اردو ڈراما کی معنی اور ڈرامے کا آغاز

اردو ڈراما کی معنی اور ڈرامے کا آغاز

ڈراما معنی و مفہوم

اردو ڈراما کی معنی اور ڈرامے کا آغاز،ڈراما یونانی زبان کے لفظ ڈراؤ سے نکلا ہے، جس کا مطلب ” کر کے دکھانا ہے۔ ہندی میں ڈرامے کو "ناٹک” اور سنسکرت زبان میں ” رویک” کہتے ہیں۔ یونان کے مشہور فلسفی اور نقاد ارسطو نے اپنی مشہور کتاب بوطیقا میں ڈرامے کو انسانی اعمال کی نقالی قرار دیا ہے۔ انسانی اعمال کی نقالی سے مراد انسانی زندگی کی عکاسی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈرامے کے فنی عناصر

ادب میں کہانی یا قصہ بیان کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ان طریقوں کو داستان، ناول، افسانہ اور ڈرامے کا نام دیا گیا ہے، لیکن اول الذکر تینوں اصناف کا تعلق پڑھنے سے ہے، جب کہ ڈراما لوگوں کے سامنے کر کے دکھایا جاتا ہے اور یہ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ہوتا ہے۔ ڈرامے میں حقیقی زندگی یا اس کی پرچھائیں دیکھنے کو ملتی ہیں، اسی لیے ڈرامے کا موضوع زندگی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو ڈرامہ کی تعریف اور ارتقاء

ڈراما ایسی کہانی یا قصہ ہے جو ادا کاری کے لیے لکھا جائے یا ادا کاروں کے ذریعے سٹیج پر پیش کیا جائے ۔

کرداروں کے ذریعے پیش کی جانے والی کہانی کا تعلق کسی نہ کسی طرح انسان کی جیتی جاگتی زندگی سے ہوتا ہے، اسی زندگی کے مختلف واقعات و مشاہدات کو کرداروں اور ان کی گفتگو کے ذریعے عملی طور پر پیش کرنے کا نام ڈراما ہے۔
پروفیسر وقار عظیم ڈرامے کی سیدھی سادی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں:

” ڈرامے کا سب سے بڑا امتیاز اور اُس کا بنیادی عنصر اس کی یہی خصوصیت ہے کہ جو کچھ لکھا جائے ، اسے کر کے دکھایا جائے ۔

وقار عظیم ، اردو ڈراما، لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ۱۹۹۶ ء میں ۲۱)

ڈرامے کا آغاز

ڈرامے کی ابتدا قدیم زمانے میں رقص وسرور کی محافل سے ہوئی قبیلوں کی مذہبی رسومات اور فتوحات کے بعد جشن منعقد کیے جاتے جن کے لیے مختلف کھیل ، تماشوں کا اہتمام کیا جاتا۔

یہ کھیل باقاعدہ منصوبہ بندی سے ترتیب دیے جاتے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین ڈرامے کے فن کو ہزاروں سال پرانا بتاتے ہیں۔ ڈرامے کے آغاز کے بارے میں اس سے بھی پرانی ایک اور دلچسپ کہانی مشہور ہے کہ:

"ایک مرتبہ دیوتاؤں کے دل میں اپنی ہموار، سپاٹ، بے تغیر اور بے لطف زندگی سے ایسی اکتاہٹ پیدا ہوئی کہ وہ سب مل کر راجا اندر کے پاس گئے اور اپنی بے کیف و بے مزا زندگی کے لیے کسی دلچسپ مشغلے کے طالب ہوئے ۔

راجا اندر نے کہا کہ چلو برہما کے پاس چلتے ہیں، ممکن ہے کوئی صورت نکل آئے ۔ سب برہما کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعا بیان کیا۔ برہما نے تھوڑی سوچ بچار کے بعد ایک ترکیب نکالی۔ اس نے رگ دید سے رقص ، سام وید سے سرود، بجر وید سے حرکات وسکنات اور اتھر وید سے اظہار جذبات کا طریقہ اخذ کر کے ایک پانچواں وید ترتیب دیا اور اس کا نام نٹ وید رکھا۔

یہ عجیب و غریب نسخہ دیوتاؤں کے ہاتھ آیا تو وہ خوش خوش واپس آئے اور اسے عملی طور پر آزمایا ۔ یہی نسخہ آگے چل کر دنیا والوں کے لیے بھی شمع ہدایت بنا اور اس کی بنیاد پر شکنتلا جیسے ناٹک لکھے گئے”-

ظاہر ہے مذکورہ قصے میں صداقت نہیں ہے لیکن اسے گھڑنے والے نے ، اس میں ایسی فنی خصوصیات شامل کر دیں جنھوں نے ڈرامے میں بنیاد کا کام کیا اور ابتدائی ناٹکوں میں جگہ پانے والے رقص، جذبات اور حرکات و سکنات بعد میں ڈرامے کی امتیازی خصوصیات قرار پائے ۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جنھوں نے ڈرامے کو ان دوسری اصناف ادب سے فنی اور تکنیکی طور پر الگ کر دیا ، جن میں کہانی بیان کی جاتی ہے۔

ڈرامے کے ناقدین کے مطابق ڈرامائی ادب اور تھیٹر کا با قاعدہ آغاز قریباً پانچ سو سال قبل مسیح سے ہوا، جب یونان میں ایتھنز کے شہریوں کے سامنے اسکائی لیس کا لکھا ہوا کھیل پیش کیا گیا ۔

اسکائی لیس کے علاوہ قدیم یونان کے دوسرے معروف ڈراما نگار سوفوکلیس اور یوری پی ڈیز تھے۔ اس دور میں یونان نے ڈرامے میں بڑی ترقی کی۔ اس کے بعد اہل یورپ نے ڈرامے کو اپنایا اور اس پر خصوصی توجہ دی۔ شیکسپیر، مولیر اور برنارڈ شا یورپ کے بڑے ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔

پروف ریڈنگ : حمیرا شاہین

حواشی

کتاب کا نام: تحریر و انشا،کوڈ : 9008،صفحہ: 124،موضوع: ڈراما معنی ومفہوم،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں