اردو میں مخففات
اُردو لکھاوٹ میں جو مخففات اور نشانات رائج ہیں، ان میں سے خاص خاص یہ ہیں:
بت:
بت تخلص کی علامت میر، غالب، انیس، اقبال
کتابوں کے نام پر چھوٹی لکیر:
فردوسی نے شاہنامہ میں کہا ہے۔ سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات
حذف کی ہوئی عبارت یا لفظ کے لیے تین نقطے
یا ع مصرع کی علامت
لفظ ہیت کی مختلف صورت
ص صفحے کے لیے
صص صفحات کے لیے
ج جلد کے لیے
ق ورق کے لیے
قاق اوراق کے لیے
علیہ السلام رضی اللہ تعالی عنہ
صلعم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم (محمد)
رحمۃ اللہ علیہ (خواجہ نظام الدین اولیا )
ایضا کی علامت
گوپی چند نارنگ (مرتب)
املا نامہ ( سفارشات املا میلی مترقی اردو بورڈ بند ) سر حد اردواکیڈمی
/ رقم ، تاریخ یا وزن کے ہندسے کے بعد آڑی لیکر ۔
كذا
کذا فی الاصل کا مخفف ہے۔ اصل متن کی ہو بہو نقل کے لیے خاص طور سے جب اس پر محاط ہونے کا گمان ہو۔
الخ
عبارت یا شعر کو پورا نقل کرنے کے بجائے ابتدائی لفظ لکھ کر الح لکھ دیتے ہیں۔ مخفف ہے الی آخرہ کا یعنی پورا شعر یا عبارت مراد ہے۔
عبارت کے آخر میں لکھ دیا جاتا ہے، بمعنی حد محمد کے عدد ۱۲ ہوتے ہیں۔
رجوع کنید ،
رجوع کیجیے، ماخذ کے حوالے کے لیے حواشی میں لکھتے ہیں ۔
رک
رجوع کیجیے، رجوع کنید ماخذ کے حوالے کے لئے حواشی میں لکھتے ہیں
حس حوالہ ما سبق
ح ب حوالہ ما بعد
// اگر کوئی مصرع یا شعر عبارت میں بغیر مطر بدلے لکھا جائے تو اس کے دونوں طرف ایک ایک آڑی لکیر لگا دیتے ہیں ۔
حواشی کے اعتداد الفاظ کے اوپر لکھے جاتے ہیں۔ ان کے نیچے علامت کی ضرورت نہیں۔
حواشی کے اعداد جلی لکھے جائیں تاکہ باقی عبارت سے ممتاز رہیں ۔
مقتدرہ نے دو علامات ( ) اور [ ] کے لیے صرف قوسین کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس سے التباس پیدا ہوتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ ان کے لیے قوس صغیر اور قوس کبیر جیسی کوئی موزوں اصطلاح استعمال کی جائے۔
زنجیرہ کا ذکر املا کمیٹی مقتدرہ نے کیا لیکن املا کمیٹی ترقی اُردو بورڈ ہند نے نہیں کیا۔
نیز املا کمیٹی مقتدر نے خط اور زیریں خط کی علامت کا بھی ذکر نہیں کیا حالانکہ زیریں خط کا استعمال روز مرہ کی ضرورت ہے۔
علاوہ ازیں تسوید = “ اور تجزیہ ” کی علامات بھی اہم ہیں۔ ان کا استعمال اُردو لغت ( تاریخی اصول پر ) میں
ہو چکا ہے۔ خود ترقی اردو بورڈ کی سفارشات میں نون اور نون غنہ کے زیر عنوان تجزیہ 4 کا استعمال کیا گیا ہے۔ مقتدرہ کی املا کمیٹی نے ترچھا محط اور مخذوفہ کو رموز اوقاف کی ذیل میں درج کردیا۔
یہ علامت کے زیر عنوان درج ہونا چاہیے تھا۔ نیز مقتدرہ نے مصرع کی علامت ” ع ” بیت یعنی شعر کی علامت . ص ص صفحات کے لیے، ج جلد کے لیے، ق ورق کے
اینا راس ۱۰۲ ۱۰۳
لیے، ق ق اوراق کے لیے :‘ علیہ السلام ، الخ، رک اور حواشی کے اعداد کی وضاحت، اور حذف شد و عبارت کی علامت کا اندراج نہیں کیا۔ ایسی ضروری اور مفید علامتوں کا اندراج لازمی ہے۔ املا نامہ میں مخذوفہ ( ۸ ) اور نقطے (…)
وقفہ تفصیلیہ کا ذکر نہیں کیا گیا۔
ان دونوں کمیٹیوں نے رموز اوقاف کے استعمال کے مواقع کی وضاحت نہیں کی۔
مولوی عبد الحق اور ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی رموز اوقاف کے محل استعمال کی وضاحت کے بعد ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے نگار پاکستان شماره خصوصی املا نمبر ستمبر ۱۹۸۰ء میں قواعد اردو اور جامع الاقواللہ حصہ نحو سے استفادہ کرتے ہوئے رموز اوقاف کے مواقع کی نسبتا زیادہ تفصیل بیان کی ،
جو ان کی تصنیف ” املا اور رسم الخط (مطبوعہ الوقار پبلی کیشنز لاہور ) اور اردو املا و قواعد ( مسائل مباحث ) مطبوعه مقتدر و قومی زبان اسلام آباد میں موجود ہے۔
رشید حسن خاں نے اپنی تصنیف ” اردو املا (مطبوع ۱۹۷۴ء) میں چار علامات : رابطہ و ادوین سوالیہ اور ندائیہ کے بارے میں مفید اضافے کیے۔
اگر چہ انھوں نے تین علامتوں: خط ، تفصیلیہ ، زنجیرہ کو غیر ضروری قرار دیا۔ ان کی دوسری تصنیف اُردو کیسے لکھیں ( مطبوعہ ۱۹۷۵ء) میں بھی اُنھوں نے آٹھ رموز اوقاف: سکته، وقفہ، رابطہ ختمہ ، سوالیہ ندائیہ فجائیہ، قوسین اور واوین کے استعمال کے مواقع کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر سید محمد عارف کی تصنیف رموز اوقاف ( تحریر کا حسن ) ۲۰۰۷ ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نے تفصیل سے رموز اوقاف کے محل استعمال کی وضاحت کی ہے اور متعدد مثالیں اور مشقیں فراہم کی ہیں لیکن اوقاف کے استعمال کا جتنا اہتمام موصوف نے کیا ہے، وہ عام چلن میں مشکل ہے۔ رموز اوقاف اور علامات کا استعمال ضروری ہے لیکن اس میں غلو سے کام نہیں لینا چاہیے۔
پروف ریڈر نائمہ خان
حواشی
کتاب کا نام: اردو زبان و قواعد
کوڈ: 9010
صفحہ: 155 تا 157،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ