ناصر کاظمی کی غزل میں فطری مناظر اور ہجرت کا دکھ
موضوعات کی فہرست
ناصر کاظمی کی غزل میں فطری مناظر کی عکاسی
رقص کرتی ہوئی شبنم کی پری
لے کے پھر آئی ہے نذرانہ گل
ناصر بچپن سے ہی فطرت کے حسن اور اس کے حسین نظاروں کی جانب مائل ہو گئے تھے۔ والد صاحب کے تبادلوں کی وجہ سے انھوں نے مختلف مقامات دیکھے اور فطرت کی دل کشی نے انھیں اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ وہ بچپن سے ہی سے پرندوں، درختوں اور پھولوں سے محبت کرتے تھے۔ وہ شاعر فطرت تو نہیں ہیں لیکن ان کے کلام کا جائزہ لینے پر ہم پاتے ہیں کہ وہ فطرت کے حسن سے حد درجہ متاثر ہیں۔
حق تو ہے کہ ان کی شاعری کے آغاز کے پیچھے فطرت کا اہم ہاتھ ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں:
"شاعری اصل میں میں نے شروع اس لیے کی کہ یوں لگتا تھا مجھے کہ جو جو خوبصورت چیزیں میں فطرت میں دیکھتا ہوں وہ میرے بس میں نہیں آتیں اور نکل جاتی ہیں اور چلی جاتی ہیں کچھ لمحے، کچھ وقت جو مر جاتا ہے، وہ زندہ دوبارہ نہیں ہو سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاعری میں ہو سکتا ہے۔ اس لیے شاعری شروع کی "
ناصر نے اپنی شاعری میں فطرت کے حسین نظاروں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کی یہ کوشش کافی
حد تک کامیاب رہتی ہے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ فطرت کے حسن اور دل کشی کا بیان کرتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک جیتا جاگتا نظارہ پھر جاتا ہے۔ بہت کم شاعر ایسے ہوں گے جن کی شاعری کا آغاز فطرت کے حسین نظاروں کو محفوظ کرنے کے غرض سے ہوا ہو گا۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں
کیا سناتی ہے صبا غور سے سن
ناصر کی شاعری میں ہجرت کا دکھ
ناصر نے ہجرت کو محض ذاتی تجربے کی حیثیت سے نہیں بلکہ اجتماعی تجربے کی حیثیت سے محسوس اور بیان کیا۔ جو مشرقی پنجاب کے اضلاع سے خاک و خون کے ایک وحشت ناک سیلاب سے گزر کر آئی ۔
وہ خود بھی اس مخلوق کا ایک فرد تھا۔ ناصر کے 1947 سے 49 کے اشعار میں ہجرت کے اجتماعی تجربے، بے نشان، بے منزل قافلوں کے سفر اور عام تباہی اور ویرانی کی جتنی اثر انگیز تصویریں نظر آتی ہیں۔
ان کی مثال کہیں اور نہیں ملے گی کم سے کم اس دور کی شاعری میں ناصر کی آواز واقعی اپنے گرد و پیش، زمین و آسمان اور ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کی آواز بن گئی تھی
اس حوالے سے ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلقت کے ہوتے
شہروں میں ہے سناٹا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے کہاں لے گئے قافلے
مسافر بڑی دور جا کر ملے
جہاں کوئی بستی نظر آگئی
وہیں رک گئے اجنبی قافلے
Title in English:
"The Reflection of Natural Scenes and the Pain of Migration in Nasir Kazmi’s Ghazals”
Abstract:
This post explores the poetic works of Nasir Kazmi, focusing on his vivid depiction of nature and the profound emotional impact of migration.
Kazmi’s childhood experiences and encounters with the beauty of nature deeply influenced his poetry, leading him to express these themes through evocative imagery.
Additionally, his portrayal of migration reflects both personal and collective experiences, capturing the anguish faced by those displaced during the tumultuous events of 1947-49.
His verses resonate with the feelings of loss and despair experienced by many, making his voice a significant representation of that era.Special thanks to the members of the WhatsApp community for their participation in this discussion.
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں