کتاب کا نام۔۔۔افسانوی ادبی
صفحہ ۔۔۔۔ 35 سے 36
موضوع۔۔۔۔اردو ناول کا آغاز
کوڈ۔۔۔۔5603
مرتب کردہ ۔۔۔اقصی طارق
اردو ناول کا آغاز
اردو میں ناول کی صنف انگریزی ادب سے آئی ہے اسی لئے اردو ناول کے آغاز کا مطالعہ کرتے ہوئے انگریزی ناول کے آغاز کی طرف دھیان ضرور جاتا ہے ان دونوں زبانوں میں ناول کے آغاز کے درمیان 129 ( ایک سو انتیس ) برس کا فاصلہ حائل ہے۔ انگریزی ادب میں سیمیو کیل رچرڈسن کا پامیلا آرور چورایوارڈڈ 1740ء میں منظر عام پر آیا اور اس طرح گویا انگریزی )*Pamila or Virtue Rewarded( قصہ کہانی نے ناول کا روپ اختیار کر لیا یہ چوں کہ ناول کا ابتدائی نمونہ ہے اس لئے اس میں وہ صفات ولوازم کامل صورت میں موجود نہیں ہیں۔ جو بعد میں انگریزی ناول کا امتیاز بنے اس کے باوجود انگریزی ادب میں لفظ ناول سب سے پہلے اس کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اچھے ڈسن ہی کے معاصر ہنری فیلڈنگ کا ناول *جوزف اینڈ یوز 1742 ء میں منظر عام پر آیا ۔ ہنری فیلڈنگ کے اس ناول کو انگریزی ناول نگاری کے فن کی پہلی مثال قرار دیا گیا ہنری فیلڈنگ کو بابائے ناول نگاری بھی کہا جاتا ہے اور اس اعزاز کی وجہ ان کا ناول نام جونزہے۔
اس ناول کو انگریزی ناول نگاری کا پہلا عظیم اور مکمل نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ موجودہ ناول نگاری کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کی بنیاد اس ناول سے نہ پڑتی ہو ۔ یہ تو انگریزی ناول کے آغاز کا قصہ ہوا اب اردو ناول کے آغاز کی طرف آتے ہیں یہاں بھی بات قصہ کہانی سے ناول تک کے سفر کی ہے اور اس سفر کی پہلی مضبوط ترین کڑی ڈپٹی نذیر احمد کا ناول مراة العروس ( 1869ء) ہے۔
اردو ناول کا آغاز ڈپٹی نذیر احمد کے ان قصوں سے ہوتا ہے جن کو ناول کی ابتدائی صورت قرار دیا جاتا ہے۔ ان قصوں میں وہ فنی لوازم دکھائی نہیں دیتے جو انگریزی ناول کے مثالیے سے سامنے آتے ہیں۔ اس لیے ان قصوں کو بسا اوقات مکمل طور پر ناول قرار دینے سے احتراز کیا جاتا ہے لیکن چوں کہ کسی بھی صنف ادب کا پہلا نمونہ اس کی کامل ترین تصویر نہیں ہوتا اس لیے اردو میں ناول نگاری کی پہلی منزل ڈپٹی نذیر احمد کے قصے ہی بنتے ہیں ۔ آگے بڑھنے سے پہلے ان قصوں کی تفصیل دیکھتے ہیں ۔
مراة العروس 1869 ء عورتوں کی تعلیم اور انتظام خانہ داری
35
بنات النعش 1872ء ( مراۃ العروس کا دوسرا حصہ )
توبتہ النصوح 1877ء خدا پرستی فسانہ جتلا (محصنات ( 1887ء ابن الوقت 1888ء رویائے صادقہ
ایانی گویا مراۃ العروس جو 1869ء میں لکھا گیا اردو زبان کا وہ پہلا قصہ قرار پاتا ہے جس پر ناول ہونے کا تاثر لیا گیا یا یوں کہیے کہ جس سے ناول نگاری کے مطالعے کا آغاز کیا جاتا ہے۔ مراة العروس وہ تمام شرائط پوری نہیں کرتا جن کا تقاضا جدید ناول سے کیا جاتا ہے ۔ یہ وہی شرائط ہیں جو انگریزی ناول نے پیش کیں اور جو معیار بہنیں لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد کے یہی قصے اردو میں ناول نگاری کے آغاز کا باعث بنے اور خود ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں بھی مراۃ العروس 1869 ء سے لے کر فسانہ مبتلا 1885ء تک ارتقاء کی ایک صورت صاف نظر آتی ہے۔ اور یوں ہم دیکھتے ہیں کہ فسانہ مبتلا میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو ناول کی ساخت کا بنیادی جزو بنتی ہیں ۔ آئیے ایک اقتباس کا مطالعہ کرتے ہیں :
"نذیر احمد کو اردو کا پہلا ناول نگار اور ان کے قصوں کو اردو
کے اولین ناول کہنے کی یہ وجہ ہے کہ حسن اتفاق سے ان کا تعلق اردو افسانے کی اس قسم سے ہے جسے قصہ کہانی کہتے ہیں اور قصہ کہانی میں ناول کی بھی چند خصوصیات لکھی جاتی ہیں دونوں ہی داستان کے مافوق الفطرت واقعات عجائب نگاری طلسماتی فضا اور غیر انسانی مخلوق سے پاک ہوتے ہیں ان میں اسی دنیا کی نقشہ کشی ہوتی ہے جو ہم اپنے گردو
پیش دیکھتے ہیں اور ایسی ہی مخلوق سانس لیتی ہے جیسی اس دنیا میں آباد ہے اس کے علاوہ قصہ کہانی میں اتفاقات کی بھی اس قدر کثرت نہیں
ہوتی جتنی داستانوں میں نظر آتی ہے چنانچہ اس باب میں بھی قصے کہانی ناول سے قریب نظر آتے ہیں”
( ڈاکٹر سہیل بخاری ناول نگاری اردو ناول کی تاریخ و تنقید ص (50)
36
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں