اردو ادب میں رپورتاژ نگاری کی ابتدا

اردو ادب میں رپورتاژ نگاری کی ابتدا

ناول، افسانہ اور چند دوسری اصناف کی طرح یہ صنف بھی انگریزی ادب کے زیرِ اثر اردو میں داخل ہوئی۔ یہ خالص مغربی ادب سے تعلق نہیں رکھتی، بلکہ اس کا خمیر فرانسیسی ادب سے اٹھایا گیا۔ اردو میں رپورتاژ نگاری کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی سے ہوتا ہے۔ اردو ادب میں رپورتاژ نگاری کے ابتدائی نقوش مولانا محمد ابوالکلام آزاد کے ہاں ملتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: رپورتاژ نگاری پر تقسیم ہند کے اثرات | PDF

"جشنِ تاج پوشی کا کلکتہ میں دلچسپ مشاعرہ” ایک ایسا نمونہ ہے، جس میں رپورتاژ نگاری کی جھلکیاں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کے کئی نمونے ترقی پسند تحریک کے دور کے رسائل و اخبارات میں بھی ملتے ہیں۔ اسی تحریک کے زیرِ اثر رپورتاژ نگاری نے آغاز و ارتقا کی مختلف منزلیں طے کرتے ہوئے اپنی الگ حیثیت کو منوا کر جدید نثری ادب میں اپنی ضرورت اور اہمیت ثابت کی۔

یہ بھی پڑھیں: اردو میں رپورتاژ نگاری کا فن اور ارتقا | PDF

ترقی پسند تحریک کے تحت رپورتاژ کی ابتدا انجمن کے سیکرٹری حمید اختر کی لکھی گئی اُن رپورٹوں سے ہوئی، جن میں وہ جلسوں کی روداد لکھتے تھے۔ ان کی روداد نگاری کے بارے میں سجاد ظہیر رقم طراز ہیں:

"ترقی پسند مصنفین کے ان جلسوں کی تفصیلی روداد اور ان کی فضا کو حمید اختر بڑی خوبی کے ساتھ قلم بند کرتے تھے۔ ہر جلسے میں وہ بحیثیت سیکرٹری انجمن کے گزشتہ ہفتے کی روداد پڑھتے تھے۔ عام طور پر سیکرٹری کی رپورٹ ایک خشک اور رسمی چیز ہوتی ہے، لیکن حمید اختر نے ان رپورٹوں میں بھی ادبی رنگ پیدا کر دیا، اور اس طرح غالباً وہ ایک نئی ادبی صنف کے موجد سمجھے جا سکتے ہیں۔”
(عبد العزیز، اردو میں رپورتاژ نگاری، ص 33، 34)

حمید اختر ترقی پسند تحریک کی بمبئی شاخ کے سیکرٹری تھے۔ انھوں نے 1946–47 میں بمبئی میں منعقد ہونے والے انجمن کے جلسوں کی رودادیں 2000ء میں دردِ انجمن کے نام سے شائع کیں، جن میں ہر طور رپورتاژ نگاری کے نمونے ملتے ہیں۔

اردو کے پہلے رپورتاژ کے بارے میں محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض محققین نے سجاد ظہیر کے "سفرِ بغداد” کو اردو کا اولین رپورتاژ قرار دیا ہے، جب کہ محمد حسن عسکری نے کرشن چندر کے "پودے” کو اردو کا پہلا رپورتاژ کہا ہے، جو 1947ء میں شائع ہوا۔

سجاد ظہیر کا رپورتاژ "یادیں”، جو 1940ء میں لکھا گیا، اسے بھی اردو کا پہلا رپورتاژ کہا جاتا ہے۔ اگر رپورتاژ نگاری کے فنی اصولوں کے مطابق جانچا جائے تو کرشن چندر کا "پودے” ہی پہلا با قاعدہ رپورتاژ کہلائے گا۔

"پودے” کے سرورق پر لکھا گیا جملہ اس کے فنی لحاظ سے مکمل رپورتاژ ہونے کی دلیل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”کردار، مقام، واقعات سب حقیقی ہیں، مصنف صرف ترتیب اور تسلسل کا ذمہ دار ہے۔“

کرشن چندر نے "پودے” کو نو عنوانات کے تحت پیش کیا ہے۔ "گاڑی میں” کے عنوان سے لکھے گئے حصے کا ابتدائیہ ملاحظہ کیجیے، جو رپورتاژ نگاری کے فن اور اسلوب کی جانب رہنمائی کرتا ہے:

تھرڈ کے ڈبے پر سکندرآباد لکھا تھا۔ سکندرآباد، جو حیدرآباد دکن میں واقع ہے۔ تھرڈ کا ڈبہ، جو نظام اسٹیٹ ریلوے کی ملکیت تھا، اس وقت بوری بندر کے اسٹیشن پر کھڑا تھا اور مسافر اس میں گویا گُو کی بھیلیوں کی طرح لدے ہوئے تھے۔ نظام اسٹیٹ ریلوے کے تیسرے درجے کے ڈبوں میں بھی بجلی کے پنکھے لگے ہوتے ہیں،

چنانچہ جہاں ترقی پسند ادیبوں کا گروہ بیٹھا تھا، وہاں اتنی گھٹن نہ تھی۔ دراصل ان لوگوں نے اپنے بیٹھنے کے لیے اچھی جگہ حاصل کر لی تھی۔ پورے ڈبے میں صرف دو پنکھے تھے اور جہاں یہ پنکھے تھے، وہیں ترقی پسند ادیب بھی تھے۔ دونوں پنکھوں کے نیچے آمنے سامنے ٹولیاں بنا کر بیٹھ گئے تھے۔

گاڑی میں اس لیے بیٹھے تھے کیونکہ حیدرآباد دکن جا رہے تھے، اور حیدرآباد دکن اس لیے جا رہے تھے کہ وہاں اردو کے ترقی پسند ادیبوں کی کل ہند کانفرنس تھی۔
(پودے، کرشن چندر، بمبئی، مکتبۂ سلطانی، 1947ء، ص 21–22)

اردو کا یہ پہلا رپورتاژ زندگی کی توانائی اور احساس کی شدت سے بھرپور تھا، جس نے اس صنف کو مضبوط بنیاد عطا کی، اور وقت کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں رپورتاژ نگاری پھلنے پھولنے لگی

۔Name :Misbah Rao

حواشی

(موضوع) اردو ادب میں رپورتاژ نگاری کی ابتدا،کتاب کا نام: تحریر و انشا (عملی تربیت)،کورس کوڈ: 9008،صفحہ نمبر: 148 تا 150 | موضوع نمبر: 3،مرتبہ: مسکان محمد زمان

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں