خواتین ادب کا دوسرا دور
خواتین ادب کا دوسرا اور اہم دور تقریباً بیسویں صدی کی تیسری دہائ سے شروع ہوتا ہے اور تقسیم ملک کہ واقعہ کو اس کی آخری حد مانا جاتا ہے۔ اس دور میں کئی خواتین ابھر کر سامنے آئیں جنھوں نے نہ صرف اردو افسانہ نگاروں میں اپنا نام روشن کیا بلکہ افسانہ نگاری کے میدان کو بھی وسیع کیا۔
موضوعات کی فہرست
اردو افسانے کا ارتقائی سفر
اردو افسانے کے سفر میں یہ دور خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہی وہ زمانہ ہے جہاں دنیاوی انقلابات نے ادب کے تصورات اور ادیبوں کے نظریات میں تغیر و تبدیلی پیدا کی، اور ادب کو نئے معنی و مفہوم عطا کیے۔
1930 کی دہائی اور ترقی پسند ادب
1930 میں سارے مغربی ممالک معاشی و سیاسی مشکلات سے دوچار تھے۔ مغرب اور مشرق میں ان وجوہات کی بنا پر ایک زبردست بحران برپا ہوگیا۔ ان حالات میں ایک ایسا ادب درکار تھا جو عوام میں انقلابی جذبہ ابھار سکے۔ ترقی پسند ادب اس کوشش میں نمودار ہوا۔ دراصل اس ادب کا بنیادی مقصد ادب برائے زندگی اور ادب برائے عوام تھا۔
ترقی پسند تحریک اور افسانہ
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر آنے والے افسانے معاشرتی، اجتماعی اور انفرادی زندگی کے عکاس بنے۔ ترقی پسند ادب کو حقیقی زندگی کا عکاس اور سماج کی اصلاح کا ذریعہ بنایا گیا۔
ادبی رجحانات اور حقیقت نگاری
ترقی پسند افسانہ نگاروں نے افسانوی ادب پر چھائی ہوئی رومانیت کے اثرات سے انحراف کرکے حقیقت نگاری پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ افسانے میں رائج تمہید، طویل منظر نگاری، جزئیات نگاری، الفاظ کی حسن کاری، بےجا تفصیل اور فلسفیانہ و شاعرانہ طرز اظہار کو ترک کرکے افسانے میں بنیادی خیال، کردار اور سادہ بیانی کو اہمیت دی گئی۔
"انگارے” اور تحریک کی ابتدا
1932 میں "انگارے” کی اشاعت کو اردو افسانے کی مختصر زندگی کا سنگ میل مانا جاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کی ابتدا "انگارے” کی اشاعت کے بعد ہوئی۔ دس کہانیوں پر مشتمل اس مجموعے میں سجاد ظہیر کی پانچ، رشید جہاں اور احمد علی کی دو دو، اور محمود الظفر کی ایک کہانی شامل ہے۔ ان کہانیوں میں ہندوستان کے سماجی، مذہبی، سیاسی، جنسی اور معاشی حالات کو موضوع بنایا گیا۔
خواتین کی شمولیت
دوسرے ادیبوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا اور ان موضوعات پر لکھنا شروع کیا جو اب تک اردو میں شجر ممنوع کی حیثیت رکھتے تھے۔ خواتین افسانہ نگاروں نے معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعنوانیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ متوسط اور نچلے طبقے کی مسلم عورتوں کی گھٹ گھٹ کر زندہ رہنے والی زندگی کو مؤثر انداز میں پیش کیا۔
اہم خواتین افسانہ نگار
رشید جہاں، صالحہ عابد حسین، رضیہ اجاد ظہیر، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، ممتاز شیریں، سرلادیوی، قرۃالعین حیدر، شکیلہ اختر، ایس رعنا، صدیقہ بیگم، تسنیم سلیم چھتاری جیسی خواتین نے اردو افسانے کو نئی جہت عطا کی۔
بیسویں صدی کا عہد زریں
بیسویں صدی کی تیسری دہائی کو اردو افسانے کا عہد زریں کہا جاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک نے عدم مساوات، مذہبی رواداری، مزدور اور عام آدمی کو افسانے کا موضوع بنایا۔ خواتین افسانہ نگاروں نے بھی حقیقی زندگی کی عکاسی کی اور عورتوں کی حالت و مسائل کو موضوع بنا کر کئی عمدہ افسانے تخلیق کیے۔
اردو افسانے کا عروج
1932 سے 1947 تک اردو افسانے کے عروج کا زمانہ تھا۔ ترقی پسند تحریک نے اردو افسانے کو نئے موضوعات کے ساتھ ساتھ نئے اسالیب سے بھی روشناس کرایا۔ خواتین کے افسانوں میں غیر معمولی تنوع سامنے آیا جس میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا۔
اہم خواتین افسانہ نگار اور صفحات
1. رشید جہاں 151-164 2. صالحہ عابد حسین 165-176 3. رضیہ سجاد ظہیر 177-186 4. شکیلہ اختر 187-192 5. عصمت چغتائی 193-202 6. باجوہ مسرور 203-209 7. خدیجہ مستور 210-217 8. ممتاز شیریں 217-226 9. صدیقہ بیگم 227-238 10. قرۃالعین حیدر 239-248 11. تسنیم سلیم چغتائی 249-255
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: بیسویں صدی کی اہم خواتین افسانہ نگار
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: آمنہ خاں
- نگران مقالہ: ڈاکٹر مشیر احمد
- یونیورسٹی: فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگوجز جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی
- صفحہ نمبر: 148,149,150
- آپ تک پہنچانے میں معاون: ام زینب