تیرا آنا بھی جیسے جانا تھا،ظلم بھرا مسافر خانہ تھا
مجھے یاد ہے وہ دن رات کی محنت
تجھے ماں کو بھی ہنسانا تھا ،گھر کا بوجھ بھی اٹھانا تھا
کسی باپ کی حالت سے بے خبر ہو تم
تجھے پاس بھی بٹھانا تھا، تم سے دور بھی تو جانا تھا
نجانے کیسا تیرا ظالم مسافر خانہ تھا
تجھے غم کو بھلانا تھا ،تیرا زخم بھی بہانا تھا
تجھے کس طرح سے بول دوں ،تجھے مسکرا کے جانا تھا
تیرے پاس جو ٹھکانہ تھا ،اس باپ نے سمجھانا تھا
اپنے لاڈلے کو پانا تھا تیرا آنا بھی جیسے جانا تھا
نجانے کیوں تجھ پر مسلط ،یہ جبر خانہ تھا
مجھے سمجھنا تھا کہ آخر یہ کونسا ظلم خانہ تھا
جس کا نام مسافر خانہ تھا
تجھے گود میں اٹھانا تھا ،تجھے پیار سے بڑھانا تھا
تجھے نیند سے اٹھانا تھا ،تجھے خواب بھی دکھانا تھا
ترے لاڈ پیار کی خاطر ، انھیں ہر سال گھر آنا تھا
انھیں اپنی گڑیا کو بٹھانا تھا ،اسے بس اتنا سمجھانا تھا
یہ دنیا صرف دھوکا ہے، اسے حور جیسے پالنا تھا
یہ دل میں اک فریاد تھی ہر باپ نے چھپایا تھا
کہ ظلم بھرا ان کا ظالم مسافر خانہ تھا
(از قلم (سدرہ میر اکبر
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں