تشبیه کی تعریف و تفہیم
تشبیہ عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کے لغوی معنی ہم شکل ہونا یا مشابہ ہونا کے ہیں۔ اصطلاح میں تشبیہ سے مراد ہے، کسی عام چیز کو اپنی کسی خصوصیت یا خرابی کے باعث کسی خاص چیز کی خصوصیت یا خرابی سے مماثل یا مشابہ قراردینا۔
یہ بھی پڑھیں: تشبیہ اور تشابہ میں فرق از محمد وقاص
خاص چیز اپنی خوبی یا خرابی ( صفت ) کی وجہ سے پہلے سے مسلمہ ہوتی ہے اور پورا معاشرہ اس کی صفت سے آشنا ہوتا ہے اور عام چیز سے کسی کو واقفیت نہیں ہوتی ۔ لکھنے والا یا بیان کرنے والا عام چیز کی صفت کو بیان کرنے کے لیے معروض سے کسی ایسی چیز کو تلاش کرتا ہے جس کی صفت سے عام چیز کی صفت کو کوئی علاقہ ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: علم بیان اور تشبیہ تعارف و تفہیم
عام چیز اور خاص چیز دونوں الگ الگ ہوتی ہیں مگر دونوں کے درمیان ایک رشتہ صفت کی وجہ سے وجود میں آتا ہے، یہی عمل تشبیہ کہلاتا ہے۔ عام بول چال میں ہم اکثر سنتے یا کہتے ہیں وہ شیر کی طرح بہادر ہے، وہ چیتے کی طرح تیز ہے،
وہ لومڑی کی طرح مکار ہے، وہ موم کی طرح نرم ہے۔ ان جملوں میں عام چیز اور خاص چیز کو مشابہ کیا گیا ہے اور ان کے درمیان کوئی نہ کوئی وصف یکساں ہے۔ عام چیز کا وصف معمولی نوعیت کا جب کہ خاص چیز کا وصف خاص نوعیت کا ہوتا ہے ۔
تشبیہ کے عمل میں عام چیز کو مشبہ ، خاص چیز کو مشبہ بہ اور دونوں کے درمیان رشتے یاتعلق کو وجہ شبہ کہا جاتا ہے۔ مثال کے ذریعے تشبیہ کے عمل کو یوں پیش کیا جا سکتا ہے:
مثال: اس کے دانت موتیوں کی طرح سفید ہیں ۔
اس کے دانت ( عام چیز )۔۔۔۔مشبہ ( جس کو تشبیہ دی جاتی ہے )
موتی( خاص چیز)۔۔مشبہ بہ ( جس سے تشبیہ دی جاتی ہے )
سفیدی (یکساں صفت) ۔۔۔۔ وجه شبه
طرح ۔۔۔۔۔۔حرف تشبیه
مقصد ( کسی کے دانتوں کی تعریف)۔۔۔۔۔۔۔غرض تشبیہ
مشبہ ، مشبہ بہ ، وجہ شبہ، حرف تشبیہ اور غرض تشبیہ کو ارکان تشبیہ کہا جاتا ہے۔ مشبہ اور مشبہ بہ کو طرفین تشبیہ کہتے ہیں اور جملے کے اندر ان دونوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ حرف تشبیہ کئی ہیں جیسے مانند طرح ، مثال ، صورت، جیسا، ساوغیره
تشبیہ کی مثالیں : نثر اور نظم دونوں میں تشبیہ استعمال ہوتی ہے، عام بول چال کی زبان بھی تشبیہات سے خالی نہیں ہوتی اور ادبی زبان کا تو تشبیہ سنگھار ہے۔
حواشی
موضوع۔۔تشبیہ* کتاب۔۔۔اردو زبان۔قواعد و املا کورس کوڈ ۔۔۔9010 *مرتب کردہ۔۔۔رخشندہ عنبرین