی، پنجابی اور اردو کے ساتھ ساتھ تامل اور ملیالم کے مشترک الصوت اور ہم معنی الفاظ کی فہرست مرتب کی ہے .
واضح رہے کہ منڈا قبائل کوئی چھ ہزار برس قبل پنجاب اور سندھ کے علاقہ میں آباد تھے۔ ہم اردو لسانیات کے دو شعبے کر سکتے ہیں ایک وہ شعبہ جس کے بموجب اردو کا آغاز کسی مخصوص جغرافیائی خطر سے مخصوص قرار دیا جاتا ہے چاہیں تو اسے کلاسیکی لسانیات یا قدیم لسانیات بھی کہہ لیں جبکہ اس کے بر عکس جدید لسانیات میں اردو کے آغاز کا مسئلہ جغرافیہ کے بر عکس قدیم تاریخ اور علم الانسان کی تناظر میں طے کیا جانے لگا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ نظریہ سازوں کا ماضی میں سفر انہیں عہد تحقیق میں لے گیا۔ اس لسانی جستجو کا انتقام کہاں ہو گا ؟ شاید قبل تاریخ کے اس عہد میں جب انسان نے اپنی محدود زندگی کی محدود تر ضروریات کے لئے گنتی کے چند الفاظ ہی سکھے ہوں گے ابھی اس نے لفظوں کے ہار گوندھنے نہ سیکھے تھے۔