کتاب کا نام۔۔۔۔ تاریخ ادب اردو 2
کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5602
موضوع : اردو میں ترقی پسند تحریک
صفحہ نمبر119 تا 120
مرتب کردہ۔۔۔ سمیہ
اردو میں ترقی پسند تحریک
سلطان حیدر جوش کو الکلام آزاد چوہدری افضل حق جیسے اہل قلم نظر آتے ہیں۔ جبکہ شاعری میں اختر شیرانی نے بطور خاص شہرت پائی اور شاعر رومان قرار پائے (واضح رہے کہ رومان کا رومانویت سے کوئی تعلق نہیں ) اختر شیرانی کے علاوہ جوش ملیح آبادی حفیظ جالندھری اور متعدد دیگر شعراء میں بھی رومانویت تلاش کی گئی ہے۔خلیق دہلوی کی ادبستان ) مفصل مقدمہ اختر شیرانی نے قلم بند کیا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ رومانویت کے جائے اسے "ادب لطیف لکھتے اور اس کا آغاز عبد الحلیم شرر کے مجلہ "دلگد از ” میں مطبوعہ مضامین سے کرتے ہیں اس کے بعد سجاد حیدر یلدرم کو ” دور جدید کا علم بر دار ” قرار دیتے ہوئے سلطان حیدر جوش نیاز فتح پوری اور خلیق دہلوی کا تذکرہ کرتے ہیں اسی ترتیب کے ساتھ ( 1930 میں قلم بند کئے گئے اس مقدمہ کی تاریخی حیثیت اور شاعر رومان کے تنقیدی خیالات سے واقفیت کے لئے اس مقدمہ سے اقتباسات پیش ہیں۔
ادب ایک ہی حسین حقیقت کا نام ہے (اور حقیقت بہر حال ایک حسن ہے) لیکن میشمار ان مجاز کے طرف اس کی کیفیت و کمیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔۔۔ ادب کا وہ خاص حصہ مقصود نظر شھرتا ہے جس کو اردو دنیا میں ادب لطیف یا لوب جمیل کے عنوان سے یاد رکھا جاتا ہے۔۔۔ ادب فکر و خیال اور زبان و بیان کے موزوں اور لطیف اظہار کا نام ہے۔
جس طرح ادب کے اجزائے ترکیبی میں دو چیزیں جیادی حیثیت رکھتی ہیں اول خیال اور دوسرے زبان اور خیال کے سلسلے میں رنگینی ، عمق نزاکت مطابقت حالات اور موزونیت وغیرہ کا لحاظ رکھنا ایک ادیب کی فن کارانہ مہارت کے لئے لازمی ہے اسی طرح زبان کے معاملہ میں ندرت یان حسن ادا جدت روانی مطابقت محل قدرت اظہار وغیرہ قابل قدر خصوصیات ہیں۔
شاعری اور مصوری کی طرح ادب بھی ہماری معنویات کو بیدار کرتا روحیت کو گد گدا تا اور جمالیاتی احساسات کو چھیڑتا ہے اور اس کے لئے میں کافی ہے
(اختر شیرانی، مقدمه اداستان معدله عایقی بوی)
اختر شیرانی کے اس اقتباس میں رومانونیت کا سارا فلسفہ آجاتا ہے۔
رومانی اند از نظر جب اساس نقد نے تو رومانی تنقید معرض وجود میں آتی ہے۔رومانیت اور اس سے متعلق تخلیقی امکانات اور اس کے مثبت اور منفی پہلووں پر بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہے جو یونٹ کے محدود صفحات کی بنا پر ممکن نہیں۔ تاہم طلبہ کلاسیحیت رومانویت اور رومانی تنقید کے متعلق مزید معلومات کے لئے ان کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد حسن ؛اردو ادب میں رومانوی تحریک ملتان کاروان ادب 1986ء
ڈاکٹر محمد خان اشرف؛ اردو تنقید کا رومانوی داستان لاہور اقبال اکادمی پاکستان 1996ء
ایضًا : رومانویت اور اردو ادب میں رومانوی تحریک لاہور الو قار 1998 ء
علی جاوید (مرتب) کلاسیکیت اور رومانویت و ملی را ىٔٹرز گلدٌ 1999ء
ڈاکٹر سلیم اختر ؛ تنقیدی دبستان ” لاہور سنگ میل پبلی کیشنز 1998ء
ترقی پسند تحریک
علی گڑھ تحریک کے بعد ترقی پسند ادب کی تحریک اردو ادب کی سب سے توانا مگر متنازعہ تحریک تھی۔ یہ ایسی تحریک تھی جس نے زندگی اور ادب کے بارے میں مروج پیش پا افتادہ تصورات کو تغیر آشنا کیا۔ ادب برائے زندگی ادب برائے مقصد ادب برائے عوام مز دور رکسان و غریب ان کے نعرے تھے اور سرخ سویر اتنی صبح، سرخ پر چم اور نیا جیون ان کے مقاصد :تیسری دہائی ہندوستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں اقتصادی بحرانوں کی دھائی تھی۔ ہندوستانی دانشوروں میں حصول آزادی کی خواہش کا اظہار کیا جا رہا تھا ۔
ادھر ملک میں ناداری اور بیکاری عروج پر تھی جبکہ طبقاتی امتیاز واضح صورت اختیار کر چکا تھا۔ ان حالات میں لندن کے ٹ کنگ ریسٹورنٹ میں سجاد ظہیر ملک راج آئند اور بعض دیگر طلبہ نے انجمن ترقی پسند مصنفین کا خاکہ بنایا۔
واپس ہندوستان آکر یہ بڑے بڑے ادبیوں سے ملے اور ان کا تعاون حاصل کیا۔ 15 اپریل 1936 ء کو منشی پریم چند کی زیر صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کا نفرنس منعقد ہوں اس میں پریم چند نے خطبہ صدارت میں یہ اعلان کیا :ہم ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے ہیں۔ اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا موثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے۔ یہ بھوک افلاس سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہیں.
” (ترقی پسند ادب کی تحریک کا منشور لکھنو ا 1936ء)