تلفظ اور لہجہ مکمل بیان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تلفظ اور لہجہ

درست تلفظ کا تعین زبان کے اہم مسائل میں سے ہے۔ معیاری تلفظ وہ ہے جو تعلیم یافتہ افراد اور فصحائے زبان ادا کریں اور جو بازاری و بیرونی اثرات سے پاک ہو۔ تلفظ، صحتِ زبان کی بنیاد ہے۔ درست تلفظ کے بغیر کسی لفظ کا مفہوم پوری طرح سمجھا نہیں جا سکتا۔ تلفظ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں متکلم یا قاری کی زبان میں استعداد کا عکس نظر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو گرائمر

تلفظ کی صحت میں حسن بھی ہے اور افادیت بھی۔ جب تک تلفظ درست نہ ہو، اس وقت تک ابلاغ بھی مؤثر نہیں ہو سکتا۔ بولنے، پڑھنے، بلکہ لکھنے میں بھی تلفظ کی یکساں اہمیت ہے۔ صحتِ تلفظ ہی سے متکلم، مقرر اور قاری کی زبان دانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ تلفظ کے مسائل کا تعلق زیادہ تر عربی و فارسی الفاظ سے ہے۔

فی زمانہ اردو سے عربی و فارسی کا تعلق کمزور ہو گیا ہے اور نصاب میں بھی ان زبانوں کو خاطر خواہ مقام حاصل نہیں، جس کی وجہ سے طلبہ میں وہ استعداد باقی نہیں رہی جو سابق ادوار میں ہوا کرتی تھی۔ اس لیے تلفظ و لہجہ، روزمرہ و محاورہ کے سلسلے میں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو ہجا کی صحیح آوازیں

مشابہ الصوت، مشدد آوازیں، مصمتی خوشے، مصوتوں کی بدلتی ہوئی حالتیں، مصمتوں کی ہکاریت و معکوسیت، انفیت اور لب و لہجے کے مسائل خصوصی توجہ کے طالب ہیں۔

جدید دور میں ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ تلفظ اور لہجے کی درستی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارا الیکٹرانک میڈیا، بالخصوص ٹیلی ویژن، معیاری تلفظ اور لہجہ برقرار نہیں رکھ سکا۔

قرأت میں تلفظ سب سے اہم عنصر ہے۔
تلفظ عربی کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی ہیں: "لفظ کا منہ سے ادا کرنا”۔ اصطلاحاً، حروف کو انفرادی اور لفظ کی مجموعی شکل میں صحیح مخرج سے ادا کرنا اور حرکات و سکنات کا اہتمام کرنا "تلفظ” کہلاتا ہے (فیروز الدین، مولوی الحاج، فیروز اللغات اردو جامع، فیروز سنز، لاہور، ص 375)۔ یعنی کسی لفظ میں شامل ہر صوتیہ (حرف) کو اس کے اصل مقام سے نکالا جائے اور اعراب کا لحاظ رکھتے ہوئے بولا جائے۔

تلفظ دو طرح سے بگڑتا ہے

1۔ حروف کو صحیح مخرج سے ادا نہ کرنے سے
2۔ حروف کی حرکات بدل دینے سے

عمومًا مشابہ الصوت آوازوں کی ادائیگی میں امتیاز نہیں برتا جاتا۔ مثلاً:

ا اور ع میں فرق

ت اور ط: ت کا تلفظ تو واضح ہے، لیکن ط کے تلفظ میں احتیاط کی ضرورت ہے

ث، س، ص: ث اور س کا فرق لطیف ہوتا ہے، لیکن ص کو واضح ادا کرنا ضروری ہے

ذ، ز، ض، ظ: ض اور ظ کے تلفظ میں بھی احتیاط ضروری ہے تاکہ وہ ز سے ممیز رہیں

ژ (زائے فارسی) کی آواز کو عموماً غلط ادا کیا جاتا ہے، جیسے "ٹیلی ویژن” کو "ٹیلی ویزن” پڑھنا

اس کے علاوہ:

ش کا س سے،

ق کا ک سے،

غ کا گ سے تبادلہ،

مادری زبان کی صوتی عادات کے زیرِ اثر دیگر اغلاط

تلفظ کے مسائل کی دو اقسام ہیں

قیاسی

ایسے الفاظ جو کسی صرفی قاعدے کے مطابق ترکیب پاتے ہیں، بالخصوص عربی و فارسی الفاظ، جن کے متعلقہ اوزان اور ساخت کے قواعد سے واقفیت ہو تو تلفظ کی درستی میں آسانی ہو جاتی ہے۔

سماعی

ایسے الفاظ جن کا تلفظ کسی اصول کے تابع نہیں ہوتا بلکہ صرف سماع پر موقوف ہوتا ہے۔ ان کے درست تلفظ کے لیے اہلِ زبان کا طرزِ استعمال معیار مانا جاتا ہے۔

عربی کے چند معروف اوزان کی مثالیں:

فَعْل: قَرض، شَرط، فَرْض

فِعْل: شِعْر، عِلْم، فِكْر

فُعْل: شُکْر، کُفْر

فَعَلْ: طَلَب، عَمَل، خَطَر

فِعَلْ: كِبَر، نِعَم، ثِقَل

فارسی الفاظ میں غلطیوں کی مثالیں:

افشاندن (چھڑکنا) → گل افشانی کو گل اِفشانی کہنا

افگندن (پھینکنا) → ناوک فَگَن کو ناوک فِگَن کہنا

دیگر مصادر: پختن → دم پخت، تپیدن → تپش، جنبیدن → جنبش، شگافتن → شگاف

کردن → شورش کُن، کشیدن → لشکر کشی، گزیدن → برگزیدہ، خلوت گزین وغیرہ

اگر فارسی مصادر کو پیش نظر رکھا جائے تو ان مرکبات کی درستی میں آسانی رہتی ہے۔

دیگر زبانوں کا اثر

اردو نے عربی، فارسی، انگریزی، ترکی، ہندی، سنسکرت اور دیگر زبانوں کے الفاظ کو اپنے مزاج کے مطابق تلفظ و ساخت میں ڈھالا ہے۔

تلفظ کے ساتھ "لہجہ” بھی بیان کا ایک اہم عنصر ہے۔
لہجہ، آواز کے زیر و بم کا نام ہے، جو کسی لفظ یا جملے کے کسی حصے کو زور یا نرمی کے ساتھ ادا کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ گفتار کی حلاوت، صحتِ تلفظ اور نجابتِ لہجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔

بول چال میں لہجے کی بہت اہمیت ہے۔ مفہوم کا دار و مدار محض الفاظ پر نہیں بلکہ ان کے ادا کرنے کے انداز پر بھی ہوتا ہے۔ کلام کی معنویت، لہجے کی نرمی، سختی، زور، آہنگ اور اندازِ گفتگو سے ابھرتی ہے۔

لہجہ بدلنے سے کبھی استفہام، کبھی نفی، کبھی تاکید اور کبھی تعجب کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک ہی جملے کا لہجہ اگر بیانیہ ہو تو الگ مفہوم دے گا، استفہامیہ یا دعائیہ ہو تو الگ۔ خوشی، غم، حیرت اور ندا جیسے جذبات لہجے کے زیر و بم سے ظاہر کیے جاتے ہیں۔

اردو میں اس حوالے سے کوئی ایسی لغت موجود نہیں، جو رہنمائی فراہم کرے۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں ہر لفظ کا لہجہ متعین کیا گیا ہے۔ اردو کے صوتی نظام کی بنیاد پر بھی ایسی لغت تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ابلاغ اور جسمانی حرکات

ہم اپنے خیالات، جذبات اور مہارتوں کا ابلاغ صرف زبان سے نہیں بلکہ جسمانی حرکات، چہرے کے تاثرات اور اشارات سے بھی کرتے ہیں۔ غیر ارادی حرکات جیسے آنکھیں ملنا، سر کھجانا، ہونٹوں پر زبان پھیرنا، غیر ضروری انداز میں بازو پھیلانا یا بات کرتے وقت آنکھیں بند کرنا، شخصیت کے کمزور پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں۔

اسی طرح بے حرکت ہونا بھی غیر معمولی کیفیت کی علامت ہو سکتا ہے۔

مہذب معاشروں میں جسمانی زبان (Body Language) کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ ہمیں بھی اپنی گفتگو کو مؤثر بنانے کے لیے اس پہلو پر بھرپور توجہ دینی چاہیے تاکہ ہمارا ابلاغ دلنشین اور مؤثر ہو۔

حواشی

پروف ریڈر: اقصٰی سیف الله
موضوع کا نام: 4۔ تلفظ اور لہجہ
کتاب کا نام: اردو زبان: قواعد و املا
کورس کوڈ: 9010
صفحہ نمبر: 25 تا 28
مرتب کردہ: زائرہ تسنیم

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں