تبصرہ نگاری کی روایت

تبصرہ نگاری کی روایت

تبصرہ نگاری کی روایت ، اردو ادب میں تبصرہ نگاری کی روایت انگریزی سے آئی۔ انگریزی میں تبصرہ نگاری کی تاریخ کا آغاز انگریزی ادب کے اہم اور مقبول جریدے Edinburgh Review and Critical Journal ” کی اشاعت ۱۸۰۲ء سے ہوا۔ اس میں دیگر تحریروں کے علاوہ معیاری تبصرے خصوصی طور پر شائع ہوتے تھے۔

اس کی تقلید میں کچھ مزید هفت روزہ و ماہ نامے اور سہ ماہی رسالے جاری ہوئے جنھوں نے تبصرہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس میں جدتیں پیدا کیں۔ ایسے رسالوں میں درج ذیل قابل ذکر ہیں :

Blackwood’s Magazine

The Quarterly Review

Sunday Review

Spectator

Nation

Times Literary Supplement Weekly

Atlantic Monthly

۱۸۹۶ء میں امریکہ سے شائع ہونے والے معروف رسالے ” New York Times اور دوسرے جرائد میں تازہ مطبوعات پر تبصروں کی اشاعت سے تبصرہ نگاری کے فن کو تقویت ملی ۔ امریکی روز ناموں ، ہفت روزہ اور دوسرے جریددوں کے ادبی صفحات میں بھی تبصرہ نگاری کا چلن عام تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت پختہ ہوتی چلی گئی اور اس وقت یہ صنف پوری طرح اپنے قدم جما چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تبصرہ کی تعریف و تفہیم

عربی اور یورپی تبصرہ نگاری؛ موازنہ :
ڈاکٹر انصاری کا موقف ہے کہ عربی زبان میں تبصرہ نگاری کی روایت مغربی زبانوں سے قدیم ہے، وہ لکھتے ہیں:

"حیرت نہ ہونی چاہیے اگر ہم صاف لفظوں میں کہیں کہ عربی میں تبصرے اور علمی رائے زنی کی عمر یورپی زبانوں سے زیادہ ہے”۔

کلاسیکی کتابوں کے حواشی تعلیقات ، یہاں تک کہ شرحوں میں کئی کئی سو سال پرانے تبصرے پڑھنے کو ملتے ہیں اور اصل عبارت میں موشگافیوں کے ساتھ شارحین بعض اوقات گھما پھرا کر رائے زنی بھی کر جاتے ہیں ۔ ہمارے زمانے میں جب عربی صحافت نے نیا رنگ روپ نکالا، انگریزی اور فرینچ کے نشانوں پر قدم اٹھایا تو تبصروں میں ، وقت کے بعض انقلابی دانش وروں کے دم سے جان پڑ گئی۔

یہ بھی پڑھیں: تبصرہ کی اہمیت اور افادیت | pdf

بیسویں صدی کی تبصرہ نگاری:

بیسویں صدی کی دوسری تیسری دہائی نئے قسم کے عربی تبصرہ نگاری کے لیے سازگار ثابت ہوئی ۔ جو عرب اہل قلم ہماری صدی کے نصف اول میں راج کرتے رہے ہیں، ان میں بہ شمول جرجی زیدان، طه حسین، احمد امین، محمد عبده، مصطفی محمود عقاد اور محمد حسین ہیکل برسوں نئی کتابوں، رسالوں پر تبصرے لکھتے رہے۔ “ (1)

اردو میں تبصرہ نگاری:
اردو میں تبصرہ نگاری کے آغاز کا سہرا سر سید اور ان کے رفقا کے سر سجتا ہے۔ ان ادبا نے اردو میں تبصرہ نگاری کا صرف آغاز ہی نہیں کیا، بلکہ اسے عروج تک پہنچانے میں بھی اہم کردارادا کیا۔ بہ قول ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری

اردو میں تبصرہ نگاری دبستان سرسید کی دین ہے۔ سرسید اور ان کے رفقا کو جدید اردو ادب کی مختلف جہتوں پر اولیت کا شرف حاصل ہے ۔ ان ہی حضرات نے اردو تبصرہ نگاری کو حیات نو بخشی۔

مولانا حالی، علامہ شبلی ، نواب صدر یار جنگ، مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی، مولوی چراغ علی وغیرہ نے معاصر مطبوعات پر علمی و ادبی تبصرے لکھے، جن میں ان کے مشمولات سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ان کی ادبی شان مسلم ہے۔

ان میں سے بیشتر میں طوالت پائی جاتی ہے، جس کا اصل سبب یہ ہے کہ ان حضرات کے نزدیک تبصرہ نگاری کا کام زیر تبصرہ کتاب کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنا اور مصنف کے زاویہ نظر کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہوتا تھا۔ (۷)

یہ بھی پڑھیں: رشید حسن خان کے تبصرے اور تجزیے | PDF

عبد الحلیم شرر کی تبصرہ نگاری کے حوالہ سے خدمات ؛

عبدالحلیم شرر نے ۱۸۹۷ء میں حیدر آباد سے ایک رسالے دلگداز کا اجرا کیا۔ اس کے مختلف شماروں میں کتابوں اور رسالوں پر تبصرے شائع ہوتے رہے ۔ دلگداز کا اشاریہ محمد قمر سلیم نے مرتب کیا ہے، جس میں "تبصرے” کے عنوان سے اس میں شائع ہونے والے تبصروں کی تفصیل مل جاتی ہے۔

مولوی عبد الحق کی تبصرہ نگاری پہ خدمات کا سلسلہ ؛
مولوی عبدالحق نے اپنے سہ ماہی رسالے "اردو ” میں تبصروں کے لیے ایک الگ گوشہ مختص کر رکھا تھا۔ اس میں غیر جانب دارانہ آرا پر مشتمل بے لاگ تبصرے شائع ہوتے رہے۔

مولوی عبدالحق نے اردو میں تبصرہ نگاری کی روایت کونئی جہتوں سے آشنا کر کے ان میں تنقیدی پہلو کو بھی شامل کر دیا۔ مولوی عبدالحق اور ان کے رسالے میں تبصری نگاری کے بارے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:

ڈاکٹر عبد الحق نے خصوصیت کے ساتھ اس طرف توجہ کی ہے۔ بے لاگ تبصرہ نگاری میں وہ اور ان کا رسالہ اردو جس میں ان کے تبصرے شائع ہوتے رہتے ہیں ، ان دونوں کو اہمیت حاصل ہے۔

ڈاکٹر عبد الحق اپنی تبصرہ نگاری میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیتے ہیں اور زیر تبصرہ کتاب کے تمام پہلوؤں پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں کہ کتاب پڑھے بغیر بھی اس پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔ سب سے بڑی خصوصیت ان کی تبصرہ نگاری کی یہی ہے کہ وہ بے لاگ رائے دیتے ہیں ۔ (۸)

سید سلیمان ندوی اور تبصرہ نگاری

علامہ سید سلیمان ندوی نے اعظم گڑھ سے شائع ہونے والے رسالے "معارف میں نئی مطبوعات پر معیاری تبصروں کے ذریعے تبصرہ نگاری کے فن کو ترقی دی۔

تصرہ نگار اور تبصرہ نگاری

ان کے علاوہ نیاز فتح پوری کے رسالے نگار کا نام بھی تبصرہ نگاری کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا اجراء ۱۹۲۲ء میں آگرہ سے ہوا۔ اس رسالے میں شائع ہونے والی ہر تحریر کو سند کا درجہ حاصل رہا، یہی وجہ ہے کہ اس میں شامل تبصرے بھی انتہائی معیاری اور ادبی نوعیت کے ہوتے تھے۔

ہندوستان میں تبصرہ نگاری پہ کام

ان کے علاوہ ہندوستان سے وقتاً فوقتاً شائع ہونے والے جریدے شب خون (آلہ آباد) ، نوائے ادب (بیتی)، اردو بک ریویو ( دہلی )، اندازے ( آلہ آباد) مبصر (حیدر آباد) وغیرہ اہم رسالے ہیں، جنھوں نے تبصرہ نگاری کےفن کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان میں سے شب خون میں شائع ہونے والے ۲۰ شماروں کے تبصروں کو فاروقی کے تبصرے کے عنوان سے ۱۹۷۸ ء میں کتابی صورت دی گئی۔

ایک اہم رسالہ معاصر تھا، جو نومبر ۱۹۴۰ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ تبصرہ نگاری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں شامل تبصروں کے بارے میں ڈاکٹر محمد نور اسلام لکھتے ہیں:

معاصر میں تازہ کتابوں اور رسالوں پر تبصرے بھی شائع ہوتے تھے۔ اس کے مختلف شماروں میں مجموعی طور پر ۷۲ کتابوں پر تبصرے شائع ہوئے ۔ تبصرے بہت جان دار ہیں۔ ان میں حسن اور قبح دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اردو میں تبصرہ نگاری کا معیار

اردو میں تبصرہ نگاری کا معیار عام طور پر بلند نہیں ہے۔ تبصرے عام طور پر خوش عقیدگی پر مبنی ہوتے ہیں، جن میں تخلیق اور تخلیق کار دونوں کی خوبیوں کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ پیش نہیں کیا جاتا ۔

انگریزی میں تبصرہ نگاری کا معیار اور "معاصر” :
اردو کے برخلاف دوسری زبانوں میں بالخصوص انگریزی زبان میں تبصرہ نگاری کا معیار بہت بلند اور ترقی یافتہ شکل میں ہے ۔ وہاں بے لاگ تبصرے ہوتے ہیں اور مطبوعات کی خوبیوں اور خامیوں دونوں پر بھر پور روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یہی خصوصیت معاصر میں شائع ہونے والے تبصروں میں بھی پائی جاتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ معاصر نے اردو میں تبصرہ نگاری کو ایک فن کی حیثیت دی تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا۔

خصوصیت سے جو تبصرے جناب اختر اورینوی ، قاضی عبد الودود، عبد المنان بیدل اور عطا کاکوری نے تحریر کیے ہیں، وہ اپنی غیر جانب داری اور بے لاگ رائے کے سبب تو اہم ہیں ہی، ادبی اعتبار سے بھی ان کا مقام بہت اعلیٰ ہے۔

پاکستان میں تبصرہ نگاری

قاضی عبد الودود

قاضی عبد الودود نے جس شرح و بسط سے زیر تبصرہ و مطبوعات کی جزئیات تک پر روشنی ڈالی ہے، وہ کم از کم اردو زبان میں نادر الوجود ہے۔ عموماً تبصروں کی اہمیت اور افادیت محض وقتی ہوتی ہے، لیکن معاصر میں شائع شدہ تبصروں کی اہمیت دائمی ہے۔ (۹)

قاضی عبدالودود کی دو کتابیں "عیارستان اور اشتر و سوزن” مختلف کتابوں پر طویل تبصروں کا حاصل ہیں لیکن ان میں زیادہ تر تحقیقی اغلاط پر گرفت کی گئی ہے۔ تقریبا دو سو کتابوں اور رسالوں پر لکھے گئے تبصروں پر مشتمل ہے۔

انصاری اور تبصرہ نگاری

انصاری کی "کتاب شناسی” بھی تبصرہ نگاری کی روایت کا حصہ ہے، جو ۱۹۸۱ء میں بمبئی سے شائع ہوئی۔ ان کے علاوہ بھی کئی رسائل نے تبصرہ نگاری کے فن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

ابتدائی تبصرے اور قارئین کے رجحانات

اردو میں ابتدائی تبصرہ نگاروں نے بے لاگ تبصرے لکھ کر اس فن کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا۔ ان کے تبصروں کی بنیاد پر قارئین کتابیں خریدتے، جن کی وجہ سے کتابیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتیں۔ تبصرہ نگاری کے اس ابتدائی دور کو اردو تبصرہ نگاری کا زریں عہد کہا جا سکتا ہے۔

پروف ریڈنگ: وقار حسین

حواشی

موضوع ۔۔۔{تبصرہ نگاری کی روایت}
کتاب کا نام ۔۔۔{تحریر و انشاء}
کوڈ نمبر ۔۔۔{9008}
مرتب کردہ ۔۔۔{عارفہ راز}
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں