شکیب جلالی میں شاعری میں غم و یاسیت

شکیب جلالی میں شاعری میں غم و یاسیت

شکیب جلالی کی شاعری غم و یاسیت کو پرتاثیر انداز میں بیان کرتی ہے۔ان کے لہجے میں اداسی اور بے چینی ہے۔ میر اور ناصر کاظمی کی سی غمگینی کی پرچھائیاں ان کے شعر میں نظر آتی ہیں مگر ان کا اپنا جداگانہ رنگ ہے۔ اچھوتا انداز پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیے رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شکیب جلالی کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ مقالہ pdf

کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

خموشی بول اٹھے ، ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے

شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے ، پس دیوار گرے

یہ بھی پڑھیں: شکیب جلالی ایک مطالعہ

ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی
آنکھ جھپکی بھی نہیں ، ہاتھ سے پتوار گرے

یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ

ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

حواشی

کتاب کا نام : شعری اصناف ؛ تعارف و تفہیم،کورس کوڈ:9003،موضوع : شکیب جلالی میں شاعری میں غم و یاسیت،صحفہ : 139،مرتب کردہ : سمعیہ بی بی

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں