شکیلہ اختر کی افسانہ نگاری
شکیلہ اختر
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں شکیلہ اختر ایک ایسا معتبر اور کامیاب نام ہے جن کی سربراہی میں خواتین افسانہ نگاروں کا ایک بڑا قافلہ چار دہائیوں تک رواں دواں رہا۔
شکیلہ اختر کو بہار کی پہلی خاتون افسانہ نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ فنی طور پر وہ جس مقام و مرتبے کی حامل ہیں وہ انھیں ایک کامیاب اور بلند پایہ افسانہ نگار ثابت کرتے ہیں۔ ان کے والد کا نام شاہ محمد توحید تھا۔ ان کی شادی مشہور و معروف ادیب و ادب نواز سید اختر احمد اور بینوی سے ہوئی۔
شکیلہ اختر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ گھر کا ماحول ادبی ہونے کی وجہ سے ان میں لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ شکیلہ اختر نے اپنی ادبی زندگی کا با قاعدہ آغاز افسانہ رحمت لکھ کر کیا جو ۱۹۳۶ میں ادب لطیف لاہور میں شائع ہوا۔
انھوں نے ملازمت تو کبھی نہیں کی البتہ مشاغل کی ایک طویل فہرست ہے۔ وہ ریڈیو اسٹیشن کی ایڈوائزری کمیٹی کی کئی سالوں ممبر رہی ہیں۔
برسوں بہار اردو اکادمی کی مجلس عاملہ کی ممبر رہیں اور اس کے کسی نہ کسی شعبہ سے وابستہ رہی ہیں۔ خدا بخش لائبریری پٹنہ کی لائف ممبر اور اس کی خدمت گار بھی تھیں۔
شکیلہ اختر عصمت چغتائی کی طرح اپنے چاہنے والوں میں آپا کہہ کر پکاری جاتی تھیں وہ مشہور افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ ایک ممتاز شاعرہ، بہترین مضمون نگار اور اعلی درجے کی ناول نویس بھی تھیں ۔
ان کا ناول موج اور ساحل بہار پر بیتی ہوئی ۱۹۴۶ کی کہانی ہے جو بہت مقبول ہوئی ۔ شکیلہ اختر نے باضابطہ افسانہ نگاری سے پہلے ادب لطیف جیسے نثر پارے بھی لکھے لیکن ان کا میلان طبع افسانہ نگاری کی طرف تھا۔
لہذا اس میدان میں ایک امتیازی شان کے ساتھ آئیں۔ شکیلہ اختر کے افسانے ہندوستان اور پاکستان کے اہم ادبی رسائل جیسے۔۔ ” ادب لطیف“ لاہور ، "نقوش” لاہور ، ” نیا دور کراچی، شاعر ممبئی ، ” آج کل دہلی، زبان و ادب پٹنہ وغیرہ میں شائع ہوتے تھے۔
ان کے افسانوی مجموعوں کی تعداد چھ ہے جن میں درپن ۱۹۳۷ میں لاہور سے آنکھ مچولی ۱۹۴۰ میں ممبئی سے ڈائن ۱۹۵۲ میں پٹنہ سے آگ اور پھر ۱۹۶۷ میں الہ آباد سے لہو کے مول ۱۹۷۶ میں پٹنہ سے اور آخری سلام ۱۹۸۶ میں لکھنو سے شائع ہوئے۔
ناولٹ کا ایک مجموعہ ” تنکے کا سہارا ۱۹۷۵ میں نصرت پبلی کیشنز لکھنو سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ انھوں نے سہیل عظیم آبادی اور محمد طفیل پر کچھ خاکے ، بچوں کے لیے چند کہانیاں و مضامین اور بہار کے لوک گیتوں پر بھی کچھ مضامین لکھے ہیں۔
اپنے ساٹھ سالہ ادبی سفر میں شکیلہ اختر نے اردو ادب کی جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تو اپنی جگہ مسلم ہے لیکن یہ انھیں کی کوششوں کا ثمرہ کہ بہار کی بہت سی خواتین افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئیں اور بہت جلد افسانوی ادب میں اونچا مقام حاصل کر لیا۔
یہ شکیلہ اختر کے اس پہلے اور قابل ستائش قدم کا نتیجہ ہے کہ آج بہار میں خواتین افسانہ نگاروں کی تعداد، معیار اور خدمات مایوس کن نہیں ہے ۔ قیام نیر فرماتے ہیں:
ہندوستان کی خواتین افسانہ نگاروں میں شکیلہ اختر کا جو مقام حاصل ہے اور جو مقبولیت ملی ہے وہ کسی کو نہیں۔
بہار کی خواتین افسانہ نگاروں میں وہ سب سے زیادہ کامیاب اور بلند پایہ کہانی کار ہیں ۔ فن اور زبان و بیان پر ان کی گرفت کافی مضبوط ہے ۔ ۵۵ سالہ ادبی زندگی میں انھوں نے جو ادبی کارنامے انجام دیئے وہ اپنی جگہ مسلم ہیں لیکن ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بہار میں بہت سی خواتین افسانہ نگار اپنے فن کا جو ہر دکھا رہی ہیں ۔ (۵۰)
شکیلہ اختر نے مسلم متوسط طبقے کی گھریلو زندگی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ ان کا تعلق بہار سے ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کے دیہات خاص طور سے ان کی نگاہوں میں رہے اور زیادہ تر افسانوں میں اسی کی منظر کشی کی گئی ہے۔ دیہی معاشرے کی پیش کش کے حوالے سے ان کے مشاہدے کی گہرائی اور بیان کی سادگی توجہ طلب ہے وہ اپنے گردو پیش کے حالات وکوائف کی رازدار ہیں اور انھیں نہایت خوبصورتی اور سلیقے سے افسانوں میں برتنے کی کوشش کرتی ہیں۔
دراصل شکیلہ اختر کے افسانوں کا پس منظر ہماری روز مرہ زندگی کا نشیب وفراز ہے۔ ارتضی کریم فرماتے ہیں:
شکیلہ اختر صاف ستھرے مگر اہم کیفیات کو اپنے افسانوں میں جگہ دیتی ہیں ۔۔۔۔۔ شکیلہ اختر صاف ستھرے واقعات کے ساتھ ساتھ مخصوص بہاری ماحول اور فضا کی عکاسی میں نہایت
کامیاب ہیں ۔ (۵۱)
شکیلہ اختر ترقی پسند تحریک سے متاثر ضرور تھیں مگر انھوں نے اپنی تحریروں کو اشتراکیت کے نعرے بازی سے پاک رکھا۔ وہ ایک مذہبی خاتون تھیں۔ وہ اپنے ارد گرد جو کچھ بھی دیکھتیں ، جو کمیاں محسوس کرتیں انھیں بڑی فنکاری سے افسانوی شکل میں ڈھال کر قارئین کے سامنے پیش کر دیتیں ۔ شکیلہ اختر نے اپنے
📚 حوالہ جات
مقالے کا عنوان:
بیسوی صدی کی اہم افسانہ نگار خواتین
مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
مقالہ نگار: آمنہ خان
نگران مقالہ: ڈاکٹر مشیر احمد
یونیورسٹی: فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگویجز جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی
صفحہ نمبر:
آپ تک پہنچانے میں معاون: محمد ذیشان