اردو میں مضمون نگاری کی روایت

اردو میں مضمون نگاری کی روایت

اردو میں مضمون نگاری کا آغاز دہلی کالج کے ہفت روزہ رسالے قرآن السعدین سے ہوا۔ یہ رسالہ ۱۸۴۵ ء میں زیر ادارت پرنسپل ڈاکٹر الواس اخیر جاری ہوا۔ کالج کے طلبہ کو ایک موضوع دے دیا جاتا اور وہ اس موضوع پر اپنی اپنی قابلیت کے مطابق اپنے خیالات کا تحریری اظہار کرتے۔

ان مضامین کی نوعیت ابتدا میں تاریخی اور سائنسی تھی۔ اس کے بعد ماسٹر رام چندر کا نام آتا ہے جنھوں نے ۶ ستمبر ۱۸۴۷ء کو خیر خواہ ہند اور ۱۸۴۵ء میں فوائد الناظرین نامی رسائل کا اجراء کیا۔

پہلے رسالے کا نام اکتوبر ۱۸۴۷ء میں انھوں نے محب ہند رکھ دیا، جس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ہم کو معلوم ہے کہ اخبار "خیر خواہ” ہند, مرزا پور میں جاری ہوتا ہے تو ہم کو مناسب نہیں کہ ہم اپنے رسالے کا نام خیر خواہ ہند رکھیں ۔ اس واسطہ ہم نے اس رسالہ کا نام تبدیل کیا اور بجائے خیر خواہ ہند
کے محب ہند رکھا ۔”

(قاسم علی سخن؛ پروفیسر رام چندر اردو صحافی کی حیثیت سے، دہلی کالج، اردو میگزین تقدیم دلی کالج

نمبر ۱۹۵۳ ص:۲۲)

فوائد الناظرین میں ماسٹر رام چندر نے سائنسی اور تاریخی مضامین کی ابتدا کی ، پھر آہستہ آہستہ اخلاقی ، سوانحی، اصلاحی ، سماجی اور سیاسی مضامین بھی اس رسالے کی زینت بننے لگے۔ ان مضامین کا اسلوب صاف ، سادہ اور سلیس تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مضمون تعارف و مفہوم

اردو مضمون نگاری اور سر سید احمد خان

ماسٹر رام چندر کے بعد اردو مضمون نگاری کا ایک اور نمایاں نام سرسید کا سامنے آتا ہے جنھوں نے اردو مضمون نگاری کی روایت کو مستحکم کرنے اور آگے بڑھانے میں شان دار کردار ادا کیا۔

اردو میں مضمون نگاری کی روایت

اس مقصد کے لیے سرسید نے "تہذیب الاخلاق کا اجراء کیا۔ اس رسالے میں دینی، سیاسی، ادبی، سائنسی اور معاشرتی موضوعات پر مضامین لکھے گئے مضمون نگاری کی اس تحریک میں سرسید اور ان کے رفقا نے بھر پور حصہ لیا۔

سرسید کے بعض طویل مضامین نے اردو میں مقالہ نگاری کے آغاز کو بھی ممکن بنایا ۔ ان مقالوں میں بعض مقامات پر علم نفسیات اور تنقیدی شعور کی بھی جھلک ملتی ہے۔ ان کے اسلوب میں سادگی ، سلاست اور استدلال نمایاں ہے۔

رفقائے سر سید اور مضمون نگاری

سرسید کے ساتھ ساتھ رفقائے سرسید نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ مولانا الطاف حسین حالی مولانا شبلی نعمانی، مولانا آزاد، مولوی ذکا اللہ ، وقار الملک اور دیگر رفقا نے اردو مضمون نگاری کی روایت کو مضبوط کرنے اور آگے بڑھانے میں بھر پور سرگرمی دکھائی۔

حالی کی مضمون نگاری

مولانا الطاف حسین حالی نے چوالیس مضامین لکھے ہیں جو دو جلدوں پر مشتمل ہیں۔ ان کے مضامین میں سادگی، سلاست اور اصلاحی رنگ غالب ہے۔

مولوی ذکا اللہ نے اصلاحی رنگ میں مضمون نگاری کی۔ استدلال اور عقلیت نمایاں ہے۔ نواب محسن الملک تمثیل کے پیرائے میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ادبی رنگ کی آمیزش بھی ان کے مضامین میں شامل ہے۔

مہدی افادی کی مضمون نگاری

مہدی افادی کے مضامین کے مجموعے کا نام افادات مہدی ہے جس میں کل بتیس مضامین شامل ہیں۔ ان کے مضامین میں تاثراتی اور رومانوی رنگ جھلکتا ہے۔

شبلی نعمانی

مولانا شبلی کے مضامین مقالات شبلی کی چھ جلدوں میں منقسم ہیں۔ ان کے مضامین میں جوش تخیل اور ادبیت نمایاں ہے۔ سرسید کے ہی عہد کے ایک اور مضمون نگار میر ناصر علی ہیں۔ ان کے مضامین کی تعداد ۷۵ ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہیں۔ ان کے مضامین کی نمایاں خوبی بے ساختگی، بے تکلفی اور روانی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مضمون کی اقسام

انجمن پنجاب اور مضمون نگاری

کرنل ہال رائیڈ نے نظم کو فروغ دینے کے لیے مولانا محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر انجمن پنجاب کی بنیاد رکھی اور مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا۔ ساتھ ہی ۱۸۶۵ء میں اس انجمن کا ترجمان ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ اس رسالے میں بھی مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مولانا محمد حسین آزاد اور منشی کرم الہی کے چند مضامین اس میں ملتے ہیں۔

اودھ پنچ اور مضمون نگاری

سرسید تحریک کا ایک مخالف زاویہ جنوری ۱۸۷۷ء کو اودھ پنچ کی صورت میں جلوہ گر ہوا، طنز ومزاح کے پردے میں اس کے لکھاریوں نے اردو میں طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے کئی نئے اسالیب متعارف کروائے۔ ان کے لکھاریوں میں مرزا مچھو بیگ ستم ظریف، نواب سید محمد آزاد، منشی جوالا پرشاد اور منشی سجاد حسین شامل تھے۔ چک بست لکھتے ہیں:

اودھ پنچ کے مضامین کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہ تھا جو اودھ پنچ کے ظریفوں کی گل کاریوں سے خالی رہتا ہو۔ اس کے علاوہ لکھنو کے طرز معاشرت کی پر مذاق اور دل کش تصویروں سے اس کے صفحے اکثر رنگین نظر آتے تھے۔”
( پنڈت برج نرائن چک بست لکھنوی گل دستد پیچ لکھنو ہند استانی پریس، ۱۹۱۵ ، ص ۷)

مضمون نگاری کا نیا دور

مضمون نگاری کا اگلا دور ۱۹۰۰ ء تا۱۹۳۶ء کے عرصے پر مشتمل ہے۔ اس دور میں رسائل کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اپریل ۱۹۰۱ء میں سر عبد القادر نے ماہنامہ مخزن کا اجرا کیا۔ اس رسالے کی آمد سے اردو میں رومانویت کا آغاز ہوا۔

اس رسالے میں لکھنے والے نام ؛ جن میں شیخ محمد اکرام ، امتیاز علی تاج، حسن نظامی، سجاد حیدر یلدرم، شبلی نعمانی، علامہ محمد اقبال، راشد الخیری عبد الحلیم شرر، حسرت موہانی اور حفیظ جالندھری شامل تھے۔ اس رسالے نے رومانوی تنقید کے اردو دبستان کی بنیاد رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ رومانوی اسلوب میں کئی تنقیدی مضامین لکھے گئے۔

فروری ۱۹۰۳ ء میں شیو برت لال درسن نے "زمانہ” کا آغاز کیا۔ بعد ازاں نومبر میں دیا نرائن نے اسے کان پور سے جاری کیا۔ اس رسالے میں بھی دور کے نامور لکھاریوں نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔

جن میں نذیر احمد، مولوی ذکا اللہ، حامد اللہ افسر، بنشی نوبت رائے، سید وقار عظیم، احتشام حسین وغیرہ شامل تھے۔ اس رسالے میں مختلف موضوعات پر مضامین لکھے گئے۔ جن میں انسانیات بھی شامل تھا۔ اس حوالے سے سلیم جعفر کا نام سب سے نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ تحقیقی مضامین میں بھی سرگرمی دکھائی گئی اور دیا نرائن، حامد اللہ افسر وغیرہ نے اس ضمن میں مضامین لکھے۔

یکم جولائی ۱۹۰۳ء کو مولانا حسرت موہانی نے”اردوئے معلی ” کا اجراء کیا۔ اس رسالے نے برصغیر کے لوگوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا حسرت موہانی نے سیاسی مضامین لکھے اور لکھوائے ۔ اس کے علاوہ تحقیقی مضامین بھی شامل اشاعت رہے۔

جولائی ۱۹۰۹ء میں ظفر الملک نے لکھنو سے "الناظر” نکالا یہ خالصتا ایک ادبی پرچہ تھا۔ اس کے لکھاریوں میں حامد حسن قادری، مولوی محمد یحییٰ تنہا، سید مسعود حسن رضوی ادیب، رشید احمد صدیقی وغیرہ شامل تھے۔

اس پرچے میں اسلامی، تاریخی اور سوانحی مضامین کا ایک وقیع ذخیرہ ملتا ہے۔
سید سلیمان ندوی نے جولائی 1917ء میں "معارف” کا اجراء کیا جو آج تک جاری وساری ہے اس میں مختلف النوع موضوعات پر مضامین کا سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔

سید امتیاز علی تاج نے ستمبر ۱۹۱۸ء میں ایک رومانوی پرچے کا اجرا کیا جس کا نام ”کہکشاں” تھا۔ اس رسالے نے بھی رومانوی ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

اپریل ۱۹۲۰ء میں خان حسین احمد خاں نے ایک اور رومانوی پرچے "شباب اردو” کا اجرا کیا ۔

مولوی عبد الحق اور مضمون نگاری

مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کے زیر اہتمام رسالہ "روڈ” نکالا۔ پھر یہ دہلی سے اور اب یہ کراچی سے نکل رہا ہے۔ اس رسالے نے اردو زبان میں تحقیقی زور و ذوق کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اردو زبان کے قدیم متون کی از سر نو اشاعت، دریافت شدہ متون کی تدوین، انسانی موضوعات، تاریخ اور ثقافت کے موضوعات پر کئی مضامین شائع ہوئے۔

میاں بشیر احمد نے اپنے والد جسٹس شاہ دین ہمایوں کی یاد میں ایک رسالہ "ہمایوں” جاری کیا ۔ جس کا پہلا شمارہ جنوری ۱۹۲۲ء میں سامنے آیا۔ ڈاکٹر صفیہ مشتاق باشی لکھتی ہیں:

ہمایوں میں سجاد حیدر یلدرم، بشیر احمد، عبد العزیز فلک، حسن نظامی خلیجی دہلوی و دیگر تخلیق کاروں نے اپنے مختصر نثر پاروں میں ندرت خیال اور مرصع زبان کے اشتراک سے ایسا نثر پارہ بنا دیا جو قاری کے ذہن کو حظ و مسرت مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک صحت مند، بھر پور اور خوشگوار افادیت سے روشناس کراتا ہے ۔

(ڈاکٹر صفیہ مشتاق ہاشمی ، اردو مضمون نگاری کا ارتقاء ، لاہور : الوقار پبلی کیشنز ۲۰۱۶۰ میں: ۲۰۵)

"نگار” نیاز فتح پوری نے فروری ۱۹۳۶ ء میں بھوپال سے جاری کیا۔ جس کے معاون مدیر مخمور اکبر آبادی تھے۔ یہ بھی ایک رومانوی رسالہ تھا۔ اس رسالے نے رومانوی پیرائے میں مختلف موضوعات پر مضمون نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا سارا زور وہ رسالہ کو علمی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لئے اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ نے ایک رسالہ "جامعہ” نکالا۔

اس رسالے نے اردو زبان کے فروغ کے ساتھ ساتھ اخلاقی، اصلاحی تاریخی، سائنسی، سیاسی اور علمی مضامین کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے مضمون نگاروں میں ڈاکٹر عابد حسین، ڈاکٹر عبد الحلیم، ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر اسلم جیراج پوری، ڈاکٹر ذاکر حسین، قاضی عبدالغفار، آل احمد سرور وغیرہ شامل تھے۔

حکیم محمد یوسف حسن نے ”نیرنگ خیال” جولائی ۱۹۲۴ء کو جاری کیا۔
اس رسالے نے سب سے پہلے تصاویر شائع کرنے کا آغاز کیا۔ اس رسالے نے مختلف مواقع پر مختلف نمبر شائع کیے ۱۹۳۲ء میں اس رسالے نے اقبال کی زندگی میں ہی پہلا اقبال نمبر چھاپا۔

ادبی تحقیقی اور تنقیدی مضامین کے فروغ میں اس رسالے کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ان رسائل کے علاؤہ اور نیشنل کالج میگزین، ادبی دنیا، ساقی ادب لطیف، شاہکار وغیرہ نے بھی اردو مضمون نگاری کی اشاعت اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

اردو مضمون نگاری کا اگلا دور ۱۹۳۶ء تا ۱۹۴۷ پر مشتمل ہے۔ اس دور میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا جس سے مضمون نگاری میں بھی "ادب برائے زندگی” کی بازگشت پوری توانائی کے ساتھ موجزن ہوئی۔

اس کے ساتھ ساتھ رومانوی تحریک بھی متوازی دھارے کے طور پہ اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے جاری و ساری رہی۔ اقبال کے ہاں دونوں تحریکوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ ان کے مضامین کے "موضوعات کا تعلق ادب برائے زندگی سے ہے مگر ان کا اسلوب رومانوی” ہے۔

ان کے مضامین کا مجموعہ "مقالات اقبال” کے نام سے موجود ہے۔ رومانوی تحریک کے زیر اثر رومانوی مضامین لکھنے والوں میں عبد الحلیم شرر، ابو الکلام آزاد، سجاد حیدر یلدرم، خلیجی دہلوی ، فلک پیا، سر عبد القادر، حجاب امتیاز علی، سید عابد علی عابد شامل ہیں۔

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر مضمون نگاری جن ادبا نے کی ان میں پریم چند، سجاد ظہیر، اختر حسین رائے پوری ، اختر انصاری، عزیز احمد بھلی، سردار جعفری، فیض احمد فیض، علی عباس حسینی، ممتاز حسین وغیرہ شامل ہیں۔ اس تحریک کے زیر اثر جو مضامین لکھے گئے ان میں ادب برائے ادب کا نظریہ مرکزی نصب العین کے طور پر سامنے آتا ہے۔

اپریل ۱۹۳۹ء میں حلقہ ارباب ذوق نے ترقی پسند تحریک کے رد عمل کے طور پر "ادب برائے ادب“ کا نعرہ بلند کیا۔ شیر محمد، اختر نصیر احمد، جامعی بیراچی ، صلاح الدین احمد، یوسف ظفر، مختار صدیقی وغیرہ شامل ہیں۔ اس تحریک نے اپنے نصب العین اور منشور کے عین مطابق مضامین نگاری کی اور ادب برائے ادب کے نظریے کی بھر پور وکالت کی۔ ان کے اکثر مضامین کی نوعیت تنقیدی ہے۔

پروف ریڈنگ؛ وقار حسین

حواشی

موضوع ۔۔۔{اردو میں مضمون نگاری کی روایت}کتاب کا نام ۔۔۔{تحریر و انشاء}کوڈ نمبر۔۔۔{9008}مرتب کردہ ۔۔۔{عارفہ راز}پروف ریڈنگ؛ وقار حسین««۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔»»

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں