رشید امجد کی تنقیدی بصیرت اور حلقہ ارباب ذوق سے وابستگی
فتح محمد ملک نے فیض کو سمجھنے کے لیے روایتی تنقیدی اصطلاحوں کو استعمال نہیں کیا بلکہ برصغیر میں مسلم ثقافت کے تسلسل میں دیکھا ہے۔ رشید امجد نے فتح محمد ملک کے اس انداز نقد کو سراہا ہے۔
موضوعات کی فہرست
نئی غزل اور رشید امجد کی تفکر انگیز تنقید
’یافت دریافت‘ میں ’تین نئے غزل گو‘ کے نام سے بھی ایک مضمون شامل ہے۔ اس مضمون میں رشید امجد نے تفکر انگیز اور نئی غزل کے بارے میں مدبرانہ اور تنقیدی نظر ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’آج کا آدمی Living Dead man کی حیثیت سے ایک بے آواز زندگی گزار رہا ہے کوئی آواز اپنی نہیں، کوئی وجود اپنا نہیں، بے صدا آوازوں اور بے وجودوں کے اس گروہ میں احساس اس مجرم دیوتا کی طرح ہے جس سے زیوس کے حکم سے ایسے کنویں میں لٹکا دیا گیا ہے جس میں پانی بھی ہے اور سیب کے درخت بھی۔
وہ انہیں دیکھ تو سکتا ہے مگر حاصل نہیں کر سکتا کہ دیوتاؤں نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ دیکھ کر نہ دیکھنے، پا کر نہ پانے، ہل کر نہ ملنے کا یہ کرب آج کی غزل کا بنیادی مسئلہ ہے جو نئی غزل میں مختلف جہتوں سے منعکس ہوا ہے۔‘‘ (۳۳)
رشید امجد کا نئی غزل گوؤں کے بارے میں کہنا ہے کہ اس صنف سے منسلک شعراء ایک طرف تو ماضی سے جڑے رہنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف نئے زمانے کے تقاضے ہیں،
جس کی وجہ سے اس دور کے شعراء قدیم سے تعلق جوڑنے کی سعی میں متضاد کیفیتوں سے دوچار ہے۔ پرانا شاعر تشبیہ کا استعمال کرتا تھا جب کہ آج کا شاعر تشبیہ کے برعکس پیکر کی مدد سے اپنا خیال پیش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ رشید امجد نے سیاسی و سماجی تناظر میں شاعروں کے ذہنی رجحانات کا ذکر بھی کیا ہے لکھتے ہیں:
’’نئی شاعری میں عصری مزاج کی کوئی کلی یا مرکزی حیثیت تو متعین نہیں کی جاسکتی لیکن معاشرے اور فرد کی اجتماعی، انفرادی شکست و ریخت پس منظر کا کام ضرور کرتی ہے۔
اس شکست و ریخت کے نتیجہ میں بٹی ہوئی شخصیت دوسری ذات کا ادراک اور اقدار کی مسخ شدہ صورت کا المیہ، ایسی مشترکہ قدریں ہیں جنھیں نئی اردو غزل میں آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔‘‘
نئی غزل کے بارے رشید امجد کے خیالات سے کئی اور نقادوں کے خیالات ملتے ہیں جس سے ڈاکٹر صاحب کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نئے شعرا کے ہاں تشبیہ کا کم استعمال اور پیکر تراشی کے بارے ڈاکٹر حامدی کاشمیری بھی رشید امجد کی رائے سے ملتی جلتی بات کہتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’نئی غزلوں میں پیکریت کا عمل بھی خاصا توجہ طلب ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیا شاعر ایک میکانکی شعری عمل یعنی خیالات کو نظم کرنے یا ان کے لیے شعوری کدو کاوش سے موزوں متلازمہ یا پیر تلاش کرنے کی بجائے اپنے وجود کی پنہائیوں میں دوریوں کے تجربات کو زندہ متحرک اور نمو پذیر پیکروں یا آرکی ٹاپکس میں شناخت کرتا ہے.‘‘
افسانے کی نئی جہتیں اور رشید امجد کا نقطہ نظر
اس مجموعے یافت دریافت میں ایک اور مضمون ”کچھ اردو افسانے کے بارے میں“ ہے۔ رشید امجد چونکہ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اس لیے افسانے پر ان سے بہتر کوئی اور کیا کہے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ادب میں نئے اور پرانے موضوعات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس لیے ان کا کہنا ہے کہ نئے موضوع پر لکھا جانے والا افسانہ پرانی روایت کا ہو سکتا ہے اور اسی طرح پرانے موضوع پر لکھا ہوا افسانہ آج بھی نئے رویے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ آج کل کے جدید افسانے میں سب سے بڑا مسئلہ ابلاغ کا ہے لکھتے ہیں:
’’تنقید ابھی تک اپنی انہی پرانی اصطلاحوں کے سہارے کھڑی ہے نتیجہ یہ ہے کہ جب ہم ان معیاروں سے نئے فن کو جانچنے کی کوشش کریں گے تو معاملہ گڑ بڑ ہو جائے گا مطلب یہ ہے کہ اگر کہانی پن کی اس پرانی تعریف کے حوالے سے نئے افسانے کا جائزہ لیں گے تو ہمیں بہت سے افسانوں میں کہانی سرے سے نظر ہی نہیں آئے گی۔‘‘
رشید امجد کا خیال ہے کہ نیا افسانہ اب پرانی تنقیدی نظام کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا ہے بلکہ نیا افسانہ اب کڑی تنقید کا تقاضا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ افسانے پر تنقید ایسا نقاد کر سکتا ہے جو خود افسانہ نگار نہ ہو۔
ان کا خیال ہے کہ نئے افسانہ نگار کئی سمتوں کی طرف چل رہے ہیں اور اس طرح افسانہ نئی جہتوں سے متعارف ہو رہا ہے۔
حلقہ ارباب ذوق سے رشید امجد کی گہری وابستگی
حلقہ ارباب ذوق ایک سال ایک ایسا مضمون ہے جس سے رشید امجد کی گہری وابستگی کا پتہ چلتا ہے لکھتے ہیں:
’’میں نے حلقہ سے بہت کچھ سیکھا، میری ساری ادبی تربیت حلقہ کے حوالے سے ہے اور سچی بات ہے یہ جو دو چار الٹے سیدھے لفظ لکھنے کا ڈھنگ آتا ہے، حلقہ ہی کی دین ہے۔‘‘
اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے حلقہ کی ادبی خدمات کو سراہا ہے۔ ان کے خیال میں حلقہ ارباب ذوق اب ایک تحریک ہے جو کہ کسی خاص نعرے کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی سازش کا نتیجہ ہے بلکہ یہ خالصتا ایک ادبی تحریک ہے۔
مزید چل کر رشید امجد بیان کرتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک کا دور اب ختم ہو چکا ہے اور یا ادب نو ترقی پسندی میں داخل ہو چکا ہے لکھتے ہیں:
’’نو ترقی پسندی میں نے اس لیے کہا کہ نئی نسل ۱۹۳۶ء کے ترقی پسندوں کی طرح نہ تو اور نہ انقلاب کے نعرے لگا کر شہرت کی سیڑھی چڑھنا چاہتی ہے۔ پرانے ترقی پسندوں نے انقلاب کے حوالے سے ادب کو ایک میکانکی عمل سمجھا تھا۔ چنانچہ وہ فارمولے کے تحت ادب لکھتے تھے ۔‘‘ (۳۸)
انشائیہ اور وزیر آغا کے "دوسرا کنارہ” پر رشید امجد کی آراء
رشید امجد نے انشائیوں کی کتاب ”دوسرا کنارہ“ کو بھی تنقیدی آراء دی ہیں۔ ”دوسرا کنارہ“ وزیر آغا کا انشائیوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ رشید امجد نے انشائیہ کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ انشائیہ موضوعات کے حوالے سے اور طرز اظہار کے حوالے سے ایک زندہ صنف ادب ہے۔ وزیر آغا کے فن انشائیہ پر رشید امجد لکھتے ہیں:
’’چوری سے یاری تک ایک پڑاؤ ہے جہاں لمحہ بھر کے لیے ٹھہر کر سفر کی ساری عطا کو سمیٹنے کی تصویر ابھرتی ہے اس ساری عطا کو دیکھ کر سنجیدگی اور بردباری کی کیفیات ابھرنے لگتی ہیں چنانچہ خیال پارے کی سیمابی کیفیت کے برعکس ”چوری سے یاری تک“ میں ایک ٹھہراؤ محسوس ہوتا ہے، ”دوسرا کنارہ“ اس ٹھہراؤ کا اگلا قدم یعنی فلسفیانہ بلندی اور گیانی کے مسرت کا اظہار ہے ۔‘‘
ڈاکٹر رشید امجد کا خیال ہے کہ وزیر آغا کا انشائیوں کا مجموعہ ”دوسرا کنارہ“ نئے دور کا آغاز ہے۔ رشید امجد ایک افسانہ نگار ہونے کے باوجود انشائیہ کو اپنا پسندیدہ صنف ادب قرار دیتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے
کہ ان کو وزیر آغا کی شخصیت سے انس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انشائیہ کے لیے جن اوصاف کا ہونا ضروری ہے ان میں علم، فکر، فلسفہ، اور نفاست ہے اور یہ تمام خصوصیات وزیر آغا میں موجود ہیں۔
سراج منیر اور ان کی ادبی خدمات
ابتدائی ادبی سفر اور تنقیدی مضامین
سراج منیر زمانہ طالب علمی میں ہی ادبی سفر کا آغاز کر چکے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں تحصیل علم کے دوران (۱۹۷۴) میں ان کے چند ابتدائی مضامین کی اشاعت ہوئی۔ پھر ۱۹۷۵ء میں مجلہ "راوی” کے ایڈیٹر بنے۔
ستر (۷۰) کی دہائی میں سراج منیر اپنے تنقیدی اور تحقیقی مضامین کے ذریعے ادبی حلقوں میں جانے جاتے تھے۔ سراج منیر نے جو مختلف مضامین لکھے ان کی درجہ بندی یوں کی جاسکتی ہے: تنقیدی مضامین، دیباچہ نگاری، تبصرہ نگاری، اداریہ نگاری، سیاسی مضامین۔
ان کے تنقیدی مضامین میں ان کے ادبی نظریات کھل کر سامنے آتے ہیں۔ شروع میں دائیں بازو کی ادبی تحریک سے منسلک رہے مگر بعد میں ان کا رجحان خالص ادبی ہوتا چلا گیا۔ انھوں نے کئی مضامین حلقہ ارباب ذوق میں پڑھے جن کا ثبوت ڈاکٹر یونس جاوید کی کتاب "حلقہ ارباب ذوق” سے ملتا ہے۔
ان مضامین میں ایک ن.م. راشد اور دوسرا اسجاد باقر رضوی کی شخصیت اور فن پر ہے جو کہ حلقے کے اجلاسوں میں پڑھے گئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ڈاکٹر یونس جاوید کی کتاب حلقہ ارباب ذوق پر بھی ایک تنقیدی مضمون لکھا۔
محمد حسن عسکری دراصل سراج منیر کے پیش رو ہیں۔ سراج منیر نے ان کے ادبی نظریات سے استفادہ کیا اور ان کے ادبی نظریے کی حمایت کی ہے۔ عسکری کے بارے سراج منیر لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے ان کی طبیعت میں حسن کی پہچان کا ملکہ ودیعت کر دیا تھا۔ جس سے انھوں نے زندگی کے ہر مرحلے اور مرتبے میں کام کیا اور اپنے علم کو عمل کی بنیاد بنایا۔ بزرگوں کی تحریروں میں ہم نے صاحب خیر کثیر پڑھا اور عسکری صاحب کی شکل میں دیکھا۔
دیکھا بھی کیا کہ ابھی تو ادب کے عام طالب علم سے عسکری صاحب کا تعارف بھی نہیں ہوا۔ اس لیے اتنی متنوع شخصیت سے تعارف حاصل کرنے کے لیے بھی ایک‘‘
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اردو تنقید اور حلقہ ارباب ذوق (۷۰ کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاہ
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز ، اسلام آباد
- صفحہ نمبر: 72-76
- آپ تک پہنچانے میں معاون: عدیل شہزاد