اردو میں ناول نگاری کا ارتقاء

اردو میں ناول نگاری کا ارتقاء | The Evolution of Novel Writing in Urdu

اردو میں ناول نگاری

مغرب سے مشرق تک ناول کے سفر میں کم و بیش ۱۲۹ برس کا فاصلہ حائلہے۔ اس بات سے تو قطعاً انکار نہیں کہ اردو میں ناول کی ابتدا انگریزی ادب کے زیر اثر ہوئی۔ اردو میں ناول کا پہلاتجربہ اس وقت سامنے آیا جب ہندوستانی بادشاہی نظام یورپی طاقتوں کے عمل دخل سے ٹوٹ پھوٹ کر سرمایہ دارانہ اور نوآبادیاتی  نظام میں ڈھل رہاتھا۔

اس دور میں یہاں ناول لکھنے کا آغاز ہوا ۔نذیر احمد دہلوی ۱۸۶۹ءپہلے ناول نگار کے طور پر سامنے آئے۔یہ وہ دور تھا جب انگریز ہندوستان معاشرے پر اپنا تسلط قائم کر چکے تھے۔ جبکہ  مسلمان تعلیم و  شعور کے میدان میں  زوال پذیر تھے۔لہذا اس عہد میں ڈپٹی نذیر احمد کا پہلا ناول ”مراۃ العروس“منظر عام پر آیا۔

اردو ناول کا ارتقاء

اردو میں ناول کا آغاز انیسویں صدی میں سرسید تحریک کے زیر اثر ہوا۔ یہ درست ہے کہ سرسید تحریک مغربی تہذیب اور فکری تصورات کی حامل تھی۔مگرجنمحرکات کے زیرِ اثر اردو ناول نگاری کا آغاز ہوا انہی مغربی تہذیب کے اثر سے نہیں مغربی تہذیب کے اثرات  سے معنوں نہیں کیا جا سکتا ۔

اس مشاہدے کا ثبوت ڈپٹی نذیر احمد کے پہلے ناول مراۃ العروس کا دیباچہ ہے۔جس میں انہوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مروجہ نصاب تعلیم مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم کی بنیادی ضروریات کو قطعی پورا نہیں کرتے اس لیے انہوں نے یہ ناول بچوں کی اصلاح کے لیے لکھا ہے ۔

اردو کے زیادہ تر نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ مولوی نذیر احمد   سب سے پہلے ناول نویس ہیں ۔انہوں نے پہلا ناول مراۃ العروس ۱۸۶۹ء میں لکھا ۔

ناول کا پہلا دور آغاز سے ۱۹۰۰ءتک

مولوی نذیر احمد دہلوی

نذیر احمد مولوی کا دور اصلاحی دور ہے۔ ان کے ناول اصلاحی طرز پر مبنی ہیں۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں بچوں اور عورتوں کی تعلیم کے ذریعے مسلم سماج کی اصلاح کی طرف تو جہ دالائی ہے۔ نذیر احمد کی بصیرت اور فنکا کمال یہ ہے

کہ انہوں نے صرف متوسط طبقہ کی زندگی کی کشمکش کی فضا کو ہی پیش نہیں کیا بلکہ ان کے مسائل کو سماجی، سیاسی، مذہبی اور معاشی پس منظر اور پیش  منظر میں دیکھنے سمجھنے اور منطقی و فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے بقول پروفیسر آل احمد سرور

“ ان کے کردار یا تو فرشتے ہوتے ہیں یا پھر شیطان انسان نہیں ہوتے ۔یعنی ان کا ایک کردار عیبوں کا مجموعہ دیتا ہے اور دوسرا خوبیوں کا مرقع۔” (۱۳)

ذیل میں مولوی نذیر احمد کے ناولوں کی فہرست

ناول                    سن اشاعت           موضوع

مراة العروس       ۱۸۶۹ ء        لڑکیوں کی تربیت

بنات النعش          ۱۸۸۲ء                  اخلاقی تعلیم کے لیے

تو بۃ النصوح          ۱۸۸۸ء            اولاد کی تربیت

فسانہ مبتلا            ۱۸۸۵ء              ازدواجی زندگی

ابن الوقت         ۱۸۸۸ء               مرکزی کردار کی پیروی

ایامی                  ۱۸۹۱ء                     عورت ذات سے ناروا سلوک

رویائے صادقہ     ۱۸۹۴ء                   سر سید کے مذہبی افکار کی تشہیر

ادب میں مقام

نذیر احمد کی کردار نگاری کا عیب بہت نمایاں ہے۔ کوئی انسان نہ صرف نیک ہو سکتا ہے اور نہ بد بلکہ بحیثیتِ انسان وہ نیکی اور بدی دونوں کا مجموعہ ہوتاہے۔

بقول  پر و فیسر سید وقار عظیم

“ڈپٹی نذیراحمد کے قصوں کو  منقطور پر ناول کہا گیا ہے ان میں فن کے وہ لوازمات موجود نہیں جن کا مطالبہ جدید ناول سے کیا جا سکتا ہے ۔

پلاٹ اور اس کے مختلف اجزاء ایک اہم موضوع کو پیش کرنے کے لیے ایک موضوع اور پر کشش آغاز  ،الجھن منقطعہ انجام زندگی سے بھرپور کردار ایک واضح نقطۂ نظر کی موجودگی، مقصد اور فن کا باہمی توازن ،موضوع اور بیان میں مکمل  مطابقت مصنف کی شخصیت کا گہرا پرتو اور اس کی فکری و جذباتی صلاحیتوں کا پورا مشاہدہ نذیر احمد کیے قصوں میں سب کچھ نہیں ملتا۔  یہ کہنے میں ذرا تکلف نہیں برتا جاتا کہ یہ قصے ناول نہیں ہیں ۔”(۱۴)

بقول ڈاکٹر احسن فاروقی

ڈاکٹر احسن فاروقی نے ڈپٹی نذیر احمد کے قصوں کو تمثیل افسانے قرار دیا  ہے۔

نذیر احمد نے ادب میں نئی چیز متعارف کرائی اگر چہ نذیر احمد کے فن میں اتفاق نہیں کرتا مگر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان سے قبل اردو ناول میں کوئی نقش تقلید موجود نہ تھا۔ ظاہر ہے جب پہلی دفعہ کوئی نئی چیز کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو اس میں غلطیاں ضرور ہوتی ہیں آجار دو ناول جس ترقی یافتہ شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اس کی  بنیاد ڈپٹی نذیر احمد نے رکھی۔

پنڈت رتن ناتھ سرشار

اردو ناول کے ارتقائی سفر کا دوسرا  نام پنڈت رتن ناتھ سرشار ہے۔ اگر چہ انہوں نے بہت کچھ لکھا مگر ان  کی شہرت عام “فسانہ آزاد “ کے دم سے ہے۔ یہ ناول اودپنج اخبار میں پہلے قسط وار شائع ہوتا رہابعد میں ناول کی صورت میں چھپا۔

سرشار نے اس وقت لکھنا شروع کیا جب ادب اور زندگی کا نقطہ نظر رفتہ رفتہ دھند سے نکل کر صاف نام مقام پر آرہا تھا۔سرسید حالی،شبلی،اورنذیر احمد کی تخلیقات  منظرِ عام پر آچکے تھے ۔ ایک طرف انگریزی ناول نگاروں کا مطالعہ اور دوسری طرف  لکھنو کے ماحول نے انہیں لکھنے پر مجبور کیا۔ جو بعض نقادوں کے خیال کے مطابق داستان اور ناول کے بیچ کی چیز ہو کر رہ گیا ہے۔

بقول قمر  رئیس

ان کا فن ناول کی  بہ نسبت  داستانی اور رومانی سے زیادہ قریب ہے ۔

سرشار پوری طرح لکھنؤ کا مشاہدہ کیا تھا یہی وجہ ہے ان کا ناول  فسانہ آزاد  میں ایک خاص لکھنؤ کا عہد  نمایاں  ہے ۔ مثال کے طور پر سرشار کی آوارا گردی سے فائدہ اٹھا کر لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت  کی عکاسی کے لیے زیادہ سے زیادہ  گنجائش نکال لیتے ہیں اس کے ساتھ ہم مختلف محفلوں   جلسوں درباروں دیوان خانوں  کوٹھوں اور سراؤں میں جاتے ہیں ۔ کہیں ہم اسے دوسروں کا مذاق اڑاتے دیکھتے ہیں اور کہیں وہ دوسروں کے تمسخر کا نشانہ  بناتا ہے۔

کرداروں کے برمار کی وجہ سے ایک نقاد نے فسانہ آزاد کو انسانوں کا جنگل قرار دیا ۔خوجی  اس ناول کا ایک زندہ و جاوید کردار ہے ۔ سرشار کی عظمت یہی ہے کہ انہوں نے آنے والے ناول نگاروں کے لیے ایک صحت مند روایت قائم کی ۔ اور ناول میں زندگی کی وسعتوں کو سمیٹنے کے امکانات کا تصور دیا۔

دیگر ناول

سہر ، کہسار،  جام  سرشار کڑم دھڑم ۔

عبدالحلیم شرر

عبدالحلیم شرر ناول کے اس سفر کے تیسرے رہنما ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے تاریخ کو ناول کا موضوع بنا یا ،تاریخ اور روایت کے حسین امتزاج سے   اہم واقعات کو ادب میں محفوظ کرنے کا آغاز کیا۔ تار یخی ناولوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے معاشرتی موضوعا ت پر بھی قلم اٹھایا ۔

شرر نے غدر کے  تقریباً  تیس برس بعد تاریخی ناول اس مقصد کے تحت لکھے  کہ مسلمانوں  کے دل و دماغ  پرچھائی افسردگی کم ہو سکے وہ  ایک نئے  جذبے اور جوش و ولولے  کے تخت دوبارہ اٹھے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے ۔  ان تاریخی ناولوں کا ایک اور اہم مقصد  قوم کو دلچسپ ادب مہیا کرنا تھا ۔ جس کی  عوام میں  پزیرائی ہو ۔

مولانا عبد الحلیم شرر کے ناول میں ایک داستانوی رنگ جھلکتا ہے لیکن اس کے باوجود شرر نے ایک تار یخی ناول لکھ کر نہ صرف ناول کی ایک روایت قائم کی بلکہ ان کی وجہ  سے افسانوی ادب کا دامن ماضی کی  تاریخی  مواد سے پر ہو جاتا ہے اور مغربی صنف ادب کو مشرقی مزاج کے سانچوں میں  ڈال کر ایک نئی راہ نکالتی ہیں ۔  اس اعتبار سے  ان کی اہمیت ہر دور میں رہے گی ۔

مرزا محمد ہادی رسوا

مرزا محمد ہادی رسوا اردوزبان وادب کے ایک بہترین شاعر اور نثر نگار تھے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں ۔ مرزا ہادی رسوا سے پہلے بھی ناول نگاری پر کام ہور ہاتھا لیکن ان کا ناول امراؤ جان ادا  اردو کا پہلا باقاعدہ ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔

یہ ناول ۱۸۹۹ء میں منظرِ عام پر آیا اس کی مقبولیت کی   وجہ یہ ہے کہ امراؤ جان  ادا  ناول کے فنی معیار پر ہر طرح سے پورا اترتا ہے۔ فسانہ آزاد کی طرح امراؤ جان ادا میں بھی لکھنو کی معاشرتی تصویر اجاگر کی گئی ہے لیکن مرزا ہادی اس میں زیاد ہ کامیاب دکھائی دیتے  ہیں وہ لکھنو کی معاشر ت بیان کرتے ہوئے ناول کے فنی دائرہ کار سے خارج نہیں ہوتے۔

"انسانی زندگی کی تہذیب، معاشرت،سیاسی  معیشت ، اخلاقی اور تاریخ کے پوشیدہ حقائق کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ مرزا ہادی رسوانے بیشتر ناولوں میں عورتوں کے معاملات،  مسائل اور ان کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ اور ان کے پست سماجی اقدار کو اجاگر کرنے کی کو شش کی ہے۔”(۱۱)

بیسویں اور انیسویں صدی کے ربع اول میں جن ناول نگاروں نے اس صنف کو ترقی دی ان میں مرزا محمد سعید، پریم چند، نیاز فتح پوری، علی عباس حسینی، فیاض علی، ظفر عمر، محمد مہدی، تسکین اور آغا دہلوی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

اس دور میں مقصدی ناول کے ساتھ ساتھ تفریحی ناول بھی لکھے گئے۔ مقصدی ناولوں میں مابعد طبیعاتی مسائل ، روحانی مزاج اور معاشرتی مسائل کو اہمیت دی گئی۔ ان کے کردار حقیقی زندگی کو مس کرتے اور واقعات و حادثات پر عمل اور رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔

تفریحی ناولوں کی بنیاد عشق و محبت کے واقعات پر رکھی گئی اور اس کے لیے مثالی کردار تخلیق کیے گئے۔ ضمنی طور پر ان ناولوں میں مقامی تہذیب کی عکاسی بھی کی گئی۔ ان ناولوں پرحلقہ اثروسیع تھا۔

پریم چند

پریم چند کی  ناول نگاری مختصر ہے۔ یعنی انہوں نے ناول کم اور افسانے زیادہ لکھے ہیں لیکن ان کے ناول بھی اصلاحی رجحانات کے آئینہ دار ہے۔ میدان عمل ، گئودان، بیوہ، بازار حسن، چوگان ہستی، گوشہ عافیت اور جلوہ ایثار وغیرہ ناولوں میں انہوں نے ایک ایسے انسان کو موضوع بنایا ہے

جس کے خمیر میں نیکی موجود ہے لیکن اس نے بدی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ایک مصلح کی حیثیت سے انہیں معاشرتی مصائب کا پورا شعور تھا اور وہ نذیر احمد کے نقش پر قدم رکھ کر انسانی معاشرے کی اصلاح کے خواہ تھے۔ ان کے ناولوں میں سیاسی آگاہی کا شعور موجود ہے۔ سیاست کی تباہ کاری کارد عمل گوشہ عافیت اور میدان عمل میں شامل ہے۔

غلامی کے خلاف گئوادان میں انہوں نے رد عمل کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ پریم چند زندگی کے روشن پہلوؤں کو مستقبل میں تلاش کرتے ہیں ۔ پریم چند کے ناول اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ پریم چند نے معاشرے کے غریب طبقے کے مسائل کی اپنی تحریر کے ذریعے نشاندہی کی ہے۔ پریم چند اپنی ذاتی زندگی غربت میں دیکھنے کے باعث نچلے طبقے کے مسائل سمجھتے تھے۔

جن کا سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے استحصال ہو رہا تھا۔ پریم چند کے زمانے میں ہی ترقی پسند تحریک کا آغاز ہو گیا تھا۔ انہوں نے جب ادبی سفر شروع کیا تو اس دور کا ہندوستان اصلاحی اور انقلابی سر گرمیوں میں سر گرداں ہونے کے باوجو د متعدد طرح کے تضادات کا شکار تھا۔ اس لیے ان کے ناولوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے

کہ انہوں نے ظلم کرنے والوں کے بجائے مظلوموں کا ساتھ دیا۔ استحصال کرنے والوں کے بجائے استحصال کئے جانے والوں اور حاکم کے بجائے محکوم کے ساتھ اور خاص کر زمیںدار اور کسان کی لڑائی میں پریم چند کسانوں کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں۔ جن کا بخوبی اند از ان کے ناولوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

نیاز فتح پوری

نیاز فتح پوری کا ناول "شہاب کی سرگزشت”حقیقت کو فلسفی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کا ہیرو زندگی کی قدروں کو رومانوی انداز میں تبدیل کرنے کا آرزو مند ہے۔ اس ناول میں وصل کو محبت کی موت اور دائمی فراق کو محبت کی معراج ثابت  کرنے کی کو شش کی گئی ہے۔

نیاز کی ناول نگاری پر "آسکرئلڈ” کے اثرات نمایاں ہیں۔ انہوں نے حقیت  کو اپنے تصور ات سے نئی صورت دی۔ نیاز کا رومانوی اسلوب اس ناول کی ایک بڑی خوبی ہے لیکن اس میں زندگی کی حقیقی حرارت  موجود نہیں۔

سجاد ظہیر

سید سجاد ظہیر پاک و ہند کے نامور  اردو ادیب ، انقلابی اور مارکسی دانشور تھے ۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ ان کا ایک ناول” لندن کی ایک رات” ۱۹۳۸ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول میں ہندوستان کے چند امیر طبقوں کے نوجوانوں کا ذکر کیا ہے۔

جو اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے جاتےہیں وہاں ان کی ملاقات انگلستان کے لوگوں سے ہوتی ہے۔ ہندو ستان کی قدیم تہذیب کے نوجوانوں کا سامنا جدید مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام سے ہوتا ہے۔ اس دوران وہ قدیم وجدید کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ ان کی اس حالت کو ناول میں بتا کر دراصل ہندوستان  کےتمام نوجوانوں کی نمائندگی  کیہے۔

کرشن چندر

کرشن چندر ایک نامور ادیب تھے۔ انہوں نے تقر یبا ادب کی ہر صنف میں لکھا۔ انہوں نے بہت سے ناول لکھے۔ ان کے ناولوں میں رنگارنگی ، تنوع ،شوخیاور حقیقت پسندی سبھی کچھ  شامل ہے۔ کرشن چندر کیتخلیقات کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۳۹ء میں انہوں نے رومانوی موضوعات پر لکھا۔

۱۹۲۰ء کے بعد سے وہ زندگی کےحقائق بیان کرنے لگے۔ ۱۹۰۶ء سے وہ سوشلسٹ انقلاب کے حامی بن جاتے ہیں اور پوری دنیا بشمول ہندوستان میں جنگ آزادی اور سوشلست  انقلاب کے حامی نظر آتے ہیں۔ کرشن چندر کا یادگار ناول  "غدار ” بر صغیر کی تقسیم کے بارے میں ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ہمارے ناول نگار جن رجحانات سے وابستہ رہے اس میں دو بڑے حوالے قابل ذکر ہیں۔ فسادات کا حوالہ اور ہجرت کا حوالہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند ایک بڑا واقعہ تھا۔ پاکستان کے لیے مسلمانوں نے لا تعداد قربانیوں کی داستا نین رقم کیں۔

ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں کو اس بے دردی سے قتل کیا کہ انسانیت  تڑپ اٹھتی تھی ۔ اس زمانے میں آزادی ملنے کے بعد بہت سے خاندان ہجرت کے صدمے سے بھی دوچار ہوئے یہ انسانیت کی بے حرمتی دیکھ کر  آگ وخون کا دریا عبور کر کے پاکستان آئے تھے۔

چنانچہ فسادات اور ہجرت کے حوالے سے اس زمانے کے ناول نگاروں  نے اسدور کی ایسی تصویر کھینچی ہےکہ انسان غم میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ان حالات میں انسان کا انسان  سے ہی اعتماد اٹھ گیا۔ان کا اثر ادب پر بھی پڑا اور ایسا ادب لکھا گیا جس میں انسان کی اس بربریت کو موضوع خاص بنا یا گیا ہے۔ اب ان نادلنگاروں ذکر کیا جاتا ہے جنہوں نے تاریخ  کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا اور تاریخ اور تہذیب دونوں کو آپس میں ملایا ۔

قرة العین حیدر

۱۹۵۰ء کی دہائی  میں  جو ناول کے اوپر سب سے بڑی شخصیت رونما ہوئی وہ قرۃالعین حیدر کی شخصیت ہے۔

قرۃالعین حیدر کا شمار پاکستان سے زیادہ ہندوستان کے ناول نگاروں میں ہوتا ہے ۔ قرۃالعین حیدر نے کئی ناول لکھے ۔جن میں آگ کا دریا ، سفینہ غم دل  ، میرے  بھی صنم خانے ، کار جہاں دراز اور آخری شب کے ہمسفر زیادہ مشہور ہیں ۔ آگ کے دریا میں ہندوستان اور پاکستان کی گزشتہ ایک ہزار برس کی تاریخ کو قصے کا روپ دے کر بیان کیا گیا ہے۔

اس ناول میں دنیا بھر کے فلسفیانہ مسائل ہیں اس میں مختلف قوموں اور تہذیبوں کا ذکر بھی ہے ناول کا موضوع وقت ہے آگ کا دریا فنی اعتبار سے اُردو ناول نگاری میں ایک تجربہ تھا ۔ اس ناول نگاری میں مصنفہ نے مغربی ناول کی تکنیک “ شعور کی رو”  استعمال کی ہے ۔ اس کے بعد قرۃالعین کا ناول “ گردش  رنگ چمن  معروف ترین ناول ہے۔ یہ ناول ۱۸۵۸ء سے لے کر موجودہ دور تک کا احاطہ کرتا ہے ۔

اہم واقعات دلی، جےپور ،لکھنو اور کلکتہ جیسےبڑے شہروں میں رونما ہوتے ہیں۔ یہ ناول ان چار بڑے شہروں کا احاطہ کر تا ہے۔ اس ناول کا موضوع بھی تہذیبہے۔ انکا ناول  آخری شب کے ہمسفر” میں عہد حاضر کی سیاسی اور انقلابی تحریکوں میں ڈوبتی ہوئی انگلو انڈین کلچر کی عکاسی کی گئی ہے۔

احسن فاروقی

ڈاکٹر احسن فاروقی نے بطور ناول نگار“شام اودھ“سے شہر ت حاصل کی۔ یہ ناول ایک مخصوص علاقے کیتہذیب اور تمدن کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ امر اؤجان ادا  کے بعد لکھنو کی مٹتیہوئی تہذیب کا حقیقی مرقع ہے۔ ناول نگار نے اس احساس کو اجا گر کیا ہے کہ قوموں کی زندگی میں ان کی تہذیبی ، اخلاقی اور معاشرتی زندگی بھی اہم ہے۔

جب تہذیب بٹ جاتی ہے تو قو میں بھی باقی نہیں رہتیں۔ ان کا ناول “صبح بنارس”،” شام اودھ“ ہی کا ضمیمہ ہے لیکن اس میں مستقبل کی چاپ اور نئی تہذیب کا غلبہ نمایاں ہے۔ ناول “سنگم” میں تاریخ ہند کی تہذیب اور  واقعات کے ساتھ ساتھ دلچسپ طریقے سے پیش کیا ہے۔ ان کے دیگر ناولوں میں” راہ ر سم آشنائی “ ، ”آبلہ دل کا“ اور رخصت اے زنداں کے علاوہ ذاتی زندگی پرمشتمل دل کے آنے بھیشامل ہے۔ ان کے ناولوں  میں انگریزی ادب کے  حوالے اور اقتباسات  جگہ جگہ ملتے ہیں۔

کیونکہ وہ اردو سے پہلے انگریزی ادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے ۔ان کی کتابوں میں لکھنو کی جدید و قدیم تہذیب نظر آتی ہے۔ یہ عالم ان کی شخصیت کا اثر ہے۔ “جس کی تعمیر انہوں نے اپنے مطالعہ اور مشاہدہ سے کی ہے۔

خدیجہ مستور

خدیجہ مستور ایک  افسانہ نگار اور ناول نگار کے طور پر پہچانی جاتی ہے ۔۱۹۶۲ء  میں ان کا ناول ”آنگن“ آیا  جو تقسیم کے موضوع پر ہے۔ اس ناول پر انہیں آدم جی ایوارڈ بھی ملا ۔ ان کا دوسرا ناول ”زمین“ہے کہا جاتا ہے کہ یہآنگن ناول کا ہی دوسرا حصہ ہے یہ بھی تقسیم کے موضو ع پر  ہے۔

ان ناولوں میں تقسیم سے پہلے اور بعد کے حالات  کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ان ناولوں کی یہ خوبی ہے کہ اس میں ایک ہی آنگن تلے پورے بر صغیر کی سماجی اور سیاسی صور تحال کور کھ دیا گیا ہے۔ڈاکٹراسلم آزاد کہتے ہیں  کہ آنگن اپنے تاریخی موضوع ،تہذیبی سچائی  ، فنی پختگی اور فکری شعور کے باعث میرے خیال میں اردو کا سب سے اچھا اور شاہکار ناول ہے۔ جس نے خدیجہ مستور کو دنیائے ادب میں جادواں یعنی سدا اور ہمیشہ رہنے والا دائم بنادیا ہے۔

خدیجہ مستور کا شمار اردو کی ان ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تخلیقی ذہانت اور فنکارانہ شعور کے ذریعے ناول نگاری کے فنی معیار کو بلند کیا اور اس کے صنفی وقار میں اضافہ کیا۔ ان کے ناول میں حالات کی تبدیلی سے فرسودہ تصورات کی شخصیت اور نئے معاشرتی مسائل  کے شفاف نقشے سامنے آتے ہیں۔

خدیجہ مستور کو داخلہ نگاری میں کمال حاصل ہے۔ وہ واقعات اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ان سے متعلق سیاسی اور معاشرتی منظر خود سامنے آجاتا ہے۔ ان کی کہانیاں عموماً متوسط طبقہ کے مسائل کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کے موضوعات و سیع اور سماجی اقدار پر مبنی ہے جس کا پس منظر سیاسی اور اخلاقی ہے۔

رضیہ فصیح

رضیہ فصیح نے بھی متعدد ناول رکھے ہیں۔ ان میں اہم”آبلہ پا“ ناول  ہے۔ جسے آدم جی ایوارڈ بھی ملا۔اس کے علاوہ صدیوں کی زنجیر بھی ان کا ایک شاہکار ناول ہے۔ ناول اپنے موضوع کے اعتبار سے بھی لاجواب ہے۔۱۹۸۱ء کا  سانحہ اس کا موضوع ہے لیکن رضیہ فصیح نے خوبصورت طریقے سے اس کا پلاٹ بنایا ہے اور اس کا رشتہ تاریخی تصور کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ جوڑا ہے۔ تخلیقی طور پر رضیہ فصیح نے اس میں مشرقی و مغربی پاکستان کی نسلوں کو ایک خاندان سے وابستہ کر کے دکھایا ہے۔

ناول  “آبلہ پا”میں کہانی کو متعدد زاویوں کی زبان سے پیش کرنے کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کے دیگر ناول انتظار ،موسم گل، ایک جہاں اور بھی ہے اور متاع درد   ان کے دیگر ناولوں کے نام  ہیں۔

شوکت صدیقی

شوکت صدیقی نے ناول ” خدا کی بستی“میں اپنے عہد کے پاکستانی نظام کی ترجمانی کی ہے۔ جس میں سرمایہ دارانہ  معاشرے نے غریب بے بس اور مجبور انسانوں کی زندگی کو اپنی زندگی کا شکار بنالیا ہے۔ ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر سماج دشمن عناصر انہیں اخلاق سے گرے ہوئے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ماحول بن گیا ہے جہاں معاشی اقتصادی اور ذہنی استحصال عام ہے۔

شوکت صدیقی نے اس ناول میں حقیقت نگاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ شوکت صدیقی نے معاشرتی المیے کو ابھارا  لیکن مقصد کو عیاں نہیں ہونے دیا

 شوکت صدی کا ایک اورضخیم  ناول”جانگلوس “ہے۔ اس میں انہوں نے پنجاب کےدیہاتی معاشرے کی عکاسی کی ہے۔ جہاں جاگیر دارانہ ظلم اور جبر عام ہے۔ اس کے کرداروں کے لیے زندگی ایک بوجھ ہے جس کے اٹھانے کی سکت ان میں نہیں ہے۔

ممتاز مفتی

ممتاز مفتی کہانی، افسانہ اور شخصیت نگاری کا ایک اہم حوالہ ہیں۔ممتاز مفتی اردو افسانے کی روایت میں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ممتاز مفتی نے ۱۹۶۱ء میں”علی پور کاایلی“ کے نام سے ایک ضخیم ناول لکھا۔ جس کی اشاعت کے بعد اس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں کیا گیا۔

یہ خود نوشت ناول ہے جو اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ جبکہ”الکھ نگری“خود نوشت کا دوسرا حصہ ہے۔ممتاز مفتی نے موضوع، مواد اور تکنیک کی سطح پر کئی تجربے کئے۔ ہیت کے بجائے وہ مواد پر زور دینے والے قلم کار ہیں۔ وہ اظہار کے لیے ہیت کے توڑ پھوڑ اور اس سےانحراف سے گریز نہیں کرتے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں