شبلی کا اسلوب بیان

کتاب کا نام: اسالیب نثر اردو 2
کوڈ: 5609
صفحہ:101
موضوع: شبلی کا اسلوب بیان

مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

شبلی کا اسلوب بیان

جس طرح ہم بعض اوقات ریڈیو میں اپنے دوستوں اور رفیقوں کی آواز کو سن کر یہ کہ اٹھتے ہیں کہ لیجیے الف بول رہے ہیں یا گفتگو فرمارہے ہیں، اسی طرح کسی تحریر کو دیکھ کر ہم بلا تکلف کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں انشا پرداز کی عبارت ہے یا مصنف کا انداز بیان ہے۔
اس راز کا انکشاف ہر مصنف کے مخصوص لب ولہجہ، مرغوب الفاظ اور عبارتوں کے خاص قسم کے پیچ وخم سے ہوتا ہے۔ یہی اس کی انفرادی اور شخصی آواز ہوتی ہے۔

شبلی کے محبوب الفاظ :

مولانا شبلی کی کتابوں کو دیکھیے ۔ ان کے چند جملے اور چند لفظ ایسے ہیں جن سے ان کی تحریر خالی نہ ہوگی ۔ المامون سے لے کر سیرۃ النبی تک اور مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم سے لے کر الندوہ کے مقام تک پر بحث میں ان کے یہ جملے اور یہ لفظ اس قدر تواتر سے ہمارے سامنے آتے ہیں کہ ہم ان کی بدولت شبلی کی تحریروں کو بغیر اشارہ اور رہنمائی کے ہر جگہ پہچاننے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

فخروناز :

شبلی کے مرغوب لفظوں اور جملوں کی فہرست طویل ہے۔ ان میں چند الفاظ ایسے ہیں جو ان کی شخصیت کے لیے کلید یا سراغ (clue) کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلا فخر، ناز، مفاخر ! یہ الفاظ مولانا کی تحریروں میں ایک خاص زندگی اور جوش پیدا کرتے ہیں۔ ان کا استعمال مختلف مختلف پیرایوں اور طریقوں سے ہوا ہے۔ عام سپاٹ انداز میں بھی اور خبر یہ بیانیہ میں بھی۔ طنز اور تعریض موقع پر بھی اور تضحیک و تشخیص کی صورت میں بھی۔ چنانچہ نظر ڈالنے والے کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ شبلی کے لیے یہ الفاظ بنیادی، نفسیاتی اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا ان کے ذہن ونفس کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔

شباب و مستی

فخروناز کے علاوہ شبلی کے مرغوب لفظوں اور جملوں کا ایک سلسلہ اور بھی ہے جو بار باران کی تصانیف میں آتا ہے۔ مثلاً شباب اور مستی ، نشہ ، شراب، انجمن، بہار رنگ اور داستان ۔ اسی طرح چند اور الفاظ مثلاً جوہر، روح اور جان ، ان کے پسندیدہ الفاظ معلوم ہوتے ہیں۔

رفته رفته ، آهسته آهسته:

ان کتابوں میں رفتہ رفتہ آہستہ آہستہ اور دیکھتے دیکھتے اور اس قبیل کی تراکیب بھی کچھ کم نہیں۔

تم کا استعمال :
اسی طرح جب ہم ان کی کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر صفحے پر ذیل کے جملے، ترکیبیں اور الفاظ تکرار موجود ہوتے ہیں ۔
تم جانتے ہو تم کو معلوم ہے تم نے پڑھا ہو گا تم نے دیکھ لیا۔
تم غور کرو، انصاف کر وہ تم قیاس کرو۔
تعجب ہے، عجب بات ہے تعجب در تعجب یہ ہے۔
راز طلسم، نکته ، نکته شناس

ان تکیہ ہائے کلام کی اہمیت :

میں سمجھتا ہوں کہ ان الفاظ کی یہ تکرار بلا سبب اور محض اتفاقی نہیں بلکہ ان میں مصنف کی سیرت اور شخصیت کے بہت سے نقش صورت پذیر ہوتے ہیں۔ اگر شبلی کے اسلوب اور شخصیت کا مختصر جائزہ مطلوب ہو تو بھی چند الفاظ مفصل تجزیے کا بدل بن سکتے ہیں کیونکہ یہی ان کے مصنفانہ لب ولہجہ کے امتیازی نشانات ہیں۔ ہم ان سے قبل کو پہچان سکتے ہیں۔ یہ شبلی کی آواز ہے۔ جس کے ذریعے ان کی شخصیت کا خارجی طور پر ہم سے تعارف ہوتا ہے اور ان کے اسلوب کے بعض خارجی اوصاف بھی ہم پر واضح ہوتے ہیں۔ مگر اسلوب ۔۔ اسلوب اس سے وسیع تر ار مکمل تر چیز ہے۔ آئندہ صفحات میں اس کے سب پہلوؤں سے بحث کی جاتی ہے۔

احساس عظمت کا اثر اسلوب پر

شبلی کے اسلوب کی اولین صفت اس کی وہ قدرت اور جوش ہے جو ان کے احساس کمال اور احساس عظمت کی پیدوار ہے۔ یہ احساس جب کسی مقصد عظیم کے ساتھ مل جاتا ہے تو مصنف کے اظہارات میں غیر معمولی جوش اور قدرت پیدا کر دیتا ہے۔

شبلی کے احساس فخر و برتری کا ایک بڑا سر چشمہ ان کے ہاں لفظی اثرات ہیں۔ راجپوتوں کو اپنی نسلی روایات اور اسلاف کے کارناموں پر بڑا ناز ہوتا ہے۔ غیرت وحمیت کا ایک مخصوص تصور، آن بان اور کچھ کر کے دکھانے کی شان راجپوتوں کی اپنی نسلی روایات پر فخر و ناز ایک راجپوت کو ورثے میں ملتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نسلاً راجپوت تھے۔ اس لیے قدرتی طور پر پینسلی اثر ان کی فطرت میں پایا جاتا ہے۔

ان کی طبیعت کی زود حسی اور احساس نفخر و نا بھی بہت حد تک اس خاص اثر کے طفیل سے ہے اور حق یہ ہے کہ ان عوامل واثرات نے ان کے مصنفانہ رجحانات کو متعین کرنے میں بھی بڑا حصہ لیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اسلاف کی قابل فخر تاریخ کو اپنا موضوع قرار دے کر اپنے لیے جس میدان عمل کا انتخاب کیا وہ بھی در حقیقت ان کے ذہن کے اور فطرت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔

اس جوش فکر کے بعد شبلی کی تصانیف میں جو چیز قاری کو سب سے زیادہ متاثر اور مرعوب کرتی ہے، وہ ان کا وثوق علی النفس اور اپنے فن پر اعتماد کامل اور اپنے مقصد کے برتر اور علی ہونے کا یقین ہے۔ اس کا اظہار عموم اس طریق خطاب سے ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے قاری کو مقصد کے متعلق بالواسطہ توجہ سے باخبر کرنے کے لیے آئے ہیں جس سے ان کے مخاطب یک سو بے خبر ہیں۔ ان کے طریق خطاب سے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے عصر کے برترین ہونے کے علاوہ جس مقصد کی تکمیل کے لئے آئے ہیں اس کی اہمیت کا احساس ان کے مخاطبوں کو حاصل نہیں۔

مولا ناشبلی کا یہ وثوق اور اعتماد ان کی نثر میں بڑی توانائی پیدا کرتا ہے۔ جس کی بنا پر قاری ان کی تصانیف کے ورق در ورق مطالعہ میں بڑے اعتماد اور وثوق کے ساتھ آگے بڑھتا جاتا ہے اور مصنف کی اس برتری کو تسلیم کرتا جاتا ہے، جس کا اعلان تصنیف کے ہر ہر صفحے پر موجود ہے۔
اس کو سمجھنے کے لیے نا کے طریقہ ہائے خطاب پر غور کیجیے۔ ان کے پسند ید یہ طریقہ ہائے خطاب بہت سے ہیں۔ ان میں سے ایک ” تم جانتے ہو بھی ہے۔

مدرسانہ یا خطیبانہ طرز مخاطب اگر چہ برض لطیف طبائع کو نا گوار ہے ۔۔۔ مگر اس جملے کے پردے میں خود اعتمادی کی جو مہیب آو اسنائی دے رہی ہے، اس کے رعب و جلال سے مرعوب نہ ہونا ناممکن ہے۔ شبلی کی تصانیف کا رنگ علمی ہے اور مخاطب تما تر علی طبقے کے لوگ ہیں۔

مگر اس مجمع میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو اپنے سارے عصر کو اپنی خود شناسی اور خود بینی (جو غیر معمولی فطرتوں کا خاصا ہے) کے بل بوتے پر اس طرح خطاب کرتا ہے جس طرح ایک استاد اپنے شاگردوں کوایک خطیبوں ایک عام مجمع کو خطاب کیا کرتا ہے ۔

یہ طرز مخاطب کی مختلف تصانیف میں مختلف صورتیں اختیار کرتا ہے۔ عام استدلالی تحریروں میں تم غور کرو تم قیاس کرو اور تاریخی تنازعات کا فیصلہ کرتے وقت ” تم انصاف کرو“ وغیرہ وغیرہ۔

طرز مخاطب میں اپنے قاری سے ( اور اپنے عصر سے ) اپنے آپ کو برتر رکھنے کا ایک خاص انداز ان کے ہاں یہ بھی ہے کہ وہ قاری کے اپنے علاوہ بعض ایسے انسانوں کا تصور بھی دلاتے ہیں۔

جو ان کی طرح رموز فطرت کے شناسا اور نکات حقیقت کے راز دار ہیں۔ حالانکہ مقصود اس سے بھی یہ ہے کہ ان رازون کو جاننے والے صرف وہی ہیں۔ میرے نزدیک یہ غائبانہ انداز پہلے انداز سے زیادہ مئوثر ہے۔ اس لیے کہ اس میں قاری کا ذہن کسی حد تک مبہوت ہو کر ان برگزیدہ فطرت شناسوں کا پتہ چلانے میں منہمک ہو جاتا ہے جو قدرت کی طرف سے ان اعلیٰ اور برتر حقیقتوں کو سمجنے اور سمجھانے کے لیے دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔

اس صورت میں جہاں قاری کے ذہن کو اپنی بے کسی اور پیچ مقداری کا پورا یقین ہو جاتا ہے، وہاں اس کا بھی پورا اندازہ ہو جاتا ہے کہ مصنف بھی ان فطرت شناسوں میں ہے اور جس راز کا وہ مطالعہ کر رہا ہے، وہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ جو بہت کم لوگوں پر آشکار ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر الفاروق (حصہ دوم) کا آغاز یوں ہوتا ہے:

پہلے حصے میں تم فتوحات کی تفصیل پڑھ آئے ہو۔ اس سے تمہارے دل پر اس عہد کے مسلمانوں کے جوش، ہمت، عزم و استقلال کا قوی اثر پیدا ہوگا۔ لیکن اسلاف کی یہ داستان سننے میں تم نے اس کی پروانہ کی ہوگی کہ واقعات کو فلسفہ تاریخ کی نگاہ سے دیکھا جائے لیکن ایک نکتہ مورخ کے دل میں فورا یہ سوالات پیدا ہوں گے کہ چند صحرانشینوں نے کیونکر فارس و روم کا دفتر الٹ دیا۔

اس عبارت میں مصنف اپنے عصر کو جس میں مخاطب کرتا ہے، ابری کے ۔ سرسلطان کورہ قول کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ مولانا کی تحریروں میں نکتہ نکہ نجی اور کہ اسی کی صفت کو بڑا سراہا گیا ہے۔ مگر جب وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک فلسفیانہ نکتہ ہے کیا نکتہ سنج سمجھ سکتا ہے یا قانون فطرت کے نکتہ شناس جانتے ہیں۔ تو حقیقت میں اپنے علم، ذہانت اور فضیلت کا قاری کو ایک مہم طریق سے جانتے ہیں تو حقیقت میں اپنے علم ، ذہانت اور فضیلت کا قاری کو ایک مہم طریق سے احساس دلاتے ہیں اورقاری ان کے اس انداز سے مرعوب اور مبہوت ہو جاتا ہے اور یہی ان کی نثر کی داخلی قوت کا راز ہے

مولانا کے چند اور جملے بھی ہیں جو انھیں بہت مرغوب ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں انصاف یہ ہے حق یہ ہے نا یہ ہے حقیقت یہ ہے یہ جملے ایک لمبی متنازعہ فیہ بحث کرنے کے بعد جب دفعتا” وارد ہوتے ہیں تو ان کے فیصلے کے آگے قاری اپنا سر جھکا لیتا ہے کیوں کہ وہ اس زور اور قدرت اور وثوق کے ساتھ ادا ہوتے ہیں کہ تسلیم کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

مولانا کو اپنے عصر سے جو مایوسی ہے وہ کسی تبصرے کی محتاج نہیں ۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں بڑے بڑے علماء اور بڑے بڑے فضلاء موجود تھے اور اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو موجودہ دور کے مقابلے میں اس زمانہ کا معیار فضیلت بہت بلند تھا۔ بایں ہمہ مولانا اپنے عصر کی علمی فضیلت سے بہت بدظن اور بدگمان ہیں۔

یہ بدگمانی ( جہاں تک جدید تعلیم یافتہ طبقے کا تعلق ہے ) بے جا بھی نہ تھی مگر عام بد گمانی بظاہر بے محل معلوم ہوتی ہے۔ غالبا اس تصور کی ذمہ داری بھی وہی خود اعتمادی اور خود نگری ہے، جس کا ذکر بالا سطور میں آیا ہے۔؟ تصانیف میں قوم کی بداخلاقی کا تذکرہ کثرت سے ہے اورمقالات میں؟ کا واحد موضوع ہی قوم کی علمی بصیرت اور جہالت ہے ۔ انیس ود بیر کا آغاز یوں ہوتا ہے۔

فلسفہ اور شاعری برابر درجے کی چیزیں ہیں لیکن قوم کی بد مزاجی سے جس قسم کی شاعری نے ملک میں قبول عام حاصل کر لیا، اس نے ان لوگوں کو یقین دلا دیا ہے کہ اردو شاعری میں زلف و خال و خط ۔۔۔ کے سوا اور کچھ نہیں ۔۔۔ قوم کی بد مذاقی کی نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ وہ (انیس ) اور مرزاد پیر حریف مقابل قرار دیے گئے ۔“

یہ صرف ایک مثال ہے۔ قوم کی بدمذاقی کا ماتم ان کی تصانیف میں اس کثرت سے ہے کہ زیادہ مثالوں کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مولانا شبلی کو اپنے مقصد کے برتر اور اعلیٰ ہونے کا پورا پورا یقین تھا کہ اس مقصد کے لیے جس غیر معمولی ذہن اور جس غیر معمولی شخصیت کی ضرورت تھی ، وہ خود ان کی ذات میں موجود ہے۔ یہ شور ان کی تحریروں کے ہر ہر فقرے میں موجود ہے، جس کی وجہ سے ان کی نثر میں انتہا درجے کی صیحیت پیدا ہوگئی ہے۔

اس کی وجہ سے ان کی عبارتوں کا ظاہری منطقی نظام اور ان کی داخلی، فکری تنظیم نہایت مکمل ہو گئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے فقرے ہمیشہ چست اور ان کی عبارتیں اور پیرا گراف بڑے مکمل منظم اور فکری نظم وضبط کے لحاظ سے تحریر کے عملہ نمونے ہوتے ہیں۔ اس علمی اور منطقی عنصر نے ان کی نثر کو رعب اور باوقار بنایا ہے۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں