موضوعات کی فہرست
ڈاکٹر تبسم کاشمیری اور اردو شاعری میں علامت نگاری
ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا تعارف
علامت نگاری کے مباحث
اردو ادب میں علامت نگاری کے مباحث کے حوالے سے سمجھنے والوں میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا نام کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ علامت کے ضمن میں ان کا کام بہت وقیع ہے۔ علامت کے حوالے سے مباحث میں ان کی کتاب سے استفادہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ ا
نھوں نے علامت کی ادبی، نفسیاتی، فلسفیانہ وضاحت بھی کر دی ہے اور مغربی مفکرین اور ناقدین سے بھی استفادہ کیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ انسانی ذہن کی علامت سے یہ ہم آہنگی انسان کی فطرت سے قربت اور حسی تجربات کا نتیجہ ہے۔ وہ علامت کی تعریف کے بارے میں کہتے ہیں :
"علامت کسی غیر مرئی حقیقت کا مرئی نشان ہے ۔ یہ مرئی نشان غیر مرئی حقیقت کی نمائندگی کرتا ہے یہ غیر مرئی حقیقت چوں کہ معنی خیزی رکھتی ہے اس لیے اس کے پیچھے گنجلک و پیچیدہ خیالات و محسوسات کا اپنا سلسلہ بنتا ہے
اور علامت ان خیالات کے تصورات ابھارنے کے فرائض اختصاری عمل سے انجام دیتی ہے اور ان تصورات سے جو معنویت و مفہوم مرتب ہوتا ہے وہ ہمیشہ غیر یقینی ہوتا ہے ۔ علامتی معنویت یقینی نہیں ہو سکتی جب معنوی رشتے یقینی ہو جائیں تو علامت ایک روایتی نشان بن جاتی ہے "۔ (۵۲)
علامت کی تعریف اور استعارہ سے فرق
علامت کی اصطلاح استعارہ، تمثیل سے کیسے مختلف ہے اس کی بھی وضاحتیں کتاب میں موجود ہے ہیں تاکہ ادب کا قاری اور ناقد ان اصطلاحات کی وسعت سے آشنا ہو سکیں ۔ استعارہ اور علامت میں بنیادی فرق شے کی نمائندگی کو قرار دیا ہے جو کہ استعارہ کا بنیادی دائرہ ہے ۔
جب کہ علامت کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے ۔ کیوں کہ علامت کے پس منظر میں احساسات و جذبات کا سلسلہ ذہنی تجربے سے وسیع تر ربط رکھتا ہے۔
میرا جی اور جدید علامت نگاری
تبسم کاشمیری کہتے ہیں :
"اردو شاعری میں علامت نگاری کے جدید اسلوب کا آغاز میرا جی سے ص ہوتا ہے "(۵۳)
افتخار جالب کی رائے
افتخار جالب اس کتاب کے بارے میں رقم طراز ہیں :
"تبسم کاشمیری نے بڑی عرق ریزی سے کلاسیکی شعراء کی امیجری کو دیکھا بھالا ہے امیجری کے اس نوع کے مطالعے سے انھوں نے اس تصور کو بہت وضاحت سے پیش کیا کہ امیجری کا مقامیت اور ارضیت سے کتنا گہرا تعلق ہے صرف یہی نہیں انھوں نے اس بات کے حق میں یہ فیصلہ بار بار صادر کیا ہے کہ امیجری کا وہ انتخاب جس کے وسیلے سے مقامیت اور ارضیت تک پہنچا جا سکے ارفع ہے
علامتوں کا مطالعہ تبسم کاشمیری کو تہذیب کے تارپور کی طرف لے گیا ہے اس مقام پر تہذیب اور علامت تقریباً ایک مفہوم میں روح کی لینڈ سکیپ پر کارفرما ہیں "۔ (۵۴)
اقبال پر ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی کتب
اقبال اور نئی قومی ثقافت
۱۹۷۷ء کو اقبال صدی کے موقع پر ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی اقبال کے بارے میں دو کتا ہیں "اقبال اور نئی قومی ثقافت” اور "شعریات اقبال” زیور طباعت سے آراستہ ہوئیں ۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی کتاب "اقبال اور نئی قومی ثقافت” میں اقبال کے تصور قومیت کو برصغیر کی سیاست کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ کتاب اس نظام کو سمجھنا آسان بنا دیتی ہے ۔ کتاب اپنے اندر تازگی و شگفتگی کا پہلو بھی لیے ہوئے اس کے علاوہ قارئین کو سمجھانے کے لیے منطقی دلائل اور معروضی طریقہ کا ر کو اپنایا گیا ہے۔
اقبال، تصور قومیت اور پاکستان
پاکستان میں قومیت کے تصور پاکستان اور پاکستان کے مسائل و افکار پر لکھے گئے اہل دانش و بینش کے۔۔۔۔۔ ص
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اُردو تنقید اور حلقہ ارباب ذوق (70کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاه
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز ، اسلام آباد
- صفحہ نمبر: 286-287
- آپ تک پہنچانے میں معاون: مبشرہ منیر احمد