اردو ادب میں حمدیہ شاعری

اردو ادب میں حمدیہ شاعری

خوب محمد چشتی کا حمدیہ کلام

گجرات کے مشہور صوفی شاعر "خوب محمد چشتی” نے اپنی تصنیف "خوب ترنگ” میں بڑے فلسفیانہ انداز میں اللہ کی حمد وثنا کی ہے۔ ان کے یہاں حمدیہ اشعار میں روحانیت کے ساتھ ساتھ علمیت بھی پائی جاتی ہے۔ "خوب ترنگ” کی ابتدا ان حمدیہ اشعار سے ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حمد کی روایت

بسم اللہ کہوں چھت ذات
جس رحمن رحیم صفات

ذات صفات اسماء افعال
جمع مفصل چنہ اک حال

جس نسبت یہ عالم ہوئے
اسم الہی کہنے سوئے

اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر کے ہاں حمدیہ عناصر

اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ نے جہاں مختلف موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں وہاں حمد ونعت بھی لکھی گئی ہے۔ اللہ کی تجلیاتی صفات کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے:

چندر سور تیرے نور تھے، اس دن کوں نورانی کیا
تیری صفت کن کر سکے ، تو آپی میرا ہے جیا

مثنوی نگاری میں حمدیہ عنصر

اسی عہد میں بیسیوں مثنویاں مختلف موضوعات پر لکھی گئیں ۔ اکثر کا آغاز حمد یہ اشعار سے ہوتا ہے۔

اردو شاعری کا میر کارواں اور حمدیہ و نعتیہ کلام

اردو شاعری کے میر کارواں ولی دکنی کی شاعری کا بیشتر رنگ عاشقانہ تھا لیکن ان کے کلام میں ہلکا سا مذہبی رنگ بھی نمایاں ہے ولی کے ہاں حمد کے مختلف رنگ ظاہر ہوتے ہیں اور وہ خالق ارض و سما کے حضور مختلف انداز سے نغمہ سرا ہوتا ہے:

حسن تھا پردہ تجرید میں سب سوں آزاد
طالب عشق ہوا صورت انسان میں آ
عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا
بغیر از دیدہ حیراں نہیں جگ میں نقاب اس کا

اے ولی غیر آستانہ یار
جبہ سائی نہ کر خدا سوں ڈر

سراج الدین سراج: مذہبی رنگ اور حمدیہ شاعری

دکن میں ولی کے معاصرین شعراء میں اورنگ آباد کے صوفی شاعر سراج الدین سراج منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ اوائل عمری میں ہی عشق کی سرشاری نے ان کے اندر جذب و محویت کی کیفیت طاری کر دی اور اسی عالم بے خودی میں اشعار کا سوتا ان کی زبان سے پھوٹ پڑا۔

عشق کے والہانہ جذبے اور درویشانہ جذب و شوق پر جب سراج کے ہاں مذہب غالب ہوا تو ان کی شاعری توحید و معرفت کے حقائق کے بیان اور ندرت مضامین کے لحاظ سے بصیرت افروز بنی۔ ان کی شاعری واردات قلبیہ کا بہترین نمونہ ہے اور اس میں حق سبحانہ تعالیٰ کی صفات محمودی کا پر تو نظر آتا ہے۔

عجب قادر پاک کی ذات ہے
کہ سب ہے نفی اور وہ اثبات ہے

دیا چاند سورج کوں نور و ضیا فلک پر ستارے کیا خوش نما

مرزا محمد رفیع سودا کی حمدیہ شاعری

ردو شاعری میں مرزا محمد رفیع سودا قصیدہ گوئی کے لیے مشہور ہیں ان کے ہاں مذہب و اخلاص کے مضامین کے بیان میں متانت و سنجیدگی حد درجہ پائی جاتی ہے۔ سودا کے نزدیک خدا کا ظہور کائنات کے ذرے ذرے میں ہے۔ وہ ہر شخص کے دل میں موجود ہے لیکن اسے دیکھنے کے لیے دل بینا کی ضرورت ہے۔

کیا مچائی ان نے میرے دل کے کاشانے میں دھوم
شور ہے جس کے لیے کعبے میں، بت خانے میں دھوم

حمدیہ شاعری کی پرداخت میں خانقاہوں کا کردار:

حمدیہ شاعری کی پرورش و پرداخت میں خانقاہوں کا نظام بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وجد و سماع کی محفلوں کے انعقاد کا مقصد خود فراموشی اور ذکر اللہ رہا۔

خواجہ میر درد

خواجہ میر درد ایک صوفی شاعر تھے اور ان کی شاعری خانقاہی تھی۔ خواجہ میر درد تصوف کے اس نکتے کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے تحت تمام کائنات میں اللہ تعالیٰ کی جلوہ نمائی ہے اور مجموعی طور پر تمام جہاں خدا تعالیٰ کی ہستی کا عکاس ہے۔ درد اپنے دیوان کی ابتدا ہی حمد سے کرتے ہیں۔

مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
حقا کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا

اس مند عزت پر کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب گزر ہووے تعقل کے قدم کا

ہے خوف اگر جی میں، تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے ، تو ہے تیرے کرم کا

اللہ کی ذات محیط مطلق کائنات ہے ذرے ذرے میں اس کا ظہور ہے۔ اس خیال کی توضیح درد اس طرح کرتے ہیں۔

جگ میں آکر ادھر اُدھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

میر انیس کی حمدیہ شاعری

میر انیس کے مرثیوں میں بھی حمدیہ شعر موجود ہیں۔ ان کے اکثر مراثی کا آغاز حمد ونعت ہی سے ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ ان کی مشہور رباعی میں وحدۃ الوجود نظریے کی تصریح عمدگی سے کی گئی ہے۔

گلشن میں پھروں کہ میر صحرا دیکھوں
یا معدن و کوه دشت و دریا دیکھوں
ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں

مرزا دبیر کی حمدیہ شاعری

مرزا علی دبیر نے بھی اسلام کے تصور توحید کے زیر اثر اللہ تعالیٰ کی قادرت کو بڑے دلکش پیرائے میں بیان کیا

چاہے وہ جس گدا کو سلیماں کی جاہ دے
ذرے کو آفتاب کے سر کی کلاہ دے
بے دست و پا کو گوشۂ راحت میں راہ دے
جس کو کوئی پناہ نہ دے وہ پناہ دے

دہلی اور لکھنؤ کے استاد شعرا کی حمدیہ شاعری

دہلی اور لکھنو کے اساتذہ سخن کے کلام میں جا بجا حمدیہ مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں۔ غزل ، مثنوی ، قصیدہ، رباعی اور مرثیہ جیسی اصناف میں حمد کے مختلف انداز ملتے ہیں جس سے شاعری کی روایت ثروت مند ہوئی۔

دیوانِ حمد ایزدی: غلام سرور لاہوری ( اردو میں حمدیہ شاعری کا پہلا دیوان)

حمدیہ شاعری میں ایک اہم نام غلام سرور لاہوری کا ہے۔ ان کا حمدیہ دیوان "دیوان حمد ایزدی” 1880ء میں شائع ہوا۔ یہ اردو میں حمدیہ شاعری کا پہلا دیوان ہے۔

حمدیہ شاعری ؛ امیر مینائی

امیر مینائی کے کلام میں سب سے نمایاں عنصر حمد ، نعت اور منقبت کے مضامین ہیں۔ انھوں نے صبح ازل ، اور نور تجلی کے عنوان سے دو نعتیہ مثنویاں بھی لکھیں۔ امیر مینائی کے خیال میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو احسانات کئے، جو رحمتیں اور برکات تفویض کی ہیں۔ ان سب کا استحقاق انسان کو مطیع و فرمانبردار ہونے کے سبب پہنچتا ہے۔ اس خیال کو وہ اپنے اشعار میں یوں پیش کرتے ہیں۔

بارگاہ حق سے ہر طاعت کی ملتی ہے جزا
ہے بڑی سرکار، حق رہتا نہیں مزدور کا

حافظ حسن جلیل مانک پوری اور حمدیہ شاعری:

حافظ حسن جلیل مانک پوری نے بھی حمد و نعت لکھی۔ وہ شاعری میں امیر مینائی کے شاگرد تھے ان کے ہاں معرفت
اور حقیقت کے موضوعات ملتے ہیں۔

پر وہ نہ تھا وہ صرف نظر کا قصور تھا
دیکھا تو ذرے ذرے میں اس کا ظہور تھا

حالی کی حمدیہ شاعری

الطاف حسین حالی مصلح قوم کی حیثیت سے بھی مطلع ادب پر جلوہ گر ہوئے ۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بڑی حد تک مسلم قوم اور اسلام کو ہی اپنا صحیح نظریہ بنایا۔ ان کی مذہبی شخصیت بھی اس کی مقتضی تھی اس کار خیر کی انجام دہی کے لیے حالی نے شاعری کا سہارا لیا۔ حالی کی عبدیت کی انتہا یہ ہے کہ وہ اپنے معبود حقیقی کی یاد میں رطب اللسان رہے۔ حالی کے خیال میں بندوں کے دلوں پر اللہ کی حاکمیت کی دلیل یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کی حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں:

قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا
اک بندہ نافرماں ہے حمد سرا تیرا

اللہ تعالیٰ کی رحمت بے پایاں کی طلب حالی کچھ اس انداز میں کرتے ہیں۔

دیکھا ہے ہم نے عالم رحمت کو غور سے
ہے شش جہت میں قحط دل نا امید کا

حالی نے "بیوہ کی مناجات” میں جہاں عورت کے جذبات کی عکاسی کی ہے وہیں نسوانی زبان میں اللہ کی حمد وثناء بھی کی ہے:

اے سب سے اول اور آخر
جہاں تہاں، حاضر اور ناظر

اے سب داناؤں سے دانا
سارے تواناؤں سے توانا

اے بالا، ہر بالاتر سے
چاند سے سورج سے امبر سے

اے سمجھے بوجھے بن سوجھے
جانے پہچانے بن بوجھے

سب سے انوکھے سب سے نرالے
آنکھ سے اوجھل دل کے اجالے

اے اندھوں کی آنکھ کے تارے
اے لنگڑے لولوں کے سہارے

ناتیوں سے چھوٹوں کے ناتی
ساتھیوں سے بچھڑوں کے ساتھی

ناؤ جہاں کی کھینے والے
دکھ میں تسلی دینے والے

جب اب تب تجھ سا نہیں کوئی
تجھ سے ہیں سب تجھ سا نہیں کوئی

جوت ہے تیری جل اور تھل میں
باس ہے تیری پھول اور پھل میں

ہر دل میں ہے تیرا بسیرا
تو پاس اور گھر دور ہے تیرا

راہ تری دشوار اور سکڑی
نام ترا رہ گیر کی لکڑی

تو ہے ٹھکانا مسکینوں کا
تو ہے سہارا غمگینوں کا

تو ہے اکیلوں کا رکھوالا
تو ہے اندھیرے گھر کا اجالا

لاگو اچھے اور برے کا
خواہاں کھوٹے اور کھرے کا

بید نراسے بیماروں کا
گاہک مندے بازاروں کا

سوچ میں دل بہلانے والے
بپتا میں یاد آنے والے

(۲)
اے بے وارث گھروں کے وارث
بے بازو بے پروں کے وارث

بے آسوں کی آس ہے تو ہی
جاگتے سوتے پاس ہے تو ہی

بس والے ہیں یا بے بس ہیں
تو نہیں جن کا وہ بے کس ہیں

ساتھی جن کا دھیان ہے تیرا
دسرایت کی وہاں نہیں پروا

دل میں ہے جن کے تیری بڑائی
گنتے ہیں وہ پربت کو رائی

بیکس کا غم خوار ہے تو ہی
بری بنی کا یار ہے تو ہی

دکھیا دکھی یتیم اور بیوہ
تیرے ہی ہاتھ ان سب کا ہے کھیوا

تو ہی مرض دے تو ہی دوا دے
تو ہی دوا دارو میں شفا دے

تو ہی پلائے زہر کے پیالے
تو ہی پھر امرت زہر میں ڈالے

تو ہی دلوں میں آگ لگائے
تو ہی دلوں کی لگی بجھائے

چمکارے چمکار کے مارے
مارے مار کے پھر چمکارے

پیار کا تیرے پوچھنا کیا ہے
مار میں بھی اک تیری مزا ہے۔۔۔

پروف ریڈنگ: وقار حسین

حواشی

کتاب کا نام: شعری اصناف تعارف و تفہیم، موضوع: "اردو ادب میں حمدیہ شاعری”،کوڈ: 9003،صفحہ: 12تا 15،مرتب کردہ : ثمینہ شیخ، پروف ریڈنگ: وقار حسین

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں