قرۃ العین حیدر کے سوانحی حالات | The Biographical Account of Qurratulain Hyder
موضوعات کی فہرست
قرۃ العین حیدر کے سوانحی حالات
انسانی فکر کی تشکیل و تعمیر اور اس کی نشو نما میں گھر ،ماحول، معاشرہ اور سماجی وسیاسی حالات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ انسان جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے وہی وہ پلتا پڑھتا اور پروان چڑھتا ہے۔ اس کے دل ودماغ اور فکر کی راہیں اسی معاشرے اور ماحول سے تربیت اخذ کرتی ہے اور اس کا ذہنی نشونما انہیں خطوط پر تشکیل پاتا ہے۔ جو اس معاشرے اور ماحول ماحول کا چلن ہوتا ہے۔
دوسری اہم بات اس وراثت کی ہوتی ہے جو اسے اپنے والدین سے ملتی ہے۔ اس طرح کسی بھی شخصیت کے فکر کی تعمیر میں وراثت ، ماحول ، معاشرہ اور سماجی وسیاسی حالات کا رول ہوتا ہے۔ گھریلو ماحول اور تربیت کا اثر کبھی کبھی دوسرے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے ۔
لہٰذا کسی بھی ہم مصنف کی فکری پس منظر کا مطالعہ ان تمام باتوں کے تجزے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔جہاں تک قرۃ العین حیدر کی فکری پس منظر کا تعلق ہے تو اس کی تعمیر و تشکیل میں خود ان کے ماحول اور معاشرے کی بڑی اہمیت ہے۔ جس کا اعتراف خود قرۃ العین حیدر نے کیا ہے:
’’یہ تو ہزاروں بار دہرائی ہوئی بات ہے کہ انسان کے خیالات اور کردار کی تشکیل میں اس کی پرورش ، اس کے ذہنی اور شعوری پس منظر اور اس کے گھرانے کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔‘‘(۱)
قرۃ العین حیدر نے جس ماحول اور جس گھرانے میں آ نکھ کھولی ۔ وہ جاگیردارانہ ماحول تھا۔وہ اپنی جاگردارانہ روایات کے باوجود بیدار ذہن اور روشن خیال دور تھا۔ روشن خیالی کا یہ دور تھا کہ قرۃ العین حیدر کے پردادا جو خود پابند شرع مسلمان تھے۔
علمائے دین کے فتوے دینے کے باوجود کہ انگریزی تعلیم حرام ہے اپنے بچوں کو دیوبند مدرسے میں روانہ کرنے کے بجائے انگریزی تعلیم دلوائی۔ گھریلو ماحول ترقی پسند ہونے کے باوجود اسلام پرورتھا ۔اور اسلامی روایات کا پاس لحاظ پورے طور سے رکھا جاتا تھا چونکہ روشن خیال لوگ تھے اس لیے بہت سی توہمات اور پرانی رسومات خرافات تصور کرتے تھے لیکن روزہ نماز کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔
قرۃ العین حیدر کی والدہ مسلک کے اعتبار سے شیعہ تھیں لیکن ماتم کو درست نہیں مانتی تھیں اور ان کی دادا یہال اور ننیھال دونوں جگہ شیعہ سنی فرقوں کا ملا جلا ماحول تھا۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی ضروری تھی اس لیے قرۃ العین حیدر کو بھی ایک طرف کانونٹ میں تعلیم دلوائی گئی تو دوسری طرف گھر پر مولوی رکھ کر قران کی تعلیم دلوائی گئی اور نماز کی توقید بھی کی گئی۔
’’جاگیردارانہ نظام بہت سی خامیوں سے پر ہونے کے باوجود بہت سی خوبیوں کا مجموعہ بھی تھا۔اس نظام کو قرۃ العین حیدر نے اپنی انکھوں سے ٹوٹتے ہوئے دیکھا اور اس سے براہ راست متاثر ہوئیں۔ اس نظام کو ٹوٹنے کا مصنفہ کو شدت شدید رنج تھا دوسری طرف ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد تیز ہو چکی تھی ترقی پسند تحریک اپنی شباب پر تھی۔‘‘(۲)
۱۹۴۷ءمیں ملک آازاد ہوا۔ اس کے بعد ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا م۔ فسادات ہوئے جس نے ملکی اتحاد پر کاری ضرب لگائی مخلوط کلچر تباہ ہوا۔ ایک ساتھ رہنے والی دو قوموں کے درمیان منافرت * پیدا ہو گئی۔ سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا اور ایک نئے سماج کا وجود عمل میں آیا۔ پوری ہندوستان کی فضا اس سے متاثر ہوئی ۔ یہ تمام تبدیلیاں اس وقت وجود میں آئی جب قرۃ العین حیدر عقل اور شعور کی پختگی کی منزلوں میں قدم رکھ رہی تھی اور ان کے فکر و شعور کی راہیں متعین ہونے والی تھی۔
لہٰذا ان کے گھر میں موجود دو طرح نظاموں کے ٹکراؤ نے ان کے ذہنی اور فکری نظام کو سوچنے اور سمجھنے کی راہیں متعین کیں۔ اگرچہ یہ راہ ہمیشہ ایک سی نہیں بلکہ وقت اور حالات کے تحت ان میں تبدیلیاں ہوتی رہیں البتہ جو سوچ پہلے ان کے فکر کا حصہ تھی ان میں تبدیلی آئی اور یہ تبدیلیاں ان کے اندر زمانہ شناسی اور عصری آگاہی کی دین تھی۔
شروع میں انہوں نے رومانیت یعنی رومانوی افسانہ نگار کی حیثیت سے ادب کی دنیا میں قدم رکھا لہٰذا رومانیت میں حقیقت کی امیزش ہوئی اور رومان کے پردے میں زندگی کے حقائق کو پیش کرنے کا عمل شروع ہوا۔ ’’ستاروں سے آگے‘‘،’’روشنی کی رفتارا‘‘ تک قرۃ العین حیدر کا سفر ان کے فکری میلانات اور رجحانات کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ جن میں ان کی فکری میلانات کی تبدیلیاں اور اس سے پیدا ہونے والی پختگی بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔
قرۃ العین کے اگرچہ ایک محدود زندگی کے ایک محدود پہلو کو افسانوں اور ناولوں کا موضوع بنایا ہے لیکن انہوں نے زندگی کے گوناگوں مسائل سے بھی آنکھیں نہیں چرائی۔ سچائی، ایمانداری اور انسان دوستی کے سلسلے میں جو درس قرۃ العین حیدر کو دیا گیا اس سے ان کا دل و دماغ کافی متاثر ہوا اور انہوں نے اس پر عمل کر کے دوسروں کو بھی سچائی ، ایمانداری اور انسان دوستی کا سبق دیا ۔
’’انہوں نے کرداروں کے ذریعے بھی اپنے افسانوں اور ناولوں میں ان خیالات کا اظہار کیا۔‘‘(۳)
قرۃالعین حیدر کی شخصی و ادبی تعارف
قرۃ العین حیدر دور جدید کے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں میں سب سے بلند و بالا ادبی شخصیت کے حامل ہیں۔
قرۃ العین حیدر ادبی دنیا میں ’’عینی‘‘،’’مس حیدر‘‘ اور’’بوم بوم ڈارلنگ‘‘ کے نام سے پکاری جاتی ہیں۔ قرۃ العین حیدر ایک عظیم افسانہ نگار اور ناول نگار سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی ہے ۔ سجاد حیدر یلدرم کثیرتصانیف ادیب ،ایک اچھے انشاء پرداز اور بہترین مترجم تھے۔ انہوں نے ترکی ادب کی تصانیف کا اردو میں ترجمہ کر کے اردو ادب کو ترکی کے ادب اور سرمایے سے آشنا کیا۔
ان کے ناول اور افسانے بھی قابل اہمیت ہے ’’خیالستان اور حکایات و احساسات ‘‘ مضامین اور افسانوں کے مجموعے ہیں۔ انہوں نے طویل اور مختصر افسانے بھی لکھے ہیں۔ طویل اور مختصر ناولوںمیں ’’ثالث بالخیر‘‘، ’’زہرا‘‘،’’مطلوب حسینا‘‘، ’’آسیب الفت‘‘اور ہما خانم ۔ تمقیدی مضامین میں ’’ناول نویسی‘‘اور ’’مولانا حالی کی شاعری پر تنقید‘‘قابل ذکر ہیں۔
قرۃ العین حیدر کہ والدہ زہرا سجاد کو بھی ادب سے گہرا تعلق تھا۔ زہرا سجاد ادب ادب نسوا کی منفرد اور بلند پایا ناول نگار بھی تھیں۔
ان کے کے ناول’’اختر النساء بیگم‘‘، ’’ثریا‘‘ ،’’نجمہ جاں باز‘‘اور ’’آہ مظلوماں‘‘ شامل ہیں۔ جو کافی مقبول ہوئے۔ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی سرگرم رہتی تھیں۔ گویا قرۃ العین حیدر کو ذوق ادب وراثت میں ملی اور اس اسی علمی و ادبی ماحول میں ان کی شخصیت پروان چڑھی ۔
قرۃ العین حیدر کا تعلق سید گھرانے سے رہا ہے اور سلسلہ نصب زید شہید بن علی بن امام حسین سے ملتا ہے۔ ان کےآاباؤ اجداد وسط ایشیا کے مقام’’ترمذ‘‘ سے ہندوستان تشریف لائے اور ہندوستان کی صوبہ یو پی کے ضلع بجنور میں سکونت اختیار کی۔ چنانچہ ہندوستان ان کا آبائی وطن ہے ۔قرۃ العین علمی اور زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ جو کافی روشن خیال اور ترقی پسند بھی تھا۔ ان کے روشن خیال اور ترقی پسندی ہی تھی کہ ان کے خاندان میں خواتین بھی تعلیم یافتہ اتھی۔
یہ بھی پڑھیں: قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری
پیدائش
قرۃ العین حیدر ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ءکو علی گڑھ میں پیدا ہوئی لیکن اس کی سن پیدائش میں ایک اختلاف پایا جاتا ہے ان کے زمانے کی مختلف ادیبوں نے قرۃ العین کی سن پیدائش کا ذکر یوں کیا ہے:
نند کشور و کرم
نند کشور و کرم نے اپنے مضمون میں بتایا کہ قرۃ العین حیدر ۲۰ جنوری ۱۹۲۶ءمیں پیدا ہوئی۔ اس مضمون کے حاشیے میں پروفیسر ارتضا کریم نے سن پیدائش سے متعلق وضاحت کی ہے کہ قرۃ العین حیدر نے اپنی ذاتی خط میں مطلع کیا ہے کہ وہ علی گڑھ میں ۲۰ جنوری ۱۹۲۸ءمیں پیدا ہوئی۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ کے مطابق:
قرۃ العین حیدر کی پیدائش ۱۹۲۷ء میں علی گڑھ میں ایک روشن خیال مصنفین کے خاندان میں ہوئی تھی۔
لیکن قرۃ العین حیدر کی صحیح سن پیدائش ایک متوسط مسلم گھرانے میں ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ءکو علی گڑھ میں ہوئی۔
تعلیم
قرۃ العین حیدر کی زندگی کا بیشتر ابتدائی حصہ نکوبار وغیرہ میں گزرا ابتدائی تعلیم دہرا دون کانو نٹ سکول میں حاصل کی ۱۱۔ گھیاری منڈی لکھنو میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور لکھنو کی مشہور کالج از ابیلا تھوبرن میں سے بی۔اے کی ڈگری حاصل کی۔
لکھنو یونیورسٹی سے ۱۹۴۷ء میں ایم ۔اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی۔ آرٹ اور مطالعہ کے بے حد شوقین تھی۔ مغربی موسیقی اور ڈرامے سے دلچسپی تھی ۔ ہندوستانی کلاسیکی رقص اور مصوری بھی سیکھی۔ ۱۹۵۲ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے جدید انگریزی ادب کا کورس کیا ۔
تحصیل تربیت برائے آرٹ
قرۃ العین حیدر کو مصوری کا بھی بہت شوق تھا۔ اپنی اس شوق کو پورا کرنے اور مہارت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے خاص تربیت حاصل کی ۔ اس کے تحت لکھنو کے مشہور آرٹسٹ’’ایل ایم سین‘‘ کی زیر تربیت رہی اور اس کے بعد مزید مہارت کے لیے اسکول آف آرٹ لندن سے حاصل کی۔ آپ مصوری کے ساتھ ساتھ موسیقی کا بھی شغف رکھتی تھی۔
تعلیم کے دوران ہی موسیقی کی بہت ٹریننگ لی۔ نیز ہندوستانی کلاسکل موسیقی اور مغربی موسیقی کے معلومات حاصل کی ۔ اس کے علاوہ پیانوں کی تعلیم اس وقت کے مشہور ماہر پیانو استاد’’ فرنانڈیز اور ر وبن جونیئر‘‘ سے حاصل کی۔ صحافتی تعلیم کے حصول کی غرض سے قرۃ العین حیدر نے لندن کے’’ رجمنٹ اسٹریٹ پولی ٹیکنیک‘‘ ادارے میں داخلہ لیا لیکن کسی وجہ یہ کورس نامکمل رہا۔
اولین تخلیق
قرۃ العین حیدر نے پہلی کہانی صرف چھ برس کی عمر میں لکھی۔ تا ہم ان کی یہ کہانی کہں شائع نہیں ہوئی۔ ان کی پہلی تخلیق ’’بی چوہا کی کہانی ان کی زبانی‘‘ہے۔ یہ ’’پھول‘‘رسالہ لاہور سے ۲۳ ستمبر۱۹۳۸ء میں شائع ہوئی۔ اس دوران ان کی عمر صرف ۱۳ سال تھی ۔
اولین مطبوعہ افسانہ اور ناول
قرۃ العین حیدر نے لکھنا بہت بچپن میں ہی شروع کیا۔ غالباً’’۳۷ پھول اخبار‘‘میں پھر آل انڈیا ریڈیو کے لیے اسکرپٹ یعنی مضمون لکھے۔ ان کا پہلا طنزیہ افسانہ’’لالا رخ ‘‘کے فرضی نام سے ۱۹۲۳ءمیں’’رسالہ ادیب‘‘دہلی میں شائع ہوا ۔اس کے بعد اپنے نام سے لکھنا شروع کیا اور پہلا افسانہ’’ یہ باتیں‘‘ ہمایو ن لاہور میں شائع ہوا جبکہ ان کا پہلا ناول’’میرے بھی صنم خانے‘‘ہیں جومطبوعہ مکتب جدید لاہور سے طبع اول فروری ۱۹۴۹ءمیں شائع ہوا۔(۴)
پاکستان ہجرت
’’والدین کی وفات کے بعد ۱۹۴۷ءمیں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور لاہور میں عارضی قیام کیا ۔ بعد میں بڑے بھائی مصطفی ٰحیدر کے ساتھ کراچی میں مسنتقل سکونت اختیار کی۔ وہاں سے ۱۹۱۵ءمیں لندن جا کر بقیہ تعلیم پوری کی۔ ۱۹۶۰ءمیں لندن سے ہندوستان واپس چلی گئی کچھ دن ممبئی میں قیام کیا لیکن بعد میں دہلی میں مقیم ں‘‘(۵)
خدمات سرکاری ونیم سرکاری
۱۹۵۰ءمیں وزارت اطلاحات و نشریات کراچی میں انفارمیشن آفیسر مقرر ہوئی۔
لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں پریس اتاشی کی حیثیت سے تعینات رہیں۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن میں انفارمیشن آفیسر رہیں۔
۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۰ء تک وزارت اطلاعات و نشریات میں ڈاکومنٹری فلموں کی پروڈیوسر کے علاوہ ’’پاکستان کواٹرلی‘‘کی ایکٹنگ ایڈ سیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
۱۹۶۱ءمیں پاکستان سے بھارت منتقل ہوگئیں۔
۱۹۶۴ء سے ۱۹۶۸ءکے دوران وہ انگریزی مجلہ’’ امیرنٹ ممبئی‘‘ کی کیریئر ایڈیٹر رہیں۔
۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۵ءکے دوران وہ مشہور انگریزی ہفتہ وار مجلہ ’’السٹرینڈ ویکلی **آف انڈیا‘‘ کی مدیر ومعاون رہیں۔ سنٹرل بورڈ آف فلم سنٹر کی ممبر رہیں۔
اعزازات
۱۹۶۷ء میں انہیں افسانوی مجموعے’’پت جھڑ کیآاواز ‘‘پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔
۱۹۶۹ءمیں انہیں تراجم’’سویت لینڈ نروایواڈ ‘‘ عطا کیا گیا۔
دسمبر ۱۹۸۱ءسے دسمبر ۱۹۸۲ءتک وہ شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ یونیورسٹی میںوزٹیگ پروفیسر رہیں۔
۱۹۸۴ء میں ’’پدم شری‘‘اور ’’غالب‘‘ایورڈ دیا گیا۔
۱۹۹۰ء میں انہیں ادبی خدمات پر ہندوستان کا سب سے بڑا اعزاز’’گیان پیٹھ ایوراڈ‘‘دیا گیا۔
تصانیف
مطبوعات پر ایک نظر
۱۔ میرے بھی صنم خانے،مطبوعہ مکتبہ جدید، لاہور،طبع اول فروری ۱۹۴۹ء
۲۔ سفینہ غم دل،مطبوعہ مکتبہ جدید، لاہور،طبع اول،۱۹۵۲ء، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
۳۔آگ کا دریا،مطبوعہ مکتبہ لاہور، طبع اول ۱۹۵۹ء
۴۔ آخری شب کے ہم سفر، چودھری اکیڈمی، لاہور، طبع اول ۱۹۷۹ء
۵۔ کار جہاں دراز ہے، دو جلدین، ایجوکیشنل پبلیکیشنگ ہاؤ س، دہلی ۲۰۰۱ء
۶۔ گردش رنگ چمن، مطبوعہ ، ایجوکیشنل پبلیکیشنگ ہاؤ س۱۹۸۴ء۔ مکتبہ دانیال ،کراچی ۱۹۸۷ء
۷۔ چاندنی بیگم، مطبوعہ ، ، ایجوکیشنل پبلیکیشنگ ہاؤ س۱۹۷۹ء۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۹۰ء
ناولٹ
دلربا، سیتا ہرن، چائے کے باغ، اگلے جنم موہے بیٹیا نہ کیجو
پہلے تین ناولٹ پاکستان میں الگ لاگ بھی شائع ہوئے ہیں۔
۱۔ چائے کے باغ، مطبوعہ ،یونیورسل بلکس، لاہور ۱۹۷۳ء
۲۔ دلربا، مطبوعہ ،رابعی بک ہاؤ س، لاہور ۱۹۷۳ء
۳۔ سیتا ہرن، مطبوعہ ، مکتبہ اردو ادب لاہور
اس کے علاوہ یہ چاروں ناولٹ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے بھی شائع کئے ہیں۔ یہ نولٹ افسانوی مجموعہ ’’پت جھڑی کی آواز‘‘ میں شامل ہے۔ ،مطبوعہ ۱۹۶۷۔
متفرقات
سفرنامے
لندن لیڈر (سفر نامہ)، مطبوعہ نقوش شمار ۱۹۵۲ء
دکھلائے لے جا کے تجھے مصر کا بازار،مطبوعہ، بہترین سفرنامے، لاہور، ۱۹۷۶ء
خضر سوچتا ہے (ایک بابی تمثیل)
کوہ ماوند(سفر نامہ ایران)، اردو ادب لاہور، ۱۹۷۹ء
گل گشت(سفر نامہ روس) اردو ادب لاہور
جہاں دیگر(سفر نامہ)، مطبوعہ ،اردو ادب لاہور
پیکچر گیلری(مضامین)،مطبوعہ لاہور، طبعہ اول ۱۹۸۴ء
بچوں کا ادب
قرۃ العین حیدر نے بچوں کے لیے بھی کام کیا ہے۔ جن میں زیادہ تر تراجم شامل ہیں۔
پھڑ نئے کے بطے
لومڑی کے بچے
میاں ڈھینچو کے بچے
بہادر
شیر خان
ہرن کے بچے
ادب میں آمد و حیثیت
قرۃ العین حیدر ایک بہترین فنکاراتھی ساتھ ہی بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال تھی۔ ان کا مطالعہ عمیق اور مشاہدہ دقیقتھا۔ عظیم ورثہ ادب کی مالک تھی۔ ان کا ادبی سرمایہ افسانے، ناول، ناولٹ، رپورتاژ، خاکے،تنقیدی مضامین ، اطفال ادب ،مترجم اور طبع ذاد کہانیوں پر مشتمل ہے۔
انہوں نے اپنے ادبی و تحقیقی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ان کا پہلا افسانہ’’ باتیں‘‘ ہے۔ اس کے بعد ان کے چار افسانوی مجموعے شائع ہوئی جو حسب ذیل ہےیں۔
ستاروں سے اگے ۱۹۴۷ء
شیشے کا گھر ۱۹۵۴ء
پت جھڑ کی آاواز ۱۹۶۷ء
روشنی کی رفتار ۱۹۸۲ء
بعد اذاں ۲۰۰۰ءمیں ان کے افسانوں کا کلیات’’ آئینہ‘‘دو جلدوں میں شائع ہوا اور وفات سے قبل ان کا افسانوی مجموعہ’’قندیل چین‘‘۲۰۰۷ءمیں شائع ہوا۔
قرۃ العین حیدر بنیادی طور پر ناول نگار ہی ہے۔ انہوں نے کئی کامیاب ناول لکھے۔’’آگ کا دریا‘‘ جیسا شکار ناول ان کے ناول نگاری کے میدان میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی ناول نگاری کی ابتدا ء ۱۹۴۹ءمیں ’’میرے صنم خانے‘‘ناول سے ہوئی۔ اس کے بعد مختلف موضوعات پر انہوں نے دیگر چھ ناول لکھے۔ اس کے علاوہ ’’سفینہ غم ‘‘۱۹۵۶ء،’’آخری شب کے ہمسفر‘‘۱۹۷۹ء، ’’گردشی زندگی‘‘۱۹۸۷ء شائع ہوئے۔ انہوں نے نالٹ اور بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں۔
قرۃ العین حیدر نے کئی تصانیف و نگارشات جو ان کی والدہ اور دیگر رشتہ داروں کی تھیں، ساتھ ہی اپنی زندگی کی حسین و خوشگوار یادیں جو تحریر ی شکل میں تھیں انہیں اکٹھا کر کے ترتیب دیا اور مخصوص عنوانات کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیے۔ ان تصانیف کیفہرست درجہ ذیل ہے
۱۔دامان باغباں(مجموعہ خطوط، ۲۰۰۳ء)
۲۔ کف گل فروش اول ۲۰۰۴ء
۳۔ ہوائے چمن میں خیمہ گل( کلیات نظر سجاد حیدر،۲۰۰۴ء)
۴۔گزشتہ برسوں کی برف (نظر سجاد حیدر کا روزنامچہ ایام گزشتہ ۲۰۰۷ء
۵۔ تخلیقات (مجموعہ انشائیہ، سید افضل علی)
قرۃ العین حیدر انگریزی زبان سے بھی گہری واقفیت رکھتی تھی۔ انگریزی زبان کی بیشتر نگارشات اور تخلیقات کا ترجمہ کر کے اردو ادب کے سرمائے میں بھی اضافہ کیا۔ ان کی انگریزی سے متراجم تصانیف حسب زیل ہیں۔
۱۔ہمیں چراغ ہمیں پرواانے (از ہنری جیمس)
۲۔ آپس کی گیت ( واسل بائی کوف)
۳۔ ماں کی کھیتی (از جنگیز اعتماد وف)
۴۔ ٓدمی کا مقدر ( از میخائل شولو کوف)
تلاش (از ٹرومین کاپوٹ)
یودکیہ (ایرا یانودا)
قرۃ العین حیدر کی انفرادیت
اردوفکشن کی روایت بہت قدیم ہے۔ عربی ، فارسی اور سنسکرت داستانوں کے بے شمار ترجمے اردو میں ہوئے جو آج تک دلچسپی سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ ہمارے شعراء نے بھی مثنویوں میں دلچسپ داستانیں نظم کیے۔ جدید نثر میں میر امن سے رتن ناتھ سرشار تک فکشن کی متعدد کتابیں لکھی گئیں۔ نذیر احمد، ہادی رسوا، اور راشد الخیری نے اصلاحی اور معاشرتی ناول لکھے۔
عبدالحلیم شرر نے تاریخی ناولو کی بنیاد رکھی۔ لگایا پریم چند سے کرشن چندر تک کئی عمدہ ناول، ناولٹ اور لاتعداد افسانے فکشن کی جدید ہیت میں تحریر کیے گئے۔
افسانے اور ناول کے میدان میں قرۃ العین حیدر نے ایک الگ راہ نکالی۔ ان کا اسلوبی نگارش بھی الگ ہے اور افسانہ ترازی بھی جدا، ان کے اسلوب میں ایک تازگی ہے ، جو ان کے پیش روؤں سے انہیں یکسر ممتاز کرتی ہے۔
وہ انگریزی اور اردو کی ایک عظیم ناول نگار اور افسانے نگار ہے، جنہوں نے براہ راست عصر حاضر کے انگریزفکشن کے جدید ترین تجربوں سے استفادہ کیا ہے۔
مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرۃ العین حیدر اپنے خاص دائرہفن میں اپنے پیشروانگریزی افسانہ نگاروں سے بھی آگے ہے۔قرۃ العین حیدر کی انفرادیت اس لیے بھی نمایاں ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے ماضی اور اس کے بعد کے حالات کو پوری انسانی تاریخ کے تجربے کے ایک جز کے طور پر پیش کیا ہے
اور مستقبل کے امکانات و خطرات کو ناول اور افسانوں میں خوبصورتی سے سمو دیا ہے ۔ یہ ترکیبی تجزیہ قرۃ العین حیدر کے ذہن ہی کا کمال ہے۔ یہ ایک وقت ،عہد، رفتہ اور زمانہ حال دونوں میں سانس لیتی ہیں۔ ان کے تاثرات میں ماضی وہ حال شامل ہو گئے ہیں اور گویاں یہ ان کی فنی شخصیت کا حصہ یا پہلو ہے۔ اسے فنی احساس کے سبب وہ تاریخ کو افسانہ بنا سکتی ہے۔
اسی عمل میں نظری طور پر ان کا انداز کبھی فلسفیانہ ہوتا ہے اور کبھی صوفیانہ اور کبھی دونوں حالتوں میں سراسر رومانیت بڑی گہری ہے اور تاریخ اور فلسفہ کی تہوں میں پڑی ہوئی ہے۔ قرۃ العین کا کوئی متعین ، واضح اور قطعی نصب العین نہیں ہے لیکن ان کا ایک معیار نظر ضرور ہے وہ تہذیب و انسانیت کے اعلی اخلاق واگرار کی گرویدہ ہیں۔
علالت اور وفات
قرۃ العین حیدر آخری ایام میں بے حد کمزور ہو گئی تھیں۔ ہسپتال میں الوئیڈ ایوبی کے کیلاش ہسپتال کے آئی۔سی۔یو داخل ہوئی تھیں۔
جہاں بذریعہ نلی انہیں غذا دی جاتی تھی آخری لمحات میں ان پر بے ہوشی طاری ہو گئی تھی ۔ بالاآخر ۲۱ اگست ۲۰۱۷ءکو ان کی وفات کی خبر ملی۔
اس ناقابل پراموش ادیبہ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ یقیناً ان عظیم شخصیت کی موت نے سب کو غمگین کر دیا لیکن موت ایک ایسے اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔ زندگی و موت تو برحق نظام قدرت ہے پ۔ فنکار اپنے فن سے ہی زندہ و پائندہ ہے ۔ ۲۱ اگست ۲۰۰۷ء کا دن ہم سب کے لیے نہایت جب غمناک رہا۔ ہمارے ادب کا تابندہ اور روشن ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔
خراج عقیدت
قرۃ العین حیدر کی انتقال کے بعد ان کی شخصیت ،ذات و صفات اور فکر و فن پر مبنی مضامین بے شمار شائع ہوئے اور کئی سیمینار منعقد ہوئے اور کتابیں شائع ہوئیں، جن میں اس عہد کے ادیب و قلم کار حضرات نے خراج پیش کر کے قرۃ العین حیدر سے ہے اپنی عقیدت و خلوص کا اظہار کیا ہے۔
پروفیسر ساجدہ
’’پروفیسر ساجدہ نے اپنے مضمون میں یوں اظہار عقیدت کیا ہے کہ ’’عینی ‘‘ بھی قرۃ العین حیدر بھی یہ دار صحن* یعنی یہ دنیا چھوڑ کر مالک حقیقی سے جاملیں۔ دہلی اداس ہے ،اہل ادب کا حلقہ سوگوار اور غمگین ہے۔ہزاروں دلوں میں ان کی یاد اور لاکھوں ذہنوں میں ان کی لازوال تحریروں کا نقش ہے۔‘‘
ھما حیدر
’’قرۃ العین حیدر کی بھانجی محترمہ ھما حیدر کے مطابق قرۃ العین حیدر کا اس جہان فانی سے جانا اردو ادب بلکہ ہندوستانی ادب کے لیے بھی ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔‘‘(۹)
شمس الرحمن فاروقی
/شمس الرحمن فاروقی نے کہا کہ قرۃالعین حیدر کے دریائے حیات نے اپنا رخ موڑ لیتا ہے۔لیکن اس کے لائے ہوئے لعل اور گہری کی روشنی ہمارے دل و دماغ اور ہمارے دلوں کو مدتوں آباد کرتی رہے گی۔/
سورجہماری محفل سے اٹھ کر چلا گیا لیکن
ہماریآنکھوں میں اس کا نور اب بھی روشن ہے
بقول بیدل:
/خورشید خرا* و فروغ بہ نظر ماند
دریا بکنار دگر افتاد و گہر ماند/
قرۃ العین حیدر آج ہمارے درمیان نہیں رہیں مگر ان کے خیالات ، افکار اور تحریریں ہمارے ساتھ ہیں ۔ یہ متاع بے بہا کوچ ش*ر کے باوجود روشنی کے ایک مینار کی طرح شب ** میں رہ دکھاتا رہے گا جو خیالات کے اژدہام، مسائل کے جم غفیر اور مشکلات کے اندھیری شب میں روشنی پھیلاتا رہے گا۔
حوالہ جات
۱۔ تانیثیت اور قرۃ العین حیدو، اعجاز الرحمٰن،عرشیہ پبلی کیشنز دہلی،ص ۵۰
۲۔ تانیثیت اور قرۃ العین حیدو، اعجاز الرحمٰن،عرشیہ پبلی کیشنز دہلی،ص ۵۳
۳۔ ایضاً، ص ۵۶
۴۔افسانوی ادب، گوہر نوید کاٹلنگ،ص ۱۷۹
۵۔ ایضاً ،ص ۱۸۰
۶۔ ایضاً، ص ۸۳۔۸۱
۷۔ایضاً، ص ۸۳۔۸۱
۸۔ اردو کی ناول نگار خواتین، داکتر سید جاوید اختر، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور،ص ۱۲۴
۹ایضاً، ص ۱۲۵
۱۰۔ قرۃ العین حیدر کا فن، عبد الغنی م**،پبلی کیشنزہاؤس،دہلی،ص ۸،۹
۱۱۔ قرۃ العین حیدر کا فن اور شخصیت، ڈاکٹر صاحب علی، ص ۶۲