اردو نظم میں موضوع اور ہیت کے تجربے | بی ایس اردو نوٹ

کچھ اس تحریر سے

  1. قدیم دور کے شعراء میں سے نظیر اکبر آبادی ایک بڑے نظم نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔۔۔
  2. اگر چہ بعض شعراء نے مثنوی نگاری میں خصوصی دلچسپی لی اور مثنوی کو بام عروج تک پہنچادیا۔ لیکن پھر بھی مجموعی اعتبار سے نظم کی مقبولیت قدرے کم رہی۔۔۔۔
  3. ان مشاعروں میں نئے شعراء کی راہنمائی حالی اور آزاد کی نظموں نے کی اور اس طرح جدید نظم کو فروغ حاصل ہونے لگا۔..

اردو نظم میں موضوع اور ہئیت کے تجربے

اردو نظم میں موضوع اور ہیت کے تجربے، قدیم دور کے شعراء میں سے نظیر اکبر آبادی ایک بڑے نظم نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اگر چہ دکن میں پندرھویں صدی عیسوی سے اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز تک غزل کے مقابلے میں مختصر نظمیں زیادہ لکھی گئیں۔

لیکن ولی دکنی اور بعد ازاں میر وسودا کے دور سے لیکر غالب و مومن کے دور تک غزل کا چلن عام رہا۔ اگر چہ بعض شعراء نے مثنوی نگاری میں خصوصی دلچسپی لی اور مثنوی کو بام عروج تک پہنچادیا۔ لیکن پھر بھی مجموعی اعتبار سے نظم کی مقبولیت قدرے کم رہی۔

جدید دور میں نظم کی مقبولیت کا ایک دور انجمن پنجاب کے مشاعروں سے شروع ہوا۔1856ء میں انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب کے نام سے قائم ہوئی جو بعد میں ” انجمن پنجاب“ کے نام سے مشہور ہوئی۔

اس انجمن کے محرک اعلیٰ کرنل ہالرائیڈ تھے۔ ان کے تصور کو ڈاکٹر لائٹیز نے عملی صورت دی، البتہ اس کے روح رواں محمد حسین آزاد تھے۔

انجمن کا ایک بڑا کارنامہ نئی شاعری کے مشاعروں کا انعقاد تھا ۔ 1874ء میں محمد حسین آزاد کی کوششوں سے لاہور میں نظم کے مشاعرے شروع ہوئے۔

یہ مشاعرے جدید اردو شاعری کا نقطہ آغاز ہیں۔ ان مشاعروں میں مختلف موضوعات پر لکھی گئی نظمیں پیش کی جاتیں تھیں۔ ان مشاعروں میں الطاف حسین حالی بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ ان مشاعروں میں نئے شعراء کی راہنمائی حالی اور آزاد کی نظموں نے کی اور اس طرح جدید نظم کو فروغ حاصل ہونے لگا۔

بعد ازاں اسماعیل میرٹھی ، مولانا شبلی نعمانی ، شوق قدوائی، اکبر الہ آبادی وغیرہ نے مختلف موضوعات پر کامیاب نظمیں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

اسی دور میں برج نرائن چکبست ، سرور جہاں آبادی، نادر کا کوروی ، خوشی محمد ناظر، غلام بھیک نیرنگ، تلوک چند محروم, نظم طباطبائی اور دیگر بہت سے شعراء نے تھوڑے بہت زمانی فرق کے ساتھ وطن پرستی ، فطرت نگاری، اخلاقیات، سیاسیات اور تاریخ وغیرہ کے موضوعات پر بکثرت نظمیں لکھیں۔

ان شعراء نے اپنی تخلیقی کاوشوں کو نظم نگاری کے لیے مخصوص کر دیا۔ نظم نگاری کے اس دور میں چند ایک شعراء کی کوششوں سے نظم کی ہیتوں میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

انگریزی طرز کا اسٹینزافارم جسے کو اٹرین (QUATRAIN) کہا جاتا ہے اور جس میں دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں ، اس قسم کی نظم کا تجربہ برج موہن دتاتریہ کیفی نے سب سے پہلے ۱۸۸۷ء میں ملکہ وکٹوریہ کی "گولڈن جوبلی پر” کے نام سے کیا۔ اسٹیزافارم میں یہ نظم ان کے مجموعہ کلام ” واردات” میں شامل ہے۔ البتہ اس نظم کو محض ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔

بعد ازاں علی حیدر نظم طباطبائی نے ”گور غریباں” کے نام سے انگریزی شاعر تھامس گرے کی مشہور ایلیچی کا منظوم ترجمہ کیا جو جولائی ۱۸۹۷ء کے "دلگداز“ میں شائع ہوا۔

نظم طباطبائی نے اسٹینزافارم کو انتہائی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ یہ نظم آج بھی اُردو کے بہترین منظوم تراجم میں شمار کی جاتی ہے۔

نظم طباطبائی نے اسٹینز افارم کو انتہائی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔

یہ نظم آج بھی اُردو کے بہترین منظوم تراجم میں شمار کی جاتی ہے۔ دلگداز کے مختلف پرچوں میں عبد الحلیم شرر نئے انداز کی نظم نگاری کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔

عبد الحلیم شرر نے اُردو شاعری کی حد سے زیادہ پابندیوں کا احساس کیا اور انگریزی شاعری کی آزادیوں اور وسعتوں سے خود بھی فائدہ اٹھایا اور اپنے دور کے دیگر شعراء کی اس حوالے سے خاطر خواہ حوصلہ افزائی کی، جس سے اُردو شاعری میں اظہار کے نئے نئے قرینوں کو فروغ حاصل ہوا۔

یہی صورت رسالہ معارف علی گڑھ میں دکھائی دیتی ہے۔ سر عبد القادر نے بھی خود شاعر نہ ہونے کے باوجود جدید اردو شاعری کے فروغ کے لیے رسالہ "مخزن” کے ذریعے عبد الحلیم شرر کی روایت کو آگے بڑھایا۔ یہ رسائل نئے انداز کی نظمیں حوصلہ افزائی کے ساتھ شائع کرتے تھے۔

اس طرح کے مختلف تجربات کرنے والوں میں سجاد حیدر یلدرم، مولانا وحید الدین سلیم ، میاں محمد شاہ دین ہمایوں ، درگا سہائے سرور اور تلوک چند محروم نمایاں ہیں۔ ان شعراء نے طبع زاد نظموں کے علاوہ انگریزی نظموں کے بھی بکثرت ترجمے کئے۔

حواشی

کتاب کا نام: اردو ادب کا پاکستانی دور کوڈ: 5615 موضوع: اردو نظم میں موضوع اور ہیت کے تجربے صفحہ: 109تا 110 مرتب کردہ : ثمینہ شیخ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں