اردو غزل کا پاکستانی دور
جیسا کہ کہا گیا ہے، غزل اُردو شاعری کی مقبول ترین صنف رہی ہے۔ شعراء نے غزل میں اظہار کو ہمیشہ اپنے لیے باعث فخر سمجھا ہے اور اس کے قارئین کا دائرہ بھی دیگر اصناف کی نسبت وسیع تر رہا ہے۔ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں، تمام تر مخالفت کے باوجود، غزل نے اپنا وجود برقرار رکھا۔
یہ بھی پڑھیں: غزل کی تعریف،مفہوم،اقسام اور لوازمات
اپنی ایمائیت، اشاریت، رمزیت اور فنی جمالیات کی وجہ سے غزل ایک باوقار صنف سخن ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غزل فکری اور فلسفیانہ تنوع کے ساتھ ساتھ عصری شعور کی نمائندہ رہی ہے۔ اٹھارہویں صدی کی سیاسی و فکری ابتری کے پہلو بہ پہلو انسانی دکھوں کی ہم آہنگی نے غزل کو "غم جاں” اور "غم جہاں” دونوں کا ترجمان بنا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: حلقہ ارباب ذوق کی غزل | PDF
اُردو غزل کا شاعر میر کی طرح دل اور دلی کے مشترکہ دکھ اور المیے کو "ذات آشوب” اور "شہر آشوب” کے اظہار کا ذریعہ بناتا رہا ہے۔ غزل کے ورثے میں میر کی انسانی نفسیات کی عکاسی، غالب کی فلسفیانہ روایت اور اقبال کی جدید فکر شامل ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ موضوعات کی تہہ داری کے لیے غزل کی ایمائیت و اشاریت بہت موزوں ہے، اسی لیے دوسری اصناف کے برعکس غزل، عصری صداقتوں کے اظہار کا ہمیشہ ذریعہ رہی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد غزل کو موضوعاتی اور فنی سطح پر دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
2.1۔ پہلا دور (1947ء تا 1960ء)
تقسیم کے بعد پاکستانی ادب کا موضوعاتی تجزیہ کیا جائے تو چار لہریں نمایاں نظر آتی ہیں:
فسادات کا المیہ، انسانی جانوں کا زیاں اور اس پر دکھ و غم کا اظہار۔ اُردو غزل میں یہ تاثر گہرے دکھ کی صورت میں نمایاں ہوا۔
ہجرت کا دکھ اور چھوڑی ہوئی یادوں کی بازگشت، جس کی نمائندگی ناصر کاظمی کی غزلوں میں ملتی ہے۔
خوابوں اور آدرشوں کا ٹوٹنا۔ تقسیم کے چند سال بعد ہی یہ احساس ہونے لگا کہ جس عظیم مقصد کے لیے اتنی بڑی قربانی دی گئی تھی، وہ ابھی دور ہے۔ تقسیم کے بعد لوٹ کھسوٹ کا وہی نظام قائم ہو گیا، جس کے خلاف ساری جدوجہد تھی۔ چنانچہ اس دور کے اکثر شاعروں نے اس مایوسی کا اظہار کیا:
"چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی”
"یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر”
چند شاعر ایسے بھی تھے جو خوش فہمی کا شکار رہے، یا دوسرے لفظوں میں، لوٹ کھسوٹ کے نظام کو جھوٹے خوابوں سے قابلِ قبول بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے بارے میں حفیظ جالندھری نے کہا:
"جلوۂ صبح کا اندھوں میں تو ہے جوش و خروش
آنکھ والوں کو وہی رات نظر آتی ہے”
ہماری شاعری، خصوصاً غزل کو، جبر و تشدد اور سیاسی خوف کی فضا، اور اس کے خلاف ایمائیت و اشاریت میں مزاحمتی رویے کا اظہار ورثے میں ملا ہے۔ اُردو غزل نے اٹھارہویں صدی کے زوال میں آنکھ کھولی اور شاعروں نے خزاں کے ہاتھوں باغ کی بربادی اور گلچیں و صیّاد کے حوالوں سے استعاراتی زبان میں اس زوال کی عمدہ عکاسی کی۔
دل اور دلی کے دکھ کو ایک دوسرے سے اس طرح ملا دیا گیا کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں رہا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی غزل پر زوال کے اثرات بہت واضح ہیں، لیکن اس کے ساتھ ایک استعاراتی مزاحمتی رویہ بھی موجود ہے۔
انیسویں صدی کی غزل میں دو رجحانات نمایاں ہیں:
اول: یاسیت اور آہ و بکا کی منتشر لہریں
دوم: مقصدیت کا ایک کچا پن
بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں، اقبال کے جدید تصورات اور فرد کی آزادی کے نظریے نے غزل کو ایک نئے مزاج سے آشنا کیا۔ یہ صدی نئے انکشافات کی صدی ہے اور ساتھ ہی نوآبادیاتی نظام کے ٹوٹنے کی صدی بھی۔
اگرچہ اس کے اختتام پر ایک نیا نوآبادیاتی نظام، ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی صورت میں، وجود میں آ چکا تھا، تاہم یہ تاریخی حقیقت ہے کہ صدی کے نصف آخر میں، اور کچھ پہلے، یعنی جنگ عظیم دوم کے بعد، کئی ممالک آزاد ہوئے اور بظاہر اقتدار مقامی لوگوں کو منتقل ہو گیا۔ لیکن چند برسوں ہی میں یہ خواب ٹوٹنے لگے اور واضح ہونے لگا کہ اکثر ممالک میں جن مقامی لوگوں کو اقتدار دیا گیا، وہ سامراج کے تربیت یافتہ تھے اور آقائیت کا وہی نظام بحال ہو گیا۔
پاکستانی غزل کے ابتدائی دور ہی میں اس بے اطمینانی کا تاثر نمایاں ہونے لگا:
"رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا
اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے”
— حفیظ جالندھری
"ابھی بادباں کو نہ رکھو، ابھی مضطرب ہے رُخِ ہوا
کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آ کے چلا گیا”
— فیض احمد فیض
"کی تجلی کا دیا ہم کو، قریب کی دھندلکے میں
ہمیں پہنچا دیا”
— احمد ندیم قاسمی
"وہ صبح آتے آتے رہ گئی، کہاں جو قافلے تھے، آنے والے کیا ہوئے؟”
— ناصر کاظمی
1947ء سے 1958ء تک، غیر مستحکم سیاسی صورت حال اور وقتی پالیسیوں نے پاکستانی معاشرے کو طرح طرح کے سماجی اور فکری مسائل سے دو چار کیا، جن کا حل مارشل لا کی صورت میں ڈھونڈا گیا۔ اس سے ایک سیاسی خلا پیدا ہوا، جس نے ہر شعبہ زندگی میں بے سمتی کا احساس پیدا کر دیا۔
اس بے سمتی نے قومی سفر کا رُخ خارج سے باطن کی طرف موڑ دیا۔ ادب میں موضوع کے بجائے فنی اور لسانی بحثوں نے اہمیت حاصل کر لی۔ ساٹھ کی دہائی میں نئی لسانی تشکیلات کی بحثوں نے اگرچہ نظم اور افسانے کو زیادہ متاثر کیا، لیکن غزل پر بھی اس کے اثرات پڑے، البتہ یہ اثرات صرف موضوعات تک محدود رہے۔
نظم اور افسانے کی طرح، غزل ہیئتی سطح پر کسی توڑ پھوڑ کا شکار نہیں ہوئی۔ ظفر اقبال کی نئی لسانی تشکیلات اور آزاد غزل کے چند تجربے بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل نہ کر سکے۔ اس کی وجہ وہ بیتی اور تکنیکی نظام تھا جو صدیوں سے غزل کی پہچان ہے، اور جس کے بغیر شاید غزل اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔
اس دور کے نمایاں غزل گو شعرا میں فیض، حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، احسان دانش، حفیظ ہوشیارپوری، عدم، عابد علی عابد، صوفی تبسم، قتیل شفائی، ظہیر کاشمیری، فارغ بخاری، ابنِ انشاء، ضیاء جالندھری، باقی صدیقی، انجم رومانی، یوسف ظفر، احمد ظفر، اور جمیل ملک وغیرہ شامل ہیں۔
Name: Miabah Rao
حواشی
کتاب کا نام: اردو ادب کا پاکستانی دور1،موضوع : اردو غزل کا پاکستانی دور،مرتب کردہ : ثمینہ شیخ اُردو غزل کا پاکستانی دور