انشائیے کی خصوصیات
انشائیے کی خصوصیات، انشائیہ کہنے کو تو آزاد فکر کا نتیجہ ہے۔ یہ آزاد فکر مظاہر کے باطن میں جھانکتی ہے اور ایسی بات پیدا کرتی ہے جو ظاہر کی آنکھ نہیں دکھا سکتی۔ مثال کے طور پر ” دیوار ” ہم آپ دیکھتے رہتے ہیں ۔ اسی عنوان سے ڈاکٹر وزیر آغا نے انشائیہ لکھا:
یہ بھی پڑھیں: انشائیہ، مضمون اور مقالے میں فرق
موضوعات کی فہرست
چند جملے ملاحظہ کیجیے:
"مجھے یہ سب دیواریں پسند ہیں۔ یہ دیواریں میری آوارہ خرامی اور بے راہ روی کے راستے میں سینہ تان کر کھڑی ہوگئی ہیں۔ ان دیواروں نے میری ذات کی حدود کو متعین کر دیا ہے۔ میری آواز کی بے مقصد پرواز کو روکا اور میرے جذبے کے اندھے طوفان کے راستے میں بند باندھ دیا ہے۔ "
آپ دیکھیے یہ دیکھنے کا ایک داخلی زاویہ ہے۔ دیوار کی ایستادگی کو سینہ تان کر کھڑے ہونے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس سے بات میں کتنی تازگی آگئی ۔ ان تشبیہات میں معنی کے دریا بند ہیں۔ کیا مبتدی مضمون نگارا ایسی بات کہہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔ یہ فکر کی ایک خاص منزل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مضمون تعارف و مفہوم
اس منزل پر معمولی چیزوں کے غیر معمولی ہونے کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ اسے فکر انگیزی کہتے ہیں۔ انشائیہ ایسے ہی فکر انگیز نکتوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس میں انشائیہ نگار غیر رسمی طور پر انکشاف ذات کرتا ہے، اپنے عرفان کی رنگینی کو آشکار کرتا ہے۔
اسلوبیاتی سطح پر انشائیہ دیگر اصناف سے مختلف نہیں۔ اس میں کسی بھی طرز بیاں کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ سنجیدہ انشائے بھی لکھے گئے اور مزاحیہ اسلوب میں بھی۔
انشائیے کا حسن
انشائیے کا حسن اس کے سادہ، لطیف، ہلکے پھلکے، شگفتہ انداز اور فکر انگیز تازہ جملوں میں پوشیدہ ہے۔ عام طور پہ انشائیے کی شگفتگی سے کلی طور پر طنز و مزاح مراد لیا جاتا ہے جو درست نہیں ۔
انشائیہ کیسے لکھیں ؟
انشائیہ تخلیقی نثر کی مشکل صنف ہے ۔ انشائیہ پختہ فکری کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے ۔ مطالعہ، مشاہدہ اور واردات نفسی کا شعور جب فلسفے کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے تو اس صنف کا در کھلتا ہے ۔
انشائیہ اپنی اس انفردی خصوصیت کی بنا پر ہر ادبی موضوع کو ایک نئی جہت اور نیا انداز فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر انجم نیازی کے انشائی مجموعہ ” میں سورج اور سمندر ” کو لیجیے۔ اس مجموعے میں ایک انشائیہ” سوچنا "شامل ہے ۔ اس موضوع پر انشائیہ نگار کیا لکھتا ہے ملاحظہ ہو ؛
"مجھے سوچتے رہنے کی پرانی عادت ہے۔ پرانی عادتیں آسانی سے ترک نہیں کی جا سکتیں۔ جب سوچتا ہوں تو سوچتا ہی چلا جاتا ہوں ۔ بسا اوقات میری سوچ کی سرحدیں مجذوبیت کی سرحدوں سے جاملتی ہیں۔ کبھی میں زمین کو چھتری کی طرح سر پر تان لیتا ہوں اور کبھی آسمان کو زمین سمجھ کر نیچے بچھا لیتا ہوں "
انشائیہ نگار نے سوچنے کے عمل کو لیا اور اس پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے قوت متخیلہ سے سلسلۂ خیال بن لیا۔ پہلے دو جملوں میں سوچ اور پرانی عادت میں ربط ہے۔
دوسرے دو جملوں میں سوچ کے جاری رہنے اور آگے بڑھنے میں ربط ہے۔ آخری دو جملوں میں انشائیہ نگار کی فکر نے قلا بازی کھائی اور زمین کو چھتری اور آسمان کو بچھونا بنا ڈالا۔ یہ اس سلسلہ خیال کا تازہ شاہکار ہے ۔ عام طور پہ آسمان کو چھتری سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہاں انشائیہ نگار نے فکر کے نئے زاویے سے زمین کو چھتری کی طرح تان لیا اور آسمان کو بچھونا بنالیا۔ کس قدرا اچھوتا خیال ہے۔
انشائیہ نگار دیوانے کی سی سرمستی کے ساتھ فرزانے کی سی باتیں کرتا ہے۔ اس کی باتیں ہمیں چونکا دیتی ہیں۔ تازگی کا احساس دلاتی ہیں۔ عرفان کی انوکھی کیفیت سے دوچار کرتی ہیں ۔ حیرت میں مبتلا کر دیتی ہیں ۔ سوچ کے زاویے ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے ایسی بات کہنا آسان نہیں ہے۔
انشائیہ کے موضوعات
انشائیہ کے موضوعات کیا ہیں؟
حیات و کائنات کی ہر چیز انشائیہ کا موضوع بن سکتی ہے ۔ تاہم انشائیہ کے موضوعات کا اختصاص ان کا معمولی ہونا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا:
” انشائیہ کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنی ابتدا ہی زمین سے کی ۔ اس نے بڑے بڑے محلوں ، مقتدر کرداروں، گونجتے ہوئے نظریوں، عقیدوں اور نعروں کو اپنا موضوع بنانے کے بجائے سامنے کی اشیاء مثلاً اونگھنا، مکان، واشنگ مشین، جھوٹ، دسمبر اور فائل ایسے موضوعات کو چھوا ہے۔ لیکن ان بالکل معمولی موضوعات کے ایسے غیر معمولی پہلوؤں کو اجاگر کیا کہ معمولی چیزوں کے سامنے نام نہاد غیر معمولی چیزیں بالکل معمولی نظر آنے لگیں۔” ( انشائیہ کے خدو خال )
پروف از : وقار حسین
حواشی
کتاب کا نام:تحریر و انشا(عملی ترتیب )
موضوع:انشائیہ کی خصوصیات ، انشائیہ کیسے لکھیں؟
ص:117تا118
کورس کوڈ:9008
مرتب کردہ:رومیصہ
پروف از: وقار حسین