تبصرہ نگار کے اوصاف
تبصرہ نگار کے اوصاف، کسی فن پارے پر تبصرہ کرنے والا تبصرہ نگار کہلاتا ہے۔ تبر ہ نگار کسی بھی تخلیق یا تصنیف پر اپنے تجرے کے ذریعے قارئین کی توجہ مبذول کروا کر اس کی قدرو قیمت کا تعین کرتا ہے۔ عمدہ تبصرے کسی بھی رسالے یا تمدیدے کو معیاری بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی ساکھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح تبصرہ نگار اپنے ادارے کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تبصرہ کی اہمیت و افادیت
موضوعات کی فہرست
تبصرہ نگاری ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے تجریہ نگار میں درج ذیل اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے تا کہ وہ اس صنف سے انصاف کر سکے۔
فن تبصرہ نگاری سے آشنائی
دنیا کا ہر کام اپنے اصول وضوابط رکھتا ہے، جن پر عمل پیرا ہو کر اس میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔ اسی طرح فن تبر ہ نگاری کے بھی کچھ اصول ہیں جن پر عمل کیے بغیر کیا جانے والا تبصرہ غیر معیاری قرار پائے گا اور اسے کوئی بھی پسند نہیں کرے گا۔
تبصرہ نگار کو کاغذ کے معیار جلد بندی کی اقسام اور خطاطی کے فن سے واقفیت بھی ضروری ہے ۔ وہ تبصرے کے اجزاء سے بھی آگاہ ہونا چاہیے ۔ آج کل تبصرہ نگاری الگ سے ایک شعبہ بن چکی ہے، اس لیے تبصرہ نگار کو اس کے تمام اصولوں اور رموز کا اچھی طرح علم ہونا چاہیے، تا کہ وہ تبصرہ نگاری کا حق ادا کر سکے۔
متعلقہ موضوع پر عبور
ہر شخص ہر موضوع پر تبصرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ موضوعات کی وسعت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مخصوص موضوع کا ماہر شخص ہی متعلقہ کتاب پر تبصرہ کرے۔ سائنسی موضوعات پر تبصرہ کرنے کے لیے سائنس دان ،
ادبی موضوعات پر تبصرہ کرنے کے لیے ادب پر عبور مذہبی کتب پر تبصرہ کے لیے متعلقہ مذہب کی تعلیمات سے آگاہی طبی موضوعات پر چھپنے والی کتابوں پر تبصرے کے لیے علم طب سے واقفیت اور اسی طرح دیگر علوم پر تبصرہ کے لیے ان علوم میں مہارت ضروری ہے۔ یہی مہارت تبرے کو جامع بنا کر قارئین کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنتی ہے لہذا تبصرہ نگار کے لیے متعلقہ موضوع پر عبور اس کا ایک اہم وصف ہے۔
زبان و بیان میں مہارت
تبصرہ نگار کے لیے زبان و بیان کی نزاکتوں کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔ وہ متعلقہ موضوع پر چھپنے والی کتب میں استعمال ہونے والی اصطلاحات مخصوص الفاظ اور تراکیب وغیرہ کو احسن طریقے سے کرے جتنے کا سلیقہ جانتا ہوں ۔ مثال کے طور پر شاعری کی صنف پر تبصرہ کرنے والا شخص رموز شاعری پر مکمل عبور رکھتا ہو علم عروض کا ماہر ہو اور شاعری کے لئے رجحانات اس کی نگاہ میں تازہ ہوں ۔
زبان و بیان پر عبور ہی قارئین کو تبصر و پڑھنے پر مائل کرتا ہے۔ تبصرہ کے لیے استعمال ہونے والی زبان کی گرامر سے واقفیت اور درست املا پر عبور سے تبصر ونگاری میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے، خاص کر ادبی کتب پر تبصرہ کے دوران ان میں استعمال ہونے والی زبان کے عیوب اور محاسن کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے، جو زبان و بیان پر عبور کے بغیر ناممکن ہوتا ہے۔
غیر جانب داری
تبصرہ نگار کے اوصاف میں سے ایک اہم وصف اس کی غیر جانب داری ہے۔ کسی بھی کتاب پر تبصرہ کے دوران میں اسے فریق بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ تبصر ہ نگار کا منصب ایک منصف کا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی فن پارے پر تبصرہ کرتے ہوئے اس میں پائی جانے والی خوبیوں اور خامیوں کو بلا کم وکاست بیان کر دیتا ہے۔ غیر جانب داری تبصرہ کو وقیع بتانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
اگر تبصرہ نگار حقائق سے نظریں چرا کر فن پارے کے عیوب سے صرف نظر کرے گا تو وہ خیانت کا مرتکب قرار پائے گا، اسی طرح فن پارے کے محاسن سے چشم پوشی بھی کسی طرح درست نہیں ہے۔ تبصرہ نگار کو ہمیشہ وہی کچھ بیان کرنا چاہیے، جو حقیقت پر مبنی ہو ۔
اگر وہ اپنی پسند نا پسند کو اولیت دے گا تو اس کے تبصرے کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ اس لیے تبصرہ نگار کو ہمیشہ غیر جانب دار رہنا چاہیے۔
۴۰۵۔ تحقیق و تنقید سے واقفیت
تحقیق وتنقید کے بہ ذات خود اپنے اصول وضوابط ہیں۔ تبصرہ نگار کو ان اصولوں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ کئی محققین تو تبصرے کو تنقید ہی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔ تحقیق و تنقید کے ذریعے فن پارے کے ایسے پہلوؤں کو بھی سامنے لایا جاتا ہے،
جو عام قارئین کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے تبصرے سے فن پارے کی نئی جہتوں سے روشناس کروا کر اس کی اہمیت کو دو چند کر دیتا ہے۔ مغرب میں ایسے ہی تبصروں کی بہ دولت کتابوں کی فروخت میں کئی دو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
وسعت مطالعه
تبصرہ نگار کا مطالعہ وسیع ہونا چاہیے۔ اپنے موضوع سے متعلق شائع ہونے والی معاصر مطبوعات کا مطالعہ ، اس میدان میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرتا ہے۔ کسی بھی علم میں نئی ایجادات سے آگاہی کا ایک بڑا ذریعہ کہلاتا ہے۔
ان کتابوں کا مطالعہ تبصرہ نگار کو خود اعتمادی عطا کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ تبصرہ نگاری سے انصاف کرنے کا متحمل ٹھیرتا ہے۔ اگر وہ معاصر کتب کے مطالعہ سے محروم رہے گا تو وہ اچھا تبصرہ کرنے سے قاصر رہے گا، اس لیے ایک اچھے تبصرہ نگار کا مطالعہ وسیع ہونا چاہیے۔
ہمدردانہ رویہ
تبره نگار کا رویہ ہمیشہ ہمد روانہ ہونا چاہیے ۔ اسے کسی بھی فن پارے کے عیوب بیان کرتے وقت سخت قسم کی عامیانہ باتوں اور طعن و تشنیع سے لبریز جملوں کے استعمال سے احتراز برتنا چاہیے۔
تبصرہ نگاری کسی بھی فن پارے کے بارے میں معلوماتی تحریر ہوتی ہے، اس میں مصنف کی ذات اور اس کے نظریات پر حملے کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ہوتی۔ ہر ملک میں شائع ہونے والی کتابیں ملکی قوانین کو مد نظر رکھ کر طبع کی جاتی ہیں
اس لیے ان میں ایسے نظریات کو شامل نہیں کیا جاتا جو ملکی قوانین کی خلاف ورزی قرار پائیں، لہذا تبصرہ نگار کو بھی ان حدود کا خیال رکھتے ہوئے تبصرہ کرنا چاہیے۔ وہ اپنے اعتراضات کو شائستگی اور ہمدردی کے لہجے میں قارئین تک پہنچائے اور کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے۔
اعتدال و توازن
تبصرہ نگار کو ہر معاملے میں اعتدال و توازن کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اسے کسی بھی فن پارے پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت زیادہ تعریف و توصیف سے بچنا ہوتا ہے ۔ انتہائی شان دار ” سب سے اعلیٰ اپنے عہد کا شاد کار وغیرہ جیسے الفاظ تبصرے کو یک طرفہ بنا دیتے ہیں ۔ اسی طرح فن پارے کے عیوب بیان کرتے ہوئے بھی ایسے الفاظ کے استعمال سے پر ہیز کرنا چاہیے، جن میں مذمت کا انداز پایا جائے۔
تبصرہ تو سادہ سے الفاظ میں کسی بھی فن پارے کا تعارف ہوتا ہے، اس میں طویل بحثوں کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اعتدال و توازن سے تبصرے کی افادیت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور قارئین میں اس کی مقبولیت بڑھ جاتی ہے۔
محمد اسلم ڈوگر نے قوت فیصلہ قوانین سے واقفیت اور پالیسی سے آگاہی کو بھی تبصرہ نویس کے اوصاف میں شامل کیا ہے۔ وہ قوت فیصلہ کے زیر عنوان رقم طراز ہیں:
"تبصرہ نویس کی قوت فیصلہ تیز ہونی چاہیے، اسے کسی فن پارے پر تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ کرنے میں دقت نہیں آنی چاہیے۔ کیوں کہ صحافت میں کام کی تیز رفتاری کی بنا پر وقت کی قلت ہوتی ہے، اس لیے اسے جلد اور درست فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کے متعلق اپنا فیصلہ بیان کرتا ہے تو قارئین یا سامعین اس کے فیصلے کے متعلق بھی اپنا ایک فیصلہ کرتے ہیں "۔(۵)
اسی طرح قوانین سے واقفیت اور پالیسی سے آگاہی بھی تبصرہ نگار کے اوصاف میں شامل کیے گئے ہیں، جن کا زیادہ تر صحافت سے تعلق ہے۔ ادبی لحاظ سے کوئی تبصرہ نگار کسی بھی کتاب کے بارے میں بے لاگ تبصرہ لکھ سکتا ہے اور نہ ایسے تبصرے قارئین کی نظروں میں زیادہ اہمیت حامل ہوتے ہیں۔
حواشی
کتاب کا نام: تحریر و انشا
کوڈ : 9008
صفحہ: 87 تا 90
موضوع: تبصرہ نگار کے اوصاف
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ, پروف ریڈنگ: از نیشا نور