تخلیقی ادب میں تاریخ و تہذیب کا برتاؤ

تخلیقی ادب میں تاریخ و تہذیب کا برتاؤ | The Treatment of History and Civilization in Creative Literature

تحریر از ڈاکٹر غلام فرید

اس تحریر کے اہم مقامات:

  1. اسوالڈ شپینگلر نے کہا تھا تہذیبیں نامیے ہیں اور تاریخ اُن کی اجتماعی سوانح حیات ہے۔۔۔
  2. تہذیب ایک اصطلاح (Term) ہے او ر تاریخ ایک علم(Knowledge) ۔۔۔
  3. تہذیبوں کو علم کا گہوارہ مانا جاتا ہے اور تاریخ کا علم تخلیق کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ ۔۔۔
  4. تاریخ و تہذیب اس طرح اد ب میں گھل مل کر سامنے آئیں کہ تہذیبوں کے تصادم والے سفید جھوٹ کو طشت از بام کیا جا سکے۔۔۔
  5. گوپی چند نارنگ نئے ادب کو تاریخ اور تہذیب کا چہرہ قرار دیا ہے۔۔۔

تخلیقی ادب میں تاریخ و تہذیب کا برتاؤ

اسوالڈ شپینگلر نے کہا تھا تہذیبیں نامیے ہیں اور تاریخ اُن کی اجتماعی سوانح حیات ہے۔ علم اور تخیل جب اختلاط کی منزلیں طے کر لیں اور دونوں اپنی شناخت مٹا کر نئے پیرہن میں جلوہ گر ہوں تونئی تخلیقی ہیت کو ادب کہا جاتا ہے۔

تہذیب ایک اصطلاح (Term) ہے او ر تاریخ ایک علم(Knowledge) ۔تاریخ کا سروکار معاشروں اور تہذیبوں سے ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی واقعہ کسی خاص مقام اور وقت کا متقاضی ہوتا ہے۔

واقعات اور حادثات کی ظہور پذیری کو الفاظ کے جامع میں محفوظ کرنا تاریخ کا علم ہے۔ حال پر چونکہ گرفت نا ممکن ہے لہذا ماضی کے لمحات کو قرطاس کے پنجرے، حروف کی صورت مقید کرنا تاریخی عمل ہے۔

تاریخ و تہذیب کے رشتے بہت عمیق ہیں اور تخلیقی ادب میں دونوں سے استفادہ کیا جاتاہے۔ تخیل کبھی خلا میں پیدا نہیں ہوتا اس کے لیے معاشرے کا ہونا لازم ہے۔ جس میں زندگی رواں دواں نظر آئے۔

تہذیبوں کو علم کا گہوارہ مانا جاتا ہے اور تاریخ کا علم تخلیق کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ یونان ایک عظیم تہذیب تھی اور ٹرائے کی جنگ ایک واقعہ جو ماضی بن چکا تھا مگر ہومر نے اس کو نظم کر کے گویا تخلیقی ادب پیداکیا جس میں واضح طور پر تاریخ اور تہذیب ہم آغوش نظر آتے ہیں۔

بقول ابوالکلام آزادسب سے زیادہ دنیا کا قدیمی محاصرہ طروادہ ہے جس کا افسانہ یونان کے مشہور سحر طراز اور ابو الشعراء ہومر نے ایلیڈ میں نظم کیا ہے۔(۴۰)

مہا بھارت کو ہندوستان میں رزمیہ کی حیثیت حاصل ہے اس کو سنسکرت کی ایلیڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک مہذب ملک کی داستان ہے جس نے ادبی چولا پہن کر ابدی زندگی پا لی۔

تاریخ اور تہذیب کے مرقع کو تخلیقی ادب میں ایسے برتا گیا کہ ہزاروں سا ل بعد بھی جدید دور کے تخلیق کار اس کی فنی عظمت کے قائل نظر آئے۔ ستار طاہر کے بقول شوپنہار گیتا ( جو مہا بھارت کے چھٹے باب کا ایک حصہ ہے) اور ویدوں کا بے حد مداح تھا۔

اس کے فلسفے پر اس کے تاثرات ملتے ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ اور ایذرا پاؤنڈ بھی گیتا کے قاری تھے۔

تخلیقی ادب میں کوئی تاریخی واقعہ یا ثقافتی تہوار پیش کیا جاتا ہے تو وہ کچھ فنی چابکدستیوں کا متقاضی ہوتا ہے ورنہ وہ بیان اخباری رپورٹ اور فوٹو گرافی ہو کر رہ جاتا ہے۔

لفظ میں بڑی قوت ہوتی ہے یہ مثلِ اینٹ ہوتا ہے جس طرح ہر کوئی اینٹوں سے عمارت تعمیر نہیں کر سکتا سوائے معمار کاریگر کے اسی طرح الفاظ کے در و بست کی استطاعت بھی ہر کس و ناقص کا کام نہیں۔ تخلیق کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے کہا ہے

’’ادب تخلیق کرنے کا عمل خود کو ہمہ وقت بھی Re-createکرنے کا عمل ہے جس میں زبان ایک اہم کردار ادا کرتی ہے جب تک زبان تخلیقی طور پر فعال نہ ہو وہ خیال کی اس صورت کو جو متخیلہ سے عبارت اور محسوسات کے ان دیکھے مد و جزر کی چوٹ پڑنے سے ایک عجیب سی پر اسراریت کی حامل ہوتی ہے گرفت میں نہیں لے سکتی۔‘‘(۴۱)

تخلیقی ادب میں تاریخ اور تہذیب ایسے گندھے ہوئے رچاؤ کیساتھ سامنے آئیں کہ وہ نہ تو نعرہ لگے اور نہ جذباتیت ظاہری سطح پر مترشح ہو۔ جس طرح تاج محل کی عمارت پر نظر پڑے تو ذہن میں محبت اور معمار کی خلاقی کی طرف دھیان چلا جاتاہے۔ عمارت کے اجزائے ترکیبی سے سروکار نہیں ہوتا۔

اسی طرح تخلیقی فن پارے جب سامنے آتے ہیں تو تاریخ و تہذیب کے تمام لوازمات کی موجودگی کے باوجود اس کی فنی عظمت سے ہی بحث ہوتی ہے ہاں البتہ غیر محسوس طور پر قاری کے ذہن میں تاریخ و تہذیب ضرور اجاگر ہوجاتے ہیں ۔ اردو شاعری میں تاریخ اور تہذیب کو جس کامیابی سے اقبال نے برتا ہے شاید ہی کسی اور کے ہاں اس کی مثال ملے۔

آدم کا خلد سے نکلنا ایک تاریخی واقعہ ہے اور زمین پر انسانی زندگی کی ابتداء گویا تہذیب کی خشتِ اول ہے۔ اقبال کے تخلیقی تجربے نے فقط چند اشعار میں کیسے اس صورت حال کو بیان کیا ہے ملاحظہ ہو نظم روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے سے چند اشعار:

کھول آنکھ زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوہ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایامِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکہ بیم و رجا دیکھ

انسانی تجربے میں تاریخ اور تہذیب دو طاقتور عناصر ہیں جن کی بنیاد پر کوئی تخلیقی سرگرمی وجود میں آتی ہے۔ شمیم حنفی کی رائے ہے۔انسانی تجرے کے اظہار کا دائرہ چاہے جتنا پھیل جائے تاریخ اور تہذیب کے عمل دخل سے اس کا پوری طرح آزاد اور الگ ہو جانا شاید ممکن نہیں۔(۴۲)

فنکار کے فن پارے ہاں فقط تجربے کے مرہون ہی نہیں ہوتے ان میں تخیل اور فکر کی جولانیاں بھی کارفرما ہوتی ہیں۔

جن عناصر کو ماورائی، یا غیر انسانی کردار یا اشیا کہا جاتاہے وہ در اصل تہذیب کے ممکنہ ارتقاء کی نیت یا ارادہ کہے جا سکتے ہیں مثلاً اڑن کھٹولے کا کہانی میں مذکور ہونا مستقبل کے جہاز کی طرف انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔

نمرود کے بارے میں جو قصہ ہے کہ ابراہیم کے خدا کو دیکھنے کے لیے چار عدد گدھ کے ساتھ مچان باندھ کر گیا تھا یہ مستقبل کے لیے نشانِ راہ تھے سائنس کے بارے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہر Immetation کو حقیقت میں بدلنے کے لیے لگی رہتی ہے۔ تخلیقی ادب میں ماضی کے حالات و واقعات ایسے رنگ میں پیش کیا جاتے ہیں کہ قارئین اپنے حال کو سنوار سکیں۔

ڈاکٹر صادق حسین نے سر والٹر ریلے کے حوالے سے لکھا ہے تاریخ کی غرض و غایت یہ ہے کہ ہمیں مثالوں کے ذریعے ماضی کے دور سے ایسی عقل و دانش سکھائے جو ہمارے خواہشات و اعمال کی رہنما بن سکے۔ (۴۳)

یہاں مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ نگاری ایک دقیق اور پیچیدہ فن ہے۔ دنیا میں شاید یہ واحد مضمون ہو گا جس کو ہر زمانے میں توڑ مروڑ کر اور مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ مورخ کی لکھی ہوئی تمام باتیں عام لوگ من و عن تسلیم کر لیتے ہیں۔

مورخین نے واقعات کو جیسے تھے کی بجائے (مورخ کی نظر) میں جیسے ہونے چاہیں تھے ،کے اصول پر پیش کیا ہے ۔ فنکار کا منصب یہ ہے کہ وہ صحیح تناطر میں تاریخ کو پیش کرے مثلاً اسلام تلوار کے زور سے پھیلا اور تمام مسلمان بادشاہ اسلام کا فروغ چاہتے تھے یہ ایک تاریخی مبالغہ ہے۔

حقائق کیا تھے یہ بتانا تخلیق کار کا کام ہے۔ تہذیب کس طرح وجود میں آتی اور پھلتی پھولتی اور پروان چرھتی ہے اور کن وجوہات کی بنا پر زوال پذیر ہو جاتی ہے ادب میں اس کا تجربہ ایسے ہو کہ معاشرے اورقومیں تہذیب کی بقا کا سامان کر سکیں ۔

تاریخ و تہذیب اس طرح اد ب میں گھل مل کر سامنے آئیں کہ تہذیبوں کے تصادم والے سفید جھوٹ کو طشت از بام کیا جا سکے۔ معاشرے یہ باور کر لیں کہ تہذیبیں (مہذب لوگوں کے سماج) ٹکراتی نہیں ہیں بلکہ سامراج تہذیبوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور وحشی ہمیشہ مہذب لوگوں کا استحصال کرتے آئے ہیں یہ کہانی بڑی پرانی ہے۔

اس بات سے لاکھ انکار کیا جائے کہ ادب میں کوئی مقصد یا ازم نہیں ہوتا مگر کسی بھی زبان کا اعلیٰ فن پارہ اٹھا کر دیکھ لیا جائے اس میں انسان کے حال کو ماضی کی غلطیوں کو پسِ منظر میں سنوارنے اور مستقبل کے لیے پیش بینی کے نشانِ راہ ملتے ہیں۔

جیسے کرامازوف برادران کو کچھ نقاد روس کی بائبل اور علی پور کے ایلی کو اردو کا گرو گرنتھ کہا جاتا ہے۔ ادب میں کیونکہ فکر و تخیل سے کام لیا جاتاہے جو کہ فلسفیانہ اور سائنسی منصب ہے اور خالقِ کائنات کا منشا بھی یہی ہے (افلا یتفکرون، افلا یتدبرون)۔

روس کا خلائی جہاز جب اپنا مشن مکمل کر کے زمین پر اترا اور کھیت میں کام کرنے والے کسان حیرت سے تک رہے تھے ۔

پروفیسر حبیب اللہ نے اس کو یوں بیان کیا ہے ۔اکیس اگست ۱۹۶۰ء کو ماسکو ریڈیو نے حجرہ (Air Tight Cabin) کے اترنے کی تفصیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس خلائی سواری کو اتارنے کاعمل بھی اسی طرح ہوا جس طرح افسانہ نگار اپنے افسانوں میں بیان کرتے ہیں ۔(۴۴)

دنیا کی تمام الہامی اور مذہبی کتب و صحائف ادبی شان بھی رکھتے ہیں۔ ان میں قصہ کہانیاں بھی ہیں اور بعض کا اسلوب شاعرانہ ہے۔ اس لیے انسانی فطرت کو کہانی مرغوب ہے۔

اور قافیہ پیمائی اور ترنم سے کلام زود اثر اور دلنشیں بن جاتاہے اور سننے والے کی طبعیت کو بھلا لگتا ہے۔ یہ کتابیں ظاہر ہے کئی صدیوں کے لیے اتری تھیں کہ آنے والے زمانوں کے لوگ بھی ان سے استفادہ کر سکیں مگر ان سب میں ایک بات مشترک تھی اور وہ تھی انسان کی فلاح اور ان کے شعور کی نشوو نما۔

ادب کی بھی یہی منتہا ہے کہ تاریخ اور تہذیب کے تجربات سے انسان کے ادراک کو ترقی دی جائے ۔ ستار طاہر نے لکھا ہے۔

’’اصل میں شہریار، شہرزاد کی سنائی ہوئی کہانیوں کے ذریعے اس انسانی فطرت کا شعور اور ادراک حاصل کر لیتا ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں تھا۔ ‘‘(۴۵)

ادب ماضی سے اپنا رشتہ ہر حال میں قائم رکھتا ہے اور روایت سے بھی جڑت مضبوط ہوتی ہے۔ روایت سے اگر انحراف نظر بھی آئے تو وہ ارتقاء کی منازل کے زینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ تہذیبوں کے عظیم ورثے تخلیقی تجربوں میں برتے جاتے ہیں۔

خیر کے سب پہلوؤں سے محبت اور شر کی ہر چیز سے بیزاری ادب میں پیش کی جاتی ہے۔ہم اپنے ماضی کی عظیم تہذیب سے اس کی انسان دوستی اور حق پرستی ، صلح جوئی، اس کا حسن اور سبھاؤتا اخذ کر لیتے ہیں۔(۴۶)

آرٹ میں ثقافتی خمیر ، تمدنی مزاج میں رنگ کر پیش ہوتا ہے۔ سنگ تراشی و مصوری جو جمالیاتی ذوق کے اعلیٰ نمونے ہیں اسی طرح موسیقی و شاعری اور فکشن بھی بہترین آئینے ہیں۔

جس طرح صنمیات عہد ماضی کے سنہرے دور کی تہذیب کی طرف مراجعت پر مجبور کرتے ہیں بعینیہ تخلیقی ادب روایت سے ناطہ جوڑے رکھنے کی تحریک دیتا ہے۔

بدھ کا مجسمہ صدیوں پر محیط تہذیب کو چشمِ تصور میں لانے کا سبب بن جاتاہے یا فرعون کی ممی کتنے زمانوں کے نقوش کو ابھار دیتی ہے۔

قلوپطرہ کی تصویر سے عہدِ رفتہ کی کتنی کہانیاں زندہ و جاوید ہو کر سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ اسی طرح ادب میں ایک شعر یا نظم یا کہانی میں تاریخ کی گم گشتہ تاریخیں اپنے درشن کرواتی ہیں ۔

تخلیق کار کو ماں یا زمین سے تشبیہ دی گئی ہے جو چند ماہ کی مشقت اور تکلیف کے بعد دردِ زہ میں مبتلا ہو کر تخلیقی عمل سر انجام دیتی ہیں۔ اسی طرح ادیب اپنی فکر کی کوکھ میں ایک بیج بو کر اس کی آبیاری کرتا ہے۔

اس کی ذہنی زرخیزی اور تخیل کی پاکیزگی سے وہ فن پارہ تخلیق ہوتا ہے جو روایت کی موروثیت کے ساتھ ساتھ جدت کا رنگ بھی لیے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ ماضی سے روشنی لیکر حال کی تعمیر اور مستقبل کے لیے تدبیر کا راستہ دکھاتا ہے۔ تخلیقی ادب میں آنے والے زمانوں کے لیے بھی امکانات پوشیدہ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر سلیم اختر نے درست کہا ہے تخلیق کار کا ذہن لا محدود امکانات کا گہوارہ ہے اور تخلیق ان امکانات کی نشاندہی کے لیے ایک کار آمد اشاریہ بن جاتی ہے۔ (۴۷)

برِ صغیر میں آریاؤں نے یہ باور کروایا کہ ان کے آنے سے قبل مقامی باشندے غیر مہذب تھے اور انہوں نے آکر تہذیب کی بنیاد رکھی مگر اس دعویٰ کی تردید ہو چکی ہے۔

ماہر آثارِ قدیمہ سر جان مارشل کی تحقیق قدیم دراوڑی تہذیب کے رہن سہن عمارتوں ، غسل خانوں ، سیورج کے نظام اور سکیورٹی حفاظتی انتطامات کے ساتھ ساتھ آرٹ کے نمونوں اور جانوروں کے مجسموں کو کسی طرح بھی ایران ، عراق اور مصر کی قدیم تہذیبوں سے کم تر قرار نہیں دیتی۔ برطانوی مورخ اسٹورٹ پیگاٹ کے مطابق دراوڑی لوگ شائستہ تہذیب کے مالک اور امن کے پیرو کار تھے۔ (۴۸)

ادب تحقیق کا متقاضی ہے ، ادیب کا مطالعہ اتنا وسیع ہو کہ اپنے فکری وجدان کو اس کا ہم رکاب کر کے حقیقتوں سے روشناس کروائے ۔ بڑے کہانی نگاروں نے بڑی بڑی حقیقتں پیش کی ہیں ۔تاریخ و تہذیب کے بغیر ادب تخلیق ہونا محال ہے۔

ادب برائے ادب ہو یا کہ ادب برائے زندگی ہر دو صورتوں وہ ان سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا ۔ دنیا کی ہر زبان کے ادب کا مطالعہ اور تمام قابلِ ذکر تخلیق کاروں کے فن پارے اس رائے کو تقویت دیتے ہیں۔

قدیم زمانے کے قصے ہوں ، رزمیہ گیت یا موجودہ دور کے ناول و غزل ان میں دونوں8 عناصر شامل ہیں۔ ادب میں ان کا برتاؤ اتنا تہہ در تہہ ہو کہ فن پارے تبلیغ اور پروپیگنڈا جیسی سطحی چیز نہ بن جائیں بلکہ اس میں تہذیب اپنے صحیح تناظر میں نظر آ جائے۔

گوپی چند نارنگ نئے ادب کو تاریخ اور تہذیب کا چہرہ قرار دیا ہے ادب تہذیب کا چہرہ ہے اور پوری کی پوری تہذیبیں اور زمانے اسی چہرے سے ہمارے روبرو ہوتے ہیں۔(۴۹)

تاریخ کا ایک المیہ یہ رہا ہے کہ وہ یا تو حقائق کی پردہ پوشی کرتی ہے یا وہ واقعات کو ایسے زاویے سے پیش کرتی ہے جس سے مورخ یا تاریخ لکھوانے والے کا منشا پورا ہوتا ہو۔ ادب میں جب نظریات کا چرچا ہوا تو Optimistic اور Pesimistic دو مکتبہ فکر بن گئے۔

ایک ماضی کے واقعات میں سے فقط نشاط انگیز عوامل کو اجاگر کرتا اور دوسرا معاشرے کی تمام اچھائیوں کو چھوڑ کر اس کے صرف تاریک پہلوؤں کو موضوع بناتا ۔ یہ دونوں رویے دو انتہاؤں کے عکاس تھے ۔

معاشرے کی جو تصویر ماضی میں تھی اس میں جو خوبیاں ، خامیاں تھی جو عیوب و محاسن تھے وہ سب ادیب کے پیشِ نظر رہنے چاہیں، تاریخ اور تہذیب ایسے ادب میں پیش ہوں کہ زندگی اپنے جامع مفہوم کے ساتھ اس میں رواں نظر آئے۔ فن کار کی فنی مہارت اسی میں پوشیدہ ہے ۔

فن کار کی مقبولیت کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ زندگی کو اس کی مکمل صورت میں قبول کرتا ہے ۔ وہ زندگی کے حسن کو ہی نہیں اس کے قبح کو بھی اپنے سینے سے لگاتا ہے وہ مسرت کا ہی متلاشی نہیں غم کو بھی زندگی کا حصہ جانتا ہے۔ وہ سکھ سے نہیں گھبراتا لیکن دکھ سے بھی دامن نہیں چراتا۔

بشکریہ: مقالہ انتطار حسین کے افسانوں اور ناولوں میں تاریخی و تہذیبی شعور

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں