کتاب کا نام۔۔۔۔ غالب اور مير كا خصوصى مطالعہ
کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5612
موضوع : ترقی پسند شعراء پر غالب کے اثرات
صفحہ نمبر : 174 تا 177
مرتب کردہ۔۔۔ سمیہ
ترقی پسند شعراء پر غالب کے اثرات
زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں
تاب گویائی سے جنش ہے لب تصویر میں
نطق کو سوناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچٔہ دلی گلِ شیراز پر
آو تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
ہائے اب کیا ہوگئی ہندوستان کی سرزمین
آہ اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے
اے جہاں آباد اے گہوارہ علم و ہنر
ہیں سراپا نالہ خاموش تیرے بام دور
ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ میں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فجر روزگار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟
یہ نظم اقبال کی شاعری کے اس دور کا کارنامہ ہے، جب اقبال اپنی قوت شعر گوئی کی معراج کو نہیں پہنچے تھے لیکن ان کی شاعرانہ عظمت نمایاں ہو چلی تھی ۔ پھر بھی اس نظم سے ظاہر ہے کہ اقبال غالب کے بارے میں کتنی بلند رائے رکھتے تھے۔ وہ سب سے زیادہ غالب کے تخیل کی بلندی اور بلند پروازی سے متاثر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر چہ وتی کے قبرستان میں کیسے کیسے اہل کمال دفن ہیں لیکن غالب جیسا کوئی نہیں۔ اگر غالب کا کوئی ہم سر ہے، تو جرمنی کا مشہور شاعر گوئے ہے جو ایمر ( جرمنی کا ایک مقام ) میں ابدی نیند سو رہا ہے۔ غالب کی فکری بلندی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے، کہ غالب کی وجہ سے دوتی کی سرزمین ، ایران پر جو دنیا کے نہایت مردم خیز ملکوں میں سے ہے ، خندہ زن ہے یعنی ایران کی کمتری پر خندہ زن ہے۔ غالب کے تخیل کی قوت پرواز کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے تخیل میں وہ جنتپوشیدہ تھی ، جس سے دنیا میں قدرت کی بہار نظر آتی ہے۔ ان کی شوخی تحریر میں ایسی زندگی پوشیدہ ہے کہ ان کی بنائی ہوئی تصویر کے ہونٹ بات کرنے کے لیے ملتے نظر آتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ ہونٹ بول پڑیں گے۔ ان کی تصویر میں زندگی سے لبریز ہیں۔ قوت گویائی کو غالب کے لیے انجاز پر سوتاز ہیں، گو یا قوت گویائی غالب کے جادو جگانے والے ہونٹوں پر اتر آتی ہے۔ایک بڑے شاعر کے اثرات صرف اس کے زمانے اور بعد والے زمانے کی شاعری تک محدود نہیں ہوتے۔ ایک بڑا شاعر اپنے زمانے کے بعد والے زمانے کے سماجی اور سیاسی افکار کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ چنانچہ اس کلیسے کی ایک مثال اور غالبا پہلی مثال غالب کے ہاں ملتی ہے۔ اردو شاعری میں یہ کلیہ صدیوں سے چلا آرہا تھا کہ جو تم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا۔ اس کے مقابلے میں فیض کا یہ موقف (Stand) تو بہت بعد میں آیا کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ اس سے پہلے غالب نے غم جاناں کے مقابلے پر غم دوراں کی برتری کا بھی اعتراف کیا :
تم زمانہ نے جھاڑی نشاط عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذت الم آگے
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
ترقی پسند شعراء پر غالب کے اثرات
جب اردو ادب کی ترقی پسند تحریک بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں داخل ہوئی تو غم جاناں پر غم دوراں کو ترجیح دی جانے لگی۔ لوگ یہ محسوس کرنے لگے کہ نشاط عشق کی مستی یا لذت الم کے مقابلے میں غم زمانہ ایک مضبوط تر قوت ہے، جو انسانی زندگی کی تشکیل میں حصہ لیتی ہے۔ اس انداز فکر کو چوتھے عشرے کے ابھرتے ہوئے ترقی پسند شاعرفیض کے ان دو مصرعوں والی نظموں سے بڑے تقویت ملی۔ (1) اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ (۲) مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ ۔ اور جب سے اب تک غم جاناں پر غم دوراں کی برتری مسلم ہے۔ اس طرح غالب نے بیسویں صدی کے آخری ساٹھ سال کے دوران میں ایک اجتماعی فکر کے مقبول عام ہونے کی راہ ہموار کی۔ اب یہ انداز فکر اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں کہ اسے مقبول عام بنانے میں غالب اور فیض کا کتنا حصہ ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں