اردو غزل کا پاکستانی دور ایک مختصر نظر

کچھ اس تحریر سے

  1. ہماری شاعری خصوصاً غزل کو جبر و تشدد اور سیاسی خوف کی فضا اور اس کے خلاف ایمائیت واشاریت میں مزاحمتی روئیے کا اظہار ورثے میں ملے ہیں۔۔۔
  2. اُردو غزل نے اٹھارویں صدی کے زوال میں آنکھ کھولی اور شاعروں نے خزاں کے ہاتھوں باغ کی بربادی اور دل اور دلی کے دکھ کو ایک دوسرے سے اس طرح ملا دیا کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔۔۔
  3. انیسویں صدی کی غزل میں دو رجحان نمایاں ہیں اول یاسیت اور آہ و بکا کی منتشر لہریں اور دوم مقصدیت کا ایک کچا پن۔۔۔
  4. ایک ایسا فکری اور سیاسی خلاء پیدا ہوا جس نے ہر شعبہ میں بےسمتی کا احساس پیدا کر دیا۔ اس بےسمتی نے قومی سفر کا رخ خارج سے باطن کی طرف موڑ دیا۔۔۔

اردو غزل کا پاکستانی دور

تقسیم کے بعد پاکستانی ادب کا موضوعاتی تجزیہ کیا جائے تو چار لہریں نمایاں نظر آتی ہیں

  1. ایک فسادات کا المیہ انسانی جانوں کا زیاں اور اس پر دکھ وغم کا اظہار اُردو غزل میں یہ تاثر گہرے دکھ اور غم کی صورت نمایاں ہوا،
  2. دوسری لہر ہجرت کا دکھ اور چھوڑی ہوئی آپس کی بازگشت، غزل میں اس کی نمائندگی ناصر کاظمی کے یہاں ہوئی۔
  3. تیسری لہر خوابوں اور آدرشوں کا ٹوٹنا، تقسیم کے چند سالوں بعد ہی احساس ہونے لگا کہ جس عظیم مقصد کے لئے اتنی بڑی قربانی دی گئی تھی وہ ابھی دور ہے اور تقسیم کے بعد ہی لوٹ کھسوٹ کا وہی نظام قائم ہو گیا ہے جس کے خلاف یہ ساری جد و جہد تھی ۔ چنانچہ اس دور کے اکثر شاعروں کے یہاں اس مایوسی کا اظہار کہ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی اور یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر کی صورت نمایاں ہوا ۔
  4. چوتھی لہر میں معدودے چند شاعر ایسے ہیں جو خوش فہمی کا شکار رہے یا دوسرے لفظوں میں لوٹ کھسوٹ کے نظام کو جھوٹے خوابوں سے قابل قبول بنانے کی کوششوں کرتے رہے۔ جن کے بارے میں حفیظ جالندھری نے کہا ہے:

جلوہ صبح کا اندھوں میں تو ہے جوش و خروش
آنکھ والوں کو وہی رات نظر آتی ہے

ہماری شاعری خصوصاً غزل کو جبر و تشدد اور سیاسی خوف کی فضا اور اس کے خلاف ایمائیت واشاریت میں مزاحمتی روئیے کا اظہار ورثے میں ملے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اردو غزل پر اعتراضات اور ان کے جوابات

اُردو غزل نے اٹھارویں صدی کے زوال میں آنکھ کھولی اور شاعروں نے خزاں کے ہاتھوں باغ کی بربادی اور صیاد کے حوالوں سے استعاراتی زبان میں اس زوال کی عمدہ عکاسی کی اور دل اور دلی کے دکھ کو ایک دوسرے سے اس طرح ملا دیا کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔

اٹھارویں اور انیسویں صدی کی غزل پر زوال کے یہ اثرات بہت واضح ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایک استعاراتی مزاحمتی رویہ بھی موجود ہے۔

انیسویں صدی کی غزل میں دو رجحان نمایاں ہیں اول یاسیت اور آہ و بکا کی منتشر لہریں اور دوم مقصدیت کا ایک کچاپن ۔

یہ بھی پڑھیں: اردو غزل پر میر کے اثرات

بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں اقبال کے جدید تصورات اور فرد کی آزادی کے تصور نے غزل کو ایک نئے مزاج سے آشنا کیا۔

بیسویں صدی نئے نئے انکشافات کی صدی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ نو آبادیاتی نظام کے ٹوٹنے کی صدی بھی ہے

اگر چہ اس صدی کے اختتام پر ایک نئی طرز کا نو آبادیاتی نظام ملٹی نیشنل کی صورت وجود میں آچکا ہے۔

تاہم یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسی صدی کے نصف آخر اور کچھ پہلے یعنی جنگ عظیم دوم کے بعد کئی ملک آزاد ہوئے اور بظاہر اقتدار مقامی لوگوں کو منتقل ہو گیا لیکن چند برسوں ہی میں یہ خواب ٹوٹنے لگے اور واضح ہونے لگا کہ اکثر ملکوں میں جن مقامی لوگوں کو اقتدار کی مسند پر بٹھایا گیا ہے

وہ سامراج ہی کے تربیت یافتہ ہیں اور آقائیت کا وہی نظام بحال ہوگیا ہے۔ پاکستانی غزل کے ابتدائی دور ہی میں اس بے اطمینانی کا تاثر نمایاں ہونے لگا۔

رہزنوں ہے تو بھاگ نکلا تھا
اب مجھے رہیروں نے گھیرا
( حفیظ جالندھری )

ابھی بادباں کو نہ رکھو ابھی مضطرب ہے رخ ہوا
کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آکے چلا گیا
(فیض)

کس تجلی کا دیا ہم کو فریب
کس دھندلکے میں ہمیں پہنچا دیا
( احمد ندیم قاسمی )

وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
( ناصر کاظمی )

1947ء سے 1958ء تک غیر مستحکم سیاسی صورت اور وقتی پالیسیوں نے پاکستانی معاشرے کو طرح طرح کے سماجی اور فکری مسائل سے دوچار کر دیا۔

جن کا حل مارشل لا کی صورت ڈھونڈا گیا لیکن 1958ء کے مارشل لانے اس ابتر صورت حال کو سنبھالنے کی بجائے اور گہرا کر دیا۔

ایک ایسا فکری اور سیاسی خلاء پیدا ہوا جس نے ہر شعبہ میں بےسمتی کا احساس پیدا کر دیا۔ اس بےسمتی نے قومی سفر کا رخ خارج سے باطن کی طرف موڑ دیا۔

ادب میں موضوع کی بجائے فنی اور انسانی بحثوں نے اہمیت اختیار کی۔ ساٹھ کی دہائی میں نئی لسانی تشکیلات کی بحثوں نے اگرچہ نظم اور افسانے کو زیادہ متاثر کیا لیکن غزل پر بھی اس کے اثرات پڑے لیکن یہ اثرات موضوعات تک ہی محدود رہے۔

نظم اور افسانے کی طرح غزل ہیئتی سطح پر کسی توڑ پھوڑ کا شکار نہیں ہوئی اور ظفر اقبال کی نئی لسانی تشکیلات اور آزاد غزل کے چند تجربے بڑی سطح پر پذیرائی حاصل نہ کر سکے۔

اس کی وجہ وہ ہیتی و تکنیکی نظام تھا جوصدیوں سے غزل کی پہچان ہے اور جس کے بغیر شاید غزل اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ۔

اس دور کے نمایاں غزل گوؤں میں فیض، حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، احسان دانش، حفیظ ہوشیار پوری، عابد علی عابد، صوفی تبسم، قتیل شفائی، ظہیر کاشمیری، فارغ بخاری، سیف، ابن انشاء ضیاء جالندھری باقی صدیقی، انجم رومانی، یوسف ظفر، احمد ظفر اور جمیل ملک وغیرہ شامل ہیں۔

حواشی

کتاب کا نام: اُردو ادب کا پاکستانی دور 1
کوڈ: 5615
موضوع: اردو غزل کا پاکستانی دور 2.1۔ ( پہلا دور 1947ء سے 1960ء)
صفحہ: 13 تا 16
مرتب کردہ: محمد ہمایوں قائم خانی

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں