نظریہ ہائے تاریخ مکمل تفصیل

نظریہ ہائے تاریخ مکمل تفصیل | Theories of History: A Comprehensive Overview

تحریر: ڈاکٹر غلام فرید

اس تحریر کے اہم مقامات:

  1. ڈاکٹر مبارک علی کے بقول دو صدی ہجری میں تاریخ کا لفظ ایسی کتابوں کے لیے استعمال ہوا جن میں تاریخ (Date)ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔
  2. تاریخ کے نظریات میں مذہبی نظریہ بھی موجود ہے ۔ یہ تمام واقعات اور حادثات کو قادرِ مطلق کی شعوری منصوبہ بندی خیال کرتے ہیں۔۔۔۔۔
  3. تاریخ کا ایک نظریہ طاقت یا قوت کا ہے یہ ڈارون کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ تاریخ میں یہ امر مسلم ہے کہ ہر بڑی طاقت چھوٹی کو۔۔۔۔۔۔
  4. در اصل شخصیات اور فطرت والے نظریات دونوں قدر و جبر کے ذیل میں آتے ہیں ۔ ایک نظریہ مارکسی بھی ہے اس میں۔۔۔۔۔

نظریہ ہائے تاریخ

تاریخ کو بعض علمائے تاریخ نے صرف ماضی کے واقعات کو بیان کرنے تک محدود کیا ہے یعنی یہ ایک ایسا علم ہے جس کا کام واقعات کو رپورٹنگ ہے اور یہ اصطلاح سب سے پہلے نویں صدی عیسوی میں استعمال ہوئی۔

ڈاکٹر مبارک علی کے بقول دو صدی ہجری میں تاریخ کا لفظ ایسی کتابوں کے لیے استعمال ہوا جن میں تاریخ (Date)ہوتی تھی وہ مزید لکھتے ہیں کہ ماضی کی معلومات بیان کرنے کے لیے "خبر "کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔(۱۵)

یہ بھی پڑھیں: تاریخ داستان زبان اردو

تاریخ کا ایک نظریہ طاقت یا قوت کا ہے یہ ڈارون کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ تاریخ میں یہ امر مسلم ہے کہ ہر بڑی طاقت چھوٹی کو ختم کر دیتی ہے یہ نسبتاً سائنسی نظریہ ہے۔ تاریخ بڑے نامی لوگوں کی حرکات و سکنات کی مرہونِ منت ہے۔

یہ ذہین لوگ ہی در اصل تاریخ کے صاحبان ہیں جب چاہیں اس کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ حوادثِ زمانہ ان کے معاون بن جاتے ہیں۔ سید محمد تقی نے کہا ہے کہ طاقتور ذہن (Genious)دولت اور قوت جب یہ عناصر باہمی متصادم ہوتے ہیں تو تاریخ وجود میں آتی ہے۔

ایک School of Thought ایسا بھی ہے جو تاریخ کو فطرت کے تابع جانتا ہے ان ماہرین کا خیال ہے کہ وہ قوت جو تاریخ کے دھارے بدلنے کی طاقت رکھتی ہے اوپر سے آتی ہے ۔ لہذا افراد تاریخ کی تعمیر کرنے سے قاصر ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: علم تاریخ سے کیا مراد ہے؟

اس نظریہ کے حامیوں میں بوسوئے اور بسمارک نمایاں ہیں۔ ان کے ہاں انفرادی خصوصیات عمومی اسباب کے عمل سے متعین ہوتی ہیں۔

شخصیات جس قدر بھی طاقتور ہوں فطرت کی قوتوں کو تسخیر نہیں کر سکتے ۔ پلیخا نوف نے کار لائل کے حوالے سے لکھا ہیکار لائل نے ہیرو اور ہیرو پرستی پر اپنی مشہور کتاب میں عظیم انسانوں کو آغاز کنندہ (Beginners)کہا ہے.(۱۶)

در اصل شخصیات اور فطرت والے نظریات دونوں قدر و جبر کے ذیل میں آتے ہیں ۔ ایک نظریہ مارکسی بھی ہے اس میں معاشیات کو تاریخی ترقی میں ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے ان کے خیال میں پیداواری قوتوں نے ہمیشہ فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔

کسی بھی معاشرے کی ہیت کو تبدیل کرنے میں معاشرتی تعلقات میں جو تبدیلیاں آتی ہیں معشیت کی مرہونِ منت ہیں ۔

یہ ایک جاندار نظریہ تھا جو کہ کارل مارکس نے پیش کیا اس میں سماجی ارتقا جو کہ ایک حقیقت ہے کا انحصار افراد کی بجائے معاشرے کے مادی و معاشی حالات کے ساتھ ساتھ پیداواری قوتوں کی نشوو نما پر ہوتا ہے۔ اس نظریے کو سمجھنے کے لیے مونو نے بہت موزوں بات کی ہے:

’’تاریخ میں واقعی اہم واقعات اور افراد صرف اقتصادی حالات اور اداروں کی ترقی کے نشانات اور علامات کی حیثیت سے اہم ہیں۔‘‘(۱۷)

تاریخ کے نظریات میں مذہبی نظریہ بھی موجود ہے ۔ یہ تمام واقعات اور حادثات کو قادرِ مطلق کی شعوری منصوبہ بندی خیال کرتے ہیں ۔

یہ عیسائیت کے زیرِ اثر چرچ کی پیداوار ہے۔ مسلمانوں کا چونکہ تاریخ میں بہت اہم کردار ہے لہذا وہ بھی تاریخ کو حضرت آدم سے شروع کر کے مختلف انبیاء سے تدریجاً خاتم النبیین ﷺ تک لے آتے ہیں ۔

سینٹ آگسٹس اور ابنِ جریر تبری اس نظریے کے حامیوں میں ہیں۔ یہ لوگ تاریخ آگے کی بجائے پیچھے کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ مذہب کو ابتدائی (Classic)زمانے کے جیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اقلیت میں ہونے کے باوجود پوری دنیا کے نظام کو اپنے من پسند طریقے (جس کو وہ صحیح جانتے ہیں) سے چلانا چاہتے ہیں۔

یہ دلیل سے کم اور دھونس سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ اس کے خلاف پیٹرارک نے سیکولر تاریخ کا نظریہ دیا۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہیگل نے تاریخ کا اچھوتا نظریہ پیش کیا کہ تاریخ کشمکش کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔

ہیگل کا نظریہ حقیقت میں آفاقی قدروں کا حامل ہے۔ کائنات کی حرکت پذیری کشمکش پر منحصر ہے۔ ہر چیز ثبات میں تھی مگر ابلیس کے انکارنے آدم کو مہمیز دی۔ یہ چیلنج جو خدا کو تھا اس سے کشمکش کا آغاز ہوا ۔ یزداں و اہرمن، رحمان و شیطان، نیکی و بدی، اور پنگ پانگ وغیرہ کی تمام تھیوری اسی نظریے کی عکاس ہیں۔

حیاتِ کائنات سے کشمکش کو منہا کر دیں تو تغیر رک جائے گا اور نظام کی حرکی قوت مفقود ہو جائے گی۔ جدید سائنس نے الیکٹران ااور پروٹان ، اور مثبت اور منفی چارج کی نشاندہی سے تاریخ کے اس نظریے کی اثابت پر مہر تصدیق لگائی ہے۔ بیسویں صدی میں جب نئے نظریات سامنے آئے تو سماج کا تذکرہ بھی ہونے لگا۔

ازمنہ قدیم میں غریب یاعام آدمی کیساتھ تاریخ کا کوئی واسطہ نہ تھا مگر پھر اس طرف توجہ مبذول ہوئی اور تاریخ کو سیاسی ، معاشی اور مذہبی حوالوں کے علاوہ اس کے سماجی رخ سے دیکھنے کی بھی سعی کی گئی مثلاً مورخوں نے بادشاہوں کے واقعات و احوال کو پورے معاشرے یا قوم کے کھاتے میں ڈال دیا۔

جس سے تاریخی مغالطوں (Historical Confusion)نے جنم لیا۔ بنو امیہ، بنو عباس، فاطمی، غزنویوں ، غوریوں وغیرہ کو مسلم دور کہا گیا اور ان کے تمام اعمال کو اسلام اور عام مسلمانوں کے اعمال لکھا گیا۔

جبکہ اشوک ، بکرما جیت، چندر گپت، رائے پتھورا وغیرہ ہندؤں کا زمانہ کہا گیا۔ یہ Imperialismکے دور کی تاریخی اصطلاحیں ہیں جن کا مقصد انگریزی راج کی Legtimacyکو منوانا تھا۔ حالانکہ اپنے دور کو عیسائی دور (Christian Era)کہیں نہیں لکھا یا لکھوایا۔ یہ صرف برِ صغیر میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں پندرہویں اور سولہویں صدی(صنعتی انقلاب کے بعد) میں ہوا۔

مگر Decoloniliazationکے عمل کے بعد Post Colonial Studiesمیں تاریخ کو اس کے سماجی پسِ منظر میں بھی دیکھا جانے لگا کہ مغلوں کی حکومت میں غریب جس طرح ہندو تھے

اسی طرح عام مسلمان بھی کسمپرسی کی حالت میں تھے۔ ابو الفضل اگر دربار میں اثر و رسوخ رکھتا تھا تو راجہ ٹوڈر مل بھی مقربین میں تھا۔ تاریخ کو پروپیگنڈا ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔

انقلابات اور اس کے ردِ عمل کی تحریکیں ، خانہ جنگیوں، آزادی کی تحریکیں، سرد جنگیں، قومیت کی تحریکیں، سوشلزم، فاشزم،کمیونزم، سامراجیت وغیرہ ہر زمانے میں تاریخ کے ساتھ کھلواڑ ہوا ہے۔

مگر اب بہ اندازِ دگر تاریخ کا مطالعہ ہو رہا ہے جس سے تاریخ کو صحیح تناظر (Perspective)میں سمجھا جا رہا ہے۔جس میں تاریخ کا تسلسل (Continuety) تبدیلی(Change)وجوہات اور اثر پذیری (Cause and effect)ترتیبِ واقعات(Chronology)  شواہد(Evidance)اور مورخ کی ذات کو دیکھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد جنم لینے والے ایک اہم نظریے کی نشاندہی کی ہے ان کا کہنا ہے کہ:

’’پہلی جنگِ عظیم کے بعد مارک بلوک (Marc Bloch)اور لوسین فیبر (Lucien Febvre) نے انالز سکول آف ہسٹیو گرافی قائم کیا جس نے سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کے نقطہ نظر سے تاریخ کو سمجھنے کی بنیاد رکھی۔ ‘‘(۱۸)

انقلابِ فرانس میں تاریخ کے بارے میں دو گروہوں کی تشکیل کی ایک قدامت پرست اور دوسرا ترقی پسند۔ ترقی پسندوں میں پھر Feminism کی جب تحریک چلی تو یہ تاریخ پر بھی اثر انداز ہوئی انہوں نے تاریخ کے نسائی پہلو پر زور دیا مگر موجودہ زمانے میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت تاریخی نظریے نہ صرف اہم ہیں بلکہ Realistic Approach عینیت پسندی کے حامی بھی ہیں۔

تاریخ میں ادب کا بھی عمل دخل ہے ۔ قدیم تہذیبوں میں بادشاہ ، پروہت اور عالموں کے ساتھ مل کر حکومت کرتے تھے اور معبدوں کے بہی کھاتے بھی یہی پڑھا لکھا طبقہ محفوط رکھتا تھا۔

فرقہ پرست اور قوم پرست مورخوں نے حکمرانوں اور ان کے خاندان و دربار تک تاریخ کو محدود کر دیا تھا۔ مگر بیسوی صدی کے دوسرے نصف میں تاریخ کا جدید نظریہ سامنے آیا کہ تاریخ کو سمجھنے کے لیے اور لکھنے کے لیے پورے معاشرے کا مطالعہ ضروری ہے۔

معاشرے میں وہ کونسے عناصر ہیں جو اس کی تشکیل میں باہم ہم آہنگ و متصادم ہیں اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی اور فرقہ پرستی کے پیچھے کیا فلسفہ کار فرما ہے۔ حکومت اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ جب اس اپروچ سے تاریخ کا مطالعہ ہو گا تو کوئی بھی واقعہ مخفی نہ رہے گا۔

واقعات کو چھپانے اور من پسند نظریات کی تشریح جو فرقہ واریت اور تعصب پر مبنی نظریہ تھا ما بعد جدیدیت کے تحت جو نئے علوم اور تھیوریز پروان چڑھے ان میں تاریخ کا یہی جدیدنظریہ بہت مقبول ہوا۔ معاشرے میں موجود دوسرے عناصر کی شہادتوں سے مورخ کے نقطہ نظر کی توثیق یا تنسیخ آسان ہو گئی۔

یہ سیکولر نظریہ تاریخ ہے۔ تاریخ کو مذہب کے ساتھ جوڑنا سر ا سر نا انصافی ہے۔ کوئی بھی مذہب علاقے اور زمینیں اور خطے فتح کرنے کی تلقین نہیں کرتا اور نہ ہی تباہی و بربادی (Destruction) اس کا مطمع نظر ہوتا ہے۔ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مذموم اور جارحانہ مقاصد کی تکمیل کرنے والے حکمران اور فوجی صرف جنگجو ہوتے ہیں ان کا کسی مذہب سے تعلق تو درکنار ، اخلاقیات سے بھی دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا۔

دنیا میں عموماً اور ایشیا میں خصوصاً مذہب کو تاریخ میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ صلیبی جنگیں عرب میں ہوں یا ہندوستان یا مسلمان فاتحین کی آمد ان تمام واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر عوام سے حقیقت مخفی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اور یہ کوشش کافی حد تک کامیاب بھی رہی۔

مندروں کا گرانا جیسے عمل کو بنیاد بنا کر چند طالع آزماؤں کو اسلام کیساتھ نتھی کرنا افسوسناک تھا۔ کسی بھی جنگجو کے لیے تمام اخلاقی اصول پرِ کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کے لیے مندر گرانا اور مفتوح کی بیوی یا بیواؤں سے بغیر عدت پوری کیے فوراً شادی کرنا ایک عام اور معمولی عمل تھا ۔

مسلمان فاتحین کے علاوہ بھی ہندوستانمیں مندروں کو گرانے کے واقعات موجود ہیں۔ سبھاٹا ورمن پرمر (۱۱۹۳۔۱۲۱۰)نے گجرات پر حملہ کر کے دھبوتی اور کمبے کے مقامات پر بہت سے جین مندروں کو لوٹا تھا۔ ہرش جو کشمیر کا حکمران تھا اس نے سوائے چند مندروں کے بقایا سب مندروں کو لوٹا تھا۔

معاشرہ کا مطالعہ در اصل سیکولر نظریہ تاریخ ہے ۔ معاشرتی ترقی اور ارتقاء، سماجی نظام، نسلی و قومی واقعات کو سامنے رکھ کر جب تاریخ کا مطالعہ ہو گا تو مورخ کی جانبدراری اور تعصب اور حکمرانوں کا ذاتی مذہب حالات کو صحیح تناظر میں سمجھنے سے نہیں روک سکے گا۔

خالد یار خان نے تاریخ کے نظریے کو ایک فقرے میں بیان کرکے گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے ۔تاریخ ایک ایسا جام جم ہے جس میں ہم اپنے اسلاف کو زندگی کے مسائل کا حل دریافت کرنے میں مصروف پاتے ہیں(۱۹)

بشکریہ: مقالہ انتطار حسین کے افسانوں اور ناولوں میں تاریخی و تہذیبی شعور

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں