ناصر کاظمی کی شاعری اور سوانحی حالات

ناصر کاظمی کی شاعری اور سوانحی حالات

ناصر کاظمی سوانحی خاکہ

ناصر کاظمی
پیدائش
سید ناصر رضا کاظمی
8 دسمبر 1925
انبالہ، خطۂ پنجاب، برطانوی ہند
وفات
2 مارچ 1972 (عمر 46 سال)
لاہور، پنجاب، پاکستان
قلمی نام
ناصر
پیشہ
شاعری، صحافی، عملہ مدیر ریڈیو پاکستان، مصنف
قومیت
پاکستانی قوم
مادر علمی
اسلامیہ کالج، لاہور، پاکستان
اصناف
غزل
نمایاں کام
پہلی بارش

ناصر کاظمی اردو کے مشہور شاعر اور جدید غزل کے اہم نمائندہ ہیں۔ ان کا اصل نام سید ناصر رضا کاظمی تھا، اور وہ 8 دسمبر 1925 کو انبالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ناصر کاظمی نے اپنی تعلیم لاہور میں حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد وہ اسی شہر میں رہائش پذیر ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: ناصر کاظمی کی حیات اور شخصیت

ناصر کاظمی کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت سادگی اور جذبات کی گہرائی ہے۔ ان کی غزلیں فطرت کے حسین مناظر، انسانی احساسات، تنہائی، اداسی اور محبت کے تجربات کو سادہ مگر گہرے انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ان کا اسلوب روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہے، جس نے انہیں ایک منفرد مقام عطا کیا۔

ان کی مشہور شعری مجموعے "برگِ نے”، "دیوان”، اور "پہلی بارش” ہیں۔ ناصر کاظمی کا کلام دل کی گہرائیوں کو چھو لینے والی سادگی اور اندرونی کرب کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سی ادبی خدمات انجام دیں اور شاعری میں ایک نئی روح پھونکی۔

ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 کو وفات پا گئے، لیکن ان کا کلام آج بھی اردو ادب میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔

ناصر کاظمی ۸دسمبر ۱۹۲۵ کو انبالہ شہر میں پیدا ہوۓ۔ان کے والد محمد سلطان کاظمی رائل انڈین آرمی میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز تھے۔ناصر نے اردو اور فارسی کی بنیادی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی۔پانچویں اور چھٹی جماعت نیشنل ہائی سکول پشاور سے پاس کیا۔نویں اور دسویں جماعت مسلم ہائی سکول انبالہ سے پاس کیا۔ناصر نے ابھی بی اے کی ڈگری نہیں لی تھی کہ پاکستان کا قیام ہو گیا اور ناصر کو ہجرت کرنا پڑی۔

یہ بھی پڑھیں: ناصر کاظمی حیات اور ادبی خدمات pdf

ناصر کاظمی: ایک تعارف
تحریر : فراز احمد
ناصر کاظمی سے میرا تعارف 2018 میں ہوا جب میں بی ایس اردو کے میقات سوم میں تھا ہمارے نصاب میں ان کی ایک غزل شامل تھی اس وقت میری ان سے ملاقات ایک غزل تک ہی تھی میرا ان سے تفصیلی تعارف 2021 میں ہوا دوستوں میں آپ کو ناصر کاظمی کا تعارف چند لائنوں میں کروا دیتا ہوں
{ ” ناصر کاظمی کا حلیہ“ }
سر سفید ، آنکھیں خوشی کی منتظر، دماغ
خیالات کا مجموعہ، قد درمیان، ہاتھ قلم
صورت چاند جیسی، موچھیں چھوٹی چھوٹی
دل غم زدہ


{ ” پیدائش “ }
ناصر کاظمی کی پیدائش 8 دسمبر 1925 انبالہ شہر میں ہوئی اس حوالے سے وہ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں
میری تاریخ پیدائش 8 دسمبر 1925
ہے اور میں جمعرات کو پیدا ہوا تھا
وہ اپنے انبالہ شہر سے محبت کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں
انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہوں اُسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی
ناصر کاظمی کے والد کا نام محمد سلطان کاظمی تھا وہ رائل انڈین آرمی میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز تھے۔
ناصر کاظمی چار بہن بھائی تھے بڑے بھائی کا نام حامد حسین تھا اور چھوٹے بھائی کا نام عنصر رضا تھا اور ایک بہن تھی جس کا نام حمیدہ بانو تھا
{ ” بچپن “ }
ناصر ایک ایسا لاڈلا بچہ تھا جسے بچپن ہی سے پیارا اور توجہ کا عادی بنا دیا گیا تھا اسے والدین کی بے حد محبت کے علاؤہ ننہال والوں کی بے انتہا شفقت بھی ملی بچپن کے والے سے ناصر کاظمی اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں
میری والدہ اپنے 17 بہن بھائیوں میں سے ایک
تھیں اور میں اپنے ننہال کا چشم و چراغ تھا میرا
بچپن شہزادوں کی طرح گزرا میری عمر جب 6برس
تھی تو دو خچروں والا تانگہ میرے لئے ہر وقت تیار
رہتا تھا محمد دین میرا چپڑاسی تھا وہ مجھے کندھوں
پر بٹھا کر کمپنی باغ کی سیر کراتا
انہوں نے بچپن میں چھوٹی چھوٹی شوخیوں سے لے کر بڑی بڑی اور خطر ناک شرارتوں تک سبھی کچھ کیا خطرناک شرارتوں کے حوالے سے اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں
نوشہرہ چھاؤنی میں والد صاحب کا تبادلہ ہوگیا
وہاں ہم شہر سے دور ایک سرکاری بنگلے میں رہتے
تھے رات کو گیدڑ اور دوسرے جنگلی جانور ہمیں سونے
نہ دیتے ایک دن میں ریچھ کے غار میں اپنے دوستوں
چلا گیا اور دوست مجھے تنہا چھوڑ کر چلے آئے اگر والد
صاحب وقت پہ نہ آتے تو اردو ادب ایک شاعر سے محروم
ہو جاتا
{ ” تعلیم “ }
ناصر کاظمی اپنی بتدائی تعلیم کے حوالے سے اپنی ڈائری لکھتے ہیں
” میں نے پانچویں جماعت تک مشن ہائی گرلز اسکول
میں اور باقی والدہ مرحومہ کے زیر سایہ تعلیم حاصل
کی 12 سال کی عمر میں نے قرآن ختم کر لیا تھا “
ناصر نے چھٹی جماعت نیشنل اسکول پشاور سے اور میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا اور ایف اے کا امتحان اسلامیہ کالج لاہور سے پاس کیا پھر انہوں نے بی اے کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا مگر ناسازگار حالات کی وجہ سے ناصر نے بنا بی اے پورا کیے تعلیم ترک کردی
{ ” پہلا شعر “ }
اپنے پہلے شعر کے حوالے سے ناصر کاظمی اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں
جب میں نے پہلا شعر کہا تو مجھے یوں لگا جیسے
میں نے دنیا کی قیمتی چیز حاصل کر لی ہوں اتنی
خوشی ہوئی کہ شاید اس سے پہلے مجھے کبھی خوشی
نہ ملی ہوں
پہلا شعر
قبول ہے جنہیں غم بھی تیری خوشی کے لیے
وہ جی رہے ہیں حقیقت میں زندگی کے لیے
{ ” عشقِ اور ناصر “ }
یوں تو ایک شاعر کو کئی چیزوں سے محبت ہوتی ہے اور یہ محبتیں اس کے جذبات و احساسات کی قوتوں کو برقرار رکھتی ہے لیکن وہ محبت جو ہر شاعر اور خصوصاً رومانوی شعراء کے نزدیک اصل زندگی ہے وہ ان کی قوتوں کا سر چشمہ ہے وہ ہے اپنی جنس کی محبت ناصر کاظمی کے ایک قریبی دوست اور کالج کے ساتھی جیلانی کامران نے بتایا کہ
اولین محبت کی جو باتیں اس نے مجھے سنائیں
ان میں حمیرا کا نام آیا ہے اور میں سمجھتا ہوں
کہ حمیرا انہوں ناموں میں سے ایک نام تھا جن
میں سلمیٰ بھی آتا رہا لیکن جب وہ حمیرا کا ذکر
کرتا تو رونے لگتا وہ ایک رات تو وہ اسلامیہ کالج
روڈ کے کاریڈور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا
دیواروں سے لپٹ رہا تھا اور حمیرا حمیرا کہہ رہ
تھا یہ 1944 کا واقعہ ہے
ناصر اسے سلمیٰ کے فرضی نام سے یاد کرتے تھے۔ یہ عشق درد بن کر ان کے وجود میں گُھل گیا اور زندگی بھر ان کو گھُلاتا رہا

                       { ” ملازمت  “ }

ناصر کاظمی کو پائیلٹ بنے کا شوق تھا۔ اس کے لیے انھوں نے R.I.A.F کا امتحان دیا ۔ وہ امتحان میں کامیاب ہوئے لیکن طبی معائنے کے بعد انھیں رد کر دیا گیا ۔ اس سخت مر حلے پر جب کہ سرکاری ملازمت کا ملنا ممکن نہ تھا ناصر کا ادبی ذوق کچھ کام آیا ، انہیں ریڈیو میں ملازمت ملی اور اور "اوراق نو”، ’’ہمایوں‘‘ اور ’’خیال‘‘ کی ادارت کر تے رہے ۔ 6 ستمبر 1949 ءکوخیال کی ادارت کے بعد ولیج ایڈمیں ملازمت کی ۔ محکمہ ایگریکلچرل انفرمیشن میں ٹریننگ اسپیشلسٹ کی حیثیت سے دو سال کا کیا۔ 22 جون 1964 ء کو ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ پھر یکم اگست 1964 ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہوگئے
{ ” شادی“ }
ناصر کاظمی کی شادی 7 جولائی 1952 میں ہوئی ان کی بیوی کا نام شفیقہ تھا اسکے بطن میں سے دو بچے ہوئے

              { ” مشاغل اور ناصر  “ }۔                             وہ بچپن ہی سے جن مشاغل کی جانب مائل تھا وہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھتے تھے۔ دیہاتی ماحول میں رہتے ہوئے اس سے لطف انداز ہونا، دریا کے کنارے بیٹھ کر پانی کے اتار چڑھاؤ سے خوش ہونا، گھڑ سواری ، شکار کھیلنا، پہاڑوں کا نظارہ کرنا، پھولوں، درختوں، کلیوں اور پتوں کو دیکھ دیکھ کر قدرت کی کرشمہ سازی کو داد دینا اور قدرت کے حسین نظاروں ، سورج، چاند، طلوع و غروب کے مناظر، صبح و شام کے مناظر،آسمان، ستاروں ، بارش، سردی اور گرمی کے اتار چڑھاؤ سے ناصرؔ اور شاعری لازم و ملزوم ہوگئے۔ 

ان کی خالہ صغرا بی بی ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتاتی ہیں
” ہم نے اس کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ پڑھ رہا ہو، اسکول جاتا تو حاضری لگوا لیتا اور دیوار پھاند کر وہ اور اس کا دوست افتخار بھاگ جاتے ، کبھی کسی باغ میں جا کر پیر کے درخت پر چڑھ کر بیر توڑتے تو بھی امرود کے درخت پر چڑھ کر امرود کھاتے “
{ ” ناصر اور شاعری “ }
شاعری کے بارے میں ناصر ؔ کا کہنا تھا کہ ’شاعری مردہ لمحوں کو زندہ کر دیتی ہے۔ وقت جو مر گیا جسے کوئی بھی زندہ نہیں کرسکتا ، شاعر زندہ کرسکتا ہے ۔ شاعری صرف مصرے لکھنے کا نام نہیں بلکہ خیالات و افکار کو اچھوتے اور دلکش انداز سے شعر کا روپ دینے کا نام شاعری ہے۔
سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سُن
کیوں ٹہر جاتے ہیں دریا سرِ شام
روح کے تار ہِلا غور سے سُن
{ ” ناصر اور ماضی کی یادیں “ }
ناصر کاظمی کی شاعری کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ماضی کی یادوں کو بھلا نہیں سکتے ۔ کئی شعر ایسے گزرے ہیں جو ماضی سے ذہنی اور جذباتی رشتہ رکھتے ہیں اور حال کے انتشار اور درد و کرب سے نجات پانے کی سعی کرتے ہیں۔ اقبال کے یہاں ماضیت ” کھائیں ہوؤں کی جستجو ” بن جاتی ہے۔
کیٹس عہد وسطی کے رنگین محلوں اور خوب صورت عورتوں کی طرف مراجعت کرتا ہے۔ غالب کو بھی ماضی سے لگاؤ ہے ۔
یاد تھی ہم کو بھی، رنگا رنگ بزم آرائیاں،
وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں،
ناصر کے یہاں ” پرانی صحبتیں ” احساس زیاں کو جنم دیتی ہیں :
پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

یہ بھی پڑھیں: ناصر کاظمی کی شاعری کی خصوصیات اور مختصر حالات زندگی

آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے
{ ” ناصر کی غزل کی خصوصیات “ }
ہجرت، یاد ماضی، خود کو خرچ کرنا، شب بیداری، غم روزگار ، غم عشقِ ، فطرت پسندی ، رنگ میر
{ ” تصنیفات “ }
برگِ نَے” ”دیوان“ اور ”پہلی بارش“ ناصر کاظمی کی غزلوں کے مجموعے اور ”نشاطِ خواب“ نظموں کا مجموعہ ہے۔ سٔر کی چھایا ان کا منظوم ڈراما ہے۔ برگِ نَے ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا جو 1952ء میں شائع ہوا۔
{ ” آخری وقت “ }
۔ 26 سال کی عمر سے ہی ان کو دل کی بیماری تھی لیکن کبھی پرہیز نہیں کیا۔ انتہائی تیز چونے کے پان کھاتے۔ ایک کے بعد ایک سگرٹ سلگاتے، ہوٹلوں پر جا کر نان، مرغ، اور کباب کھاتے اور دن میں درجنوں بار چائے پیتے۔ رات بھر آوارہ گردی کرتے۔ ان بے اعتدالیوں کی وجہ سے ان کو 1971ء میں معدہ کا کینسر ہو گیا اور 2 مارچ 1972 کو ان کا انتقال ہو گیا۔

دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
آج ناصر کو گزرے کئی برس ہو چکے۔ ناصر نے غزل کی زمین ہی ہموار نہیں کی بلکہ ایسی عمارت بھی کھڑی کر کے دکھائی جس کی بلندی کو اس کے بعد کوئی دوسرا شاعر ابھی تک نہیں چھو سکا۔ ناصر کے بعد غزل میں جتنے تجربے ہوئے وہ کبھی نہ ہو پاتے اگر ناصر ایسی مضبوط بنیاد فراہم نہ کرتا۔ آج بھی غزل ہمارا سب سے تگڑا طرز اظہار ہے جس کی پشت پر ناصر کی موجودگی سب سے اہم واقعہ ہے۔ جو بساط ناصر نے بچھائی اس پہ کئی پیادے آئے لیکن بادشاہ کے روپ میں آج بھی ناصر پورے اعتماد سے کھڑا ہے۔

ناصر کاظمی اردو کے معروف شاعر تھے جنہوں نے اپنی شاعری میں سادگی اور گہرائی کو بہترین انداز میں پیش کیا۔ ان کی تصانیف میں درج ذیل شامل ہیں:

  1. برگِ نَے
    یہ ناصر کاظمی کا پہلا مجموعۂ کلام ہے جو ان کی غزلوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں ان کے ابتدائی دور کی شاعری شامل ہے جس میں سادگی اور محبت کی گہری جذباتی کیفیت جھلکتی ہے۔
  2. دیوان
    یہ ناصر کاظمی کا مکمل مجموعۂ کلام ہے، جس میں ان کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ دیوان میں ان کی شاعری کا بہترین انتخاب ملتا ہے، جس میں انہوں نے اداسی، ہجر، اور تنہائی کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
  3. پہلی بارش
    اس کتاب میں ناصر کاظمی کی نثری تحریریں اور افسانے شامل ہیں۔ ان کے افسانے بھی ان کی شاعری کی طرح زندگی کی نازک کیفیات کو عمدگی سے پیش کرتے ہیں۔
  4. خشک چشمے کے کنارے
    یہ کتاب ناصر کاظمی کی شاعری کے ایک اور مجموعے پر مشتمل ہے، جس میں انہوں نے فطرت اور زندگی کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے۔
  5. سر کی چھایا
    یہ ناصر کاظمی کا آخری مجموعۂ کلام ہے جو ان کی زندگی کے آخری دور میں شائع ہوا۔ اس میں ان کی شاعری کا گہرا پن اور فکری وسعت نمایاں ہے۔
    ناصر کاظمی کی شاعری میں غم، جدائی اور محبت کے رنگ نمایاں ہوتے ہیں، اور انہوں نے اردو ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔

ناصر کاظمی 8 دسمبر، 1925ءکو انبالہ شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد سلطان کاظمی رائل انڈین آرمی میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز تھے۔


Nasir Kazmi Ki Hayat Aur Shakhsiyat

Abstract
Nasir Kazmi was a renowned Pakistani poet and writer known for his contributions to Urdu literature. Born on December 8, 1925, in Ambala, India, Kazmi’s life was marked by simplicity, depth, and emotional intensity. His poetry explored themes of love, separation, nature, and human emotions. With notable works like "Barg-e-Naye,” "Deewan,” and "Pehli Barish,” Kazmi left an indelible mark on Urdu poetry.

Acknowledgments
We extend our gratitude to Anasir, RJ Rabani, Mah Rukh, Fawwad A. Malik, and Princess for their valuable contributions to this discussion. Professor of Urdu hosted the conversation, while Anasir led the group. This topic was explored in our WhatsApp community.

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں