اردو میں نعت گوئی
اردو میں عشق رسول صل اللہ علیہ وسلم کی جھلکیاں بالکل ابتدا سے اپنی گوناگوں خصوصیات کے ساتھ موجود ہیں ۔ اردو میں مدح رسول کا آغاز دکن سے ہوا۔ دکن کے تمام معروف شعرا کے یہاں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نعمت عام ہے۔
موضوعات کی فہرست
اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر اور نعتیہ کلام:
اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ کا تعلق دکن ہی سے ہے۔ اس کے یہاں نعتیہ شاعری کا وافر ذخیرہ ہے۔ اس کے بعد کے شعرا بھی نعتیہ کلام کو اپنے لئے سرمایہء افتخار خیال کرتے رہے۔ نعت سرور عالم کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اردو کی کوئی کتاب خواہ نظم کی ہو یا نثر کی اس نعمت عظمی سے خالی نہیں ہے۔ اردو کی قدیم ترین داستانیں بھی محامد رسول سے معمور ہیں۔
داستانوں میں محامد مصطفیٰ:
"طلسم ہوش ربا” ہو یا "داستان خیال” ان میں بھی رسول کریم ﷺ کی نعت کا ذکر خیر مذکور ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اردو نعت میں غیر اسلامی عناصر کا تحقیقی و تنقیدی pdf
معروف نعت گو شعرا:
یہاں نعت گوئی کے ذیل میں اردو کے چند منتخب شعرا کا ذکر ناگزیر ہے۔
محسن کاکوری :
اول "محسن کاکوری” جن کے ایک قصیدے کا نام ہی "مدح خیر المرسلین” ہے اور جس کا ایک مصرع "سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل” زبان زد خلائق ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ نعتیہ قصیدہ اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر اردو میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔
الطاف حسین حالی
اس کے بعد حالی آتے ہیں۔ حالی کا دھیما لہجہ اور پرسوز و دلگداز انداز متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ خود اقبال کا یہ عالم تھا کہ مسدس حالی کے بعض بند انہیں بہت پسند تھے اور اکثر سنا کرتے تھے اور خاص کر وہ بند جس کا ایک شعر ہے:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی پر لانے والا
بہت مرغوب خاطر تھا۔ حالی کی مناجات اردو میں خاصے کی چیز ہے۔ حالی نے جس سوز و گداز اور جذبوں سے یہ نعت شریف سرور کائنات کی خدمت میں پیش کی ہے وہ حالی کے خلوص کا بین ثبوت ہے اور اس کی اثر انگیزی سے انکار ممکن نہیں ہے۔
مولانا ظفر علی خان
مولانا ظفر علی خان اقبال کے معاصر تھے۔ ان کی نعت گوئی پر فی الوقت سیر حاصل بحث ممکن نہیں ۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے جس خلوص سے اپنا کلام پیش کیا ہے اس کا موثر ہونا یقینی امر ہے۔ اقبال نے متعدد مواقع پر ظفر علی خان کے کلام کو خود ان سے سنا اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔
اردو نعت گوئی: جسدِ بے روح ( مقام افسوس)
اردو میں نعت گوئی ایک مہتمم بالشان موضوع ہے لیکن افسوس ہے کہ شاذ و نادر ہی اردو نعت گوئی میں کسی نے اس کا حق ادا کیا ہو۔ پورا کلام پڑھ جائیے زور کلام بھی خوب ملے گا شعری لوازمات بھی پورے کیے ہوں گے لیکن نعت گوئی کی روح مفقود ہوگی۔ گویا ہمارے نعت گو شعرا نے آنحضرت ﷺ کے سراپا کو خوب بیان کیا ہے ۔ مثلاً
گیسوئے مبارک، لباس، طریق بود و ماند لیکن جو بات کہنے کی تھی یعنی سیرت طیبہ یا اسوہ حسنہ اس کا ذکر شاید ڈھونڈے سے ہی ملے گا۔ اردو میں نعت گوئی بالعموم جسد بے روح کی طرح ہے۔ اردو نعت گویوں کے یہاں سراپا نگاری تو خوب ہے لیکن حضور اکرم ﷺ کی انقلاب آفریں حیات مطہرہ کا نقش جمیل بہ مشکل ملے گا۔
گویا حضور اکرم ﷺ کی زندگی کا وہ عنصر جو نعت کا جزو اعظم ہے کم تر دیکھنے میں آئے گا۔ اردو نعت گوئی کے دفتر کے دفتر کھنگال ڈالیے لیکن تلاش بسیار کے باوجود وہ شے نہیں ملے گی۔ جس کی مدد سے ذات اقدس کی تفہیم میں مدد ملے اور حضور صل اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے شیفتگی محبت پیدا ہو۔
پروف ریڈنگ: وقار حسین
<——————————————>
حواشی
(موضوع) 2۔اردو میں نعت گوئی،کتاب کا نام || علامہ،اقبال کا خصوصی مطالعہ –،کوڈ کورس : 5613،صفحہ نمبر؛ 84 تا 85،مرتب کرده؛ مسکان محمد زمان،پروف ریڈنگ؛ وقار حسین