اردو شاعری میں عشق کا تصور
مرتب کردہ۔۔۔ منظور احمد
کتاب کا نام۔۔۔ میر اور غالب کا خصوصی مطالعہ۔۔
کورس کوڈ۔۔۔5612
پیج ،69..
حصہ اول۔۔۔
اردو شاعری میں عشق کا تصور
اُردو شاعری میں عشق کی دو قسمیں رہی ہیں اور اس کی مناسبت سے حسن کی بھی دو قسمیں ملتی ہیں۔ عشق کی ایک قسم کی مجازی ں ہے دوسری حقیقی۔ عشق مجازی سے مراد وہ عشق ہے، جو انسان سے کیا جائے ۔ مثلاً مرد اور عورت کے درمیان جو عشق ہوتا ہے اسے عشق مجازی کہتے ہیں۔ عام طور پر مرد عورت کے عشق میں مرد کی حیثیت عاشق کی ہوتی ہے اور عورت کی حیثیت معشوق کی ۔ اردو غزل میں عشق کا اظہار بھی مرد کی طرف سے ہوتا ہے لیکن ہندی شاعری میں عشق کا اظہار عورت کی طرف سے ہوتا ہے۔ ہماری پرانی دکنی شاعری پر ہندی شاعری کا یہ اثر خاصا نظر آتا ہے۔
اُردو غزل میں عشق مجازی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ مرد کا عشق مرد کے ساتھ اور عورت کا عشق عورت کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ اسے ہم جنسی عشق بھی کہا جا سکتا ہے۔ یوں تو ہمارے معاشرے میں عشق کا تصور ہی غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے لیکن ہم جنسی عشق کو نسبتا زیادہ غیر اخلاقی اور غیر شرعی تصور کیا جاتا ہے۔
عشق حقیقی سے مراد وہ عشق ہے جو انسان کو خدا کے ساتھ ہو۔ بالفاظ دیگر جس عشق میں عاشق انسان ہو خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور محبوب خدا ہو۔
اس صورت حال کے پیش نظر اُردو شاعری یا اردو غزل میں تین قسم کے محبوب نظر آتے ہیں ۔ (۱) خدا (۲) عورت یالڑ کی اور (۳) مرد یا لڑکا۔
اردو شاعری میں محبوب چاہے مرد ہو چاہے عورت دونوں کے لیے صیغہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ اس بظاہر غیر فطری روایت پر خاصی بخشیں ہو چکی ہیں اور اس روایت کے جوار میں مضبوط دلائل بھی پیش کیے جاسکتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑی دلیل یہ رہی ہے کہ چونکہ ہمارا معاشرہ عورتوں کی بے نقابی کا حامی نہیں اس لیے صیغہ وتذگیرانی کا استعمال اس کے حق میں ہے۔