شہر یار کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ | Shahryar ki shairi ka tanqeedi mutala
نوٹ: یہ تحریر پی ایچ ڈی کے جس مقالے سے لی گئی ہے اس مقالے کا عنوان ہے:Mohammed Alvi Hayat O Khidmat
شہر یار کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ
شجاع خاور کے ہمعصر شعرا میں شہر یار کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا اصل نام کنور محمد اخلاق اور والد کا نام کنور محمد خاں تھا۔ ان کے آبا واجد ادراجپوت تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پرتھوی راج چوہان کے دور میں ان کا خاندان حلقہ بگوش اسلام ہو گیا تھا۔ وہ آنولہ ضلع بریلی اتر پردیش میں 1936 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ہردوئی میں ہوئی۔کیونکہ ان کے والد ہردوئی میں ملازمت کرتے تھے۔ ملازمت کے سبب مختلف شہروں میں ان کے والد کا تبادلہ مختلف مقامات کے لیے ہوتا رہا۔ ملازمت کے بعد شہر یار کے والد نے علی گڑھ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ شہر یار کی اعلی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی ۔ انھوں نے یہیں سے اردو میں ایم اے کیا۔ پھر 1966 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے شعبۂ اردو میں شہر یار نے بخوبی تدریسی فرائض انجام دیے۔لیکن صرف درس و تدریس تک اپنے آپ کو محدود رکھنا انھوں نے گوارا نہ کیا۔ انھوں نے مختلف قسم کی ادبی علمی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ جوڑ لیا۔ ان کی گوناگوں مصروفیات اور سرگرمیوں کے سبب انھیں اہم ذمہ داریاں بھی دی گئیں ۔ جیسا کہ شہر یار کو علی گڑھ یو نیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن کا ایکزیکیوٹ ممبر بنایا گیا ۔ ساہتیہ اکادمی کے بھی وہ جنرل کونسل کے پانچ سال تک ممبر رہے۔ شہر یار این سی ای آر ٹی کی بک کمیٹی کے ممبر بھی نامزد کیے گئے۔ انھوں نے باضابطہ کئی رسائل کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ تین سال تک اردو ادب“ اور ” ہماری زبان کو ترتیب دیا۔ معنی تقسیم کے ساتھ رسالہ شعر و حکمت بھی نکالا ۔ آٹھ سال تک یونیورسٹی کے علمی مجلہ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔ ان کے مضامین ، تجرے، خاکے ،افسانے مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہے۔ گویا کہ شہر یار بیک وقت مصنف، مرتب، مبصر، نقاد، خاکہ نگار، افسانہ نگار اور شاعر تھے لیکن ان سب حیثیتوں میں ان کی سب سے بڑی حیثیت شاعر کی تھی۔ شاعری کے میدان میں انھوں نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شہر یار اپنے عہد کے صف اول کے شاعروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ عوام کے شاعر بھی تھے اور خواص کے بھی۔ ان کی شاعری رسائل و جرائد میں بھی چھپتی تھی اور مشاعروں میں بھی سنی جاتی تھی۔ مشاعروں میں ان کو بڑی۔(صفحہ 65 مکمل)
عزت کے ساتھ بلایا جاتا اور ان کے کلام کو شوق سے سنا جاتا تھا اور دادتحسین سے نوازا جاتا تھا۔ انھوں نے ہندو بیرون ہند منعقد ہونے والے بے شمار مشاعروں میں شرکت کی اور اپنا کلام سنایا۔ مشاعروں کے توسط سے انھوں نے دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر کیا۔ امریکہ، انگلینڈ ، فرانس، قطر، ماریشس، اٹلانٹا ، قطر ، دہی اور پاکستان سمیت درجنوں ممالک میں انھیں مشاعرے پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔جدید شاعری پر جس قدر انتخاب بھی سامنے آئے ہیں۔ان سب میں شہر یار کے کلام کو اہمیت کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ علاوواز میں جدید شاعری کے جن شعرا پر ناقدین نے تنقیدی کام کیسے ہیں، ان میں بھی شہر یار سر فہرست ہیں۔ ان کی شاعری پر بہت سے تنقیدی مضامین لکھے گئے ہیں۔ ایک عرصے سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ جو شاعر مقبول عام ہوتا ہے اور اچھی شاعری کرتا ہے تو فلمی دنیا سے وابستہ لوگ اس کو فلموں کے نغمے لکھنے کے لیے منتخب کر لیتے ہیں ۔ اس طور پر اردو کے بہت سے اہم شعر افلم انڈسٹری سے منسلک ہوئے ۔ ان میں ایک نام شہر یار کا بھی ہے جنھوں نے فلموں کے لیے بھی شاعری کی۔ اس تفصیل سے یہ انداز و باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ شہر یار کی شاعری کی گونج مختلف طبقات اور مقامات کی فضاؤں میں گونجتی رہی۔ شہر یار کے کاموں کے حوالے سے ان کی مقبولیت کا جائزہ لیتے ہوئے ساجد حسین رقمطراز ہیں:
"چھ مجموعے اور ایک ضخیم کلیات کا شائع ہونا اس حقیقت کا مترشح ثبوت ہے کہ جدید اردو شاعری میں ایک اہم ستون کی حیثیت سے لوگ شہر یار کی شاعری کو پڑھتے ہیں اور ان کے کلام کی پذیرائی کرتے ہیں۔ شہر یار کا کلام صرف اردو حلقوں تک محدود نہیں بلکہ ہندی داں حضرات بھی ان کے کارناموں سے بخوبی واقف اور ان کے کلام سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ پہلی یہ کہ فلم کی وجہ سے ان کے نغمے ہر خاص و عام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور دوسری یہ کہ شہر یار نے اپنا بیشتر کلام دیوناگری میں منتقل (66صفحہ مکمل)
کرایا ہے "۔ (۲۰)
شہر یار کا پہلا مجموعہ اسم اعظم 1965 میں شائع ہوا۔ کیونکہ شہر یار کی پہلی غزل کراچی کے ایک رسالے مشرب میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے وہ باقاعدگی سے شاعری کرتے رہے۔ اس مجموعے کی اشاعت کے بعد شہر یار کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا اور معتبریت میں بھی ۔ بڑے بڑے ادبا، شعرا اور ناقدین و مبصرین نے ان کے اس مجموعے پر تبصرے لکھے، تنقید کی کسوٹی پر اسے پر کھا اور اس کی تعریفیں کیں۔ جن شخصیات نے اس مجموعے پر اپنے مثبت تاثرات کا اظہار کیا ، ان میں ن۔م راشد، اعجاز حسین ، گیان چند جین، فراق گورکھپوری ، اختر الایمان عمیق حنفی، نورالحسن ہاشمی، گوپی چند نارنگ اور مظفر حنفی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔اسم اعظم کی اشاعت کے محض چار سال بعد شہر یار کا دوسرا مجموعہ ساتواں در 1969 میں منظر عام پر آیا۔ اسے بھی بہت پسند کیا گیا۔ پھر تقریبا ایک دہائی کے بعد 1978 میں تیسرا شعری مجموعہ ہجر کے موسم شائع ہوا۔ چوتھا مجموعہ خواب کا در بند ہے 1985 میں اور پانچواں مجموعہ نیند کی کرچیں 1995 میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے پر بنگال اردو اکادمی نے پرویز شاہدی ایوارڈ سے شہر یار کو سرفراز کیا۔ اس کے بعد شہر یار کی شاعری کا انتخاب میرے حصے کی زمیں (حصہ اول ) 1999 میں شائع کیا گیا جس کے بارے میں ابوالکلام قاسمی نے لکھا:
"زیر نظر انتخاب میرے حصے کی زمیں دراصل شہر یار کی غزلوں کا جامع انتخاب بھی ہے اور غزلوں کا کلیات بھی۔ اس کتاب میں شامل غزلیں شہر یار کی غزلوں اسم اعظم سے لے کر نیند کی کرچیں، تک کی غزلیہ شاعری کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ مجموعہ کلیات کی جلد اول بھی ہے اور شہر یار کی غزلیہ شاعری کا ارتقائی منزلوں کا نمائندو بھی۔ اس مجموعے میں شامل غزلوں کے ارتقاء کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ شہر یار کے شعری سفر کے مختلف پڑاؤ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے بلکہ موضوعات اور طرز اظہار کے تنوع کا بھی "۔ (۲۱)
(67 صفحہ مکمل)
شہر یار جتنے بڑے شاعر غزل کے ہیں اتنے ہی بڑے شاعر نظم کے بھی ہیں بلکہ نظم میں ان کی شاعری کا فن اور زیادہ عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظموں نے سامعین اور قارئین کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کیا اور سوچنے پر مجبور کر دیا۔ شہر یار کی نظمیہ شاعری کے حوالے سے تمام اہم ناقدوں نے گفتگو کی ہے اور باضابطہ ان کی نظموں پر ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے۔ نظموں کے علاوہ انھوں نے کچھ دو ہے بھی کہے ہیں لیکن غزل اور نظم ان کی شاعری کے بنیادی ستون ہیں۔ شہر یار کی نظمیہ شاعری کا جائزہ لینے سے پہلے ان کی غزلیہ شاعری پر بات کرتے ہوئے پہلے ان کی غزلوں کےچند یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے چلو دیکھ لی دنیا ہم نے
پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات
یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات
یہ جب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا
(68 صفحہ مکمل)
دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا
ترے وعدے کو کبھی جھوٹ نہیں سمجھوں گا
آج کی رات بھی دروازہ کھلا رکھوں گا
میں روح کے حصار میں محصور ہوں ابھی
وہ روح کی حدوں سے بھی آگے چلا گیا
ایسے اشعار شہریار کی شاعری میں جابجا نظر آتے ہیں جو براہ راست قاری کے ذہن اور سماعت کو اپنے سحر کا قیدی بنا لیتے ہیں۔ ان اشعار کے حوالے سے پہلی بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ ان میں بلا کی تاثیر اور غنائیت ہے۔ نمکیت و تاثر کا جادو اشعار کے رگ وریشے میں پیوست نظر آتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اشعار کی اوٹ سے شاعر جھانک رہا ہے۔ یعنی شاعر کی زندگی کا مکس شعروں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر ہم ان اشعار کو داخلیت کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔ تیسری بات اشعار کی زبان ہے جو بڑی شستہ اور شائستہ ہے۔ زبان سادہ ہے مگر چاشنی بھر پور ہے ۔ فطری حسن لیے ہوئے الفاظ اپنے ندر مغناطیسی کیفیت رکھتے ہیں۔ زبان پر تیل نہیں۔ آسانی سے جاری ہو جاتے ہیں اور ذہن و قلب کے اندر دھیمے دھیمے اتر جاتے ہیں۔ چوتھی بات ان اشعار کے حوالے سے یہ کہی جاسکتی ہے کہ اشعار اشاروں اور کنایوں کے لبادے میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ شاعر اپنی بات کہہ رہا ہے مگر قرینے اور سلیقے کے ساتھ جس کی اچھی شاعری ہمیشہ متقاضی رہی ہے اور رہے گی ۔ پانچویں بات یہ ہے کہ اشعار معنونیت سے پر ہیں۔ ہر شعر اپنے اندر ایک گہرا مفہوم رکھتا ہے جس تک دماغ پر ہلکا زور دے کر پہنچا جا سکتا ہے۔ ان سب چیزوں کے ساتھ ایک اور بات جس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا وہ یہ ہے کہ شہر یار کے یہ اشعار اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ شہریار کی شاعری کے چند اشعار کے اس جائزے کو ان کی غزلیہ شاعری کا جائزہ کہا
(69 صفحہ مکمل)
جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ سچ ہے کہ دیگ کے دو چار چاول چکھ کر پوری دیگ کے تمام چاولوں کی کیفیت اور ذائقے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہےمختصر سے مضمون میں ایک عظیم شاعر کی عظیم شاعری کو جاننے کے لیے یہ فارمولہ اپنا ضروری
بھی ہے اور مجبوری بھی۔شہر یار کی نظمیہ شاعری سے براہ راست رابطے کے لیے ان کی ایک دو نظموں کو سامنے رکھتے ہیں۔ اسم اعظم کی ایک نظم موت ملاحظہ فرمائیں :
ابھی نہیں ابھی زنجیر خواب برہم ہے
ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے
ابھی نہیں ابھی در باز ہے امیدوں کا
ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے
ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے
ابھی نہیں ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے
( شهر اعظم ، از شہر یار، ص 17)
اس مجموعے کی ایک نظم آخر شب دیکھیں:
کوئی صورت ہو الزام کی دوستو
رہ چکی ہے کسی شام کی دوستو
بجھ چکی چاندنی بام کی دوستو
وعده عبد و پیمان کچھ بھی نہیں
دل بہلنے کا سامان کچھ بھی نہیں
چشم خونبار میں خواب اترے کوئی
(70 صفحہ مکمل)
آخر شب ہے مہتاب ابھرے کوئی
(اسم اعظم ہیں : 21)
ان نظموں کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے جیسی ان کی غزلوں کی تنہائی و ہجر کا ورد شاعر کو بے چین کر رہا ہے۔ وصل کے لیے شاعر تڑپ رہا ہے اور ہجر کی آگ سے نکل کر وصل کی ٹھنڈی چھاؤں میں دم لینے کا آرزومند نظر آتا ہے۔ نظم موت میں شاعر کشمش میں گرفتار ہے۔ جینا اس کے لیے دشوار ہوا ہے۔عرصہ حیات تنگ نظر آتا ہے مگر پھر بھی وہ جینا چاہتا ہے۔ زخموں کی میں نے اسے بے حال کیا ہوا ہے۔ انتظار کی گھڑیاں قیامت بن کر گزر رہی ہیں مگر شاعر چاہتا ہے کہ ابھی اس کا وجود معدوم نہ ہو۔ یہ نظم دراصل ایک استعاراتی انداز لیے ہوئے ہے۔ مو خرالذکر نظم آخر شب میں گرچہ ہر طرف مایوسی کی اندھیرے دکھائی دیتے ہیں لیکن پھر بھی شاعران اندھیروں کو گھور گھور کر دیکھ رہا ہے کہ شاید ان کو چیرتی ہوئی کوئی روشنی کی کرن نظر آئے ۔ ان نظموں کا منظر کچھ بھی ہو لیکن ان پر شاعر کی پر چھائی ہے اور بیک گراؤنڈ میں شاعر کی زندگی کی تصویر ابھر رہی ہے۔ یہ خصوصیت صرف ان کی متذکرہ بالا نظموں کی ہی نہیں بلکہ ان کی پوری شاعری کی نظر آتی ہے۔ عمیق حنفی کے ایک مضمون ” شہر یار کے یہ چند سطور دیکھیے:
"در اصل شہر یار کی ہر تخلیق پر ان کی شخصیت نے اپنی ایسی گہری چھاپ لگا رکھی ہے کہ تخلیق کو خالق سے جدا کرنے کا ہر عمل جراحی نا کام ثابت ہو رہا ہے۔ شہر یار کی شاعری دراصل ان کی ذات کے مختلف پر تو پیش کرتی ہے”۔ (۲۲)
شہر یار کی نظمیہ شاعری کے حوالے سے لطف الرحمن کا یہ اقتباس بھی دیکھیں:
"شہر یار کی نظمیں مدادا، واپسی ، خود فریبی ، اجنبی ، سوال، التجاو غیر اردو نظم نگاری کی روایت کو ثروت مند اور معتبر بناتی ہیں۔ یہیتی تجربات کے اعتبار سے بھی ، اسلوب کی جدت و ندرت کی جہت سے بھی اور فکری متانت اور صحت مند شعور حیات و کائنات کے لحاظ سے بھی ۔ شہریار نے فکر وفن کے ایک ایسے
(71 صفحہ مکمل)
عالم اصغر کی تخلیق کی ہے جس میں عصری زندگی کے تمام اہم مراحل رخشندہ وتابندہ ہیں۔ ان کے معاصرین میں چند ہی ایسے فنکار ہیں جن کے یہاں اتنا كثير الجهات فکری وفنی اجتبا و نظر آتا ہے”۔ (۲۳)
شہر یار کی نظموں میں لفظیات کا تنوع ہونے کے ساتھ اس کا ڈکشن اور رچاؤ بھی خوب ہے ۔ وہ لفظوں کا جو پیکر تیار کرتے ہیں وہ بہت جاذب ہوتا ہے۔ شہریار کے یہاں جدت و ندرت موجود ہے مگر انھوں نے غیر ضروری جدت اپنی شاعری میں پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ وہ نظمیں کہتے ہیں اور بر ملا کہتے چلے جاتے ہیں ۔ وہ اس بات کے لیے کوشاں دکھائی نہیں دیتے کہ ان کی نظموں یا غزلوں میں نیا پن ہو اور اس نئے پن کی وجہ سے ان کی شاعری پسند کیا جائے ۔ وہ صرف شاعری کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری خواہ غزلوں پر مبنی ہو یا نظموں پر مبنی نیچرل دکھائی دیتی ہے۔ شہر یار کے یہاں سماجی حالات کی سچائی بھی موجود ہے۔ یعنی انھوں نے شہر یار نے اپنی نظمیہ شاعری کے دائرے کو وسیع رکھا ہے۔ شہر یار کی نظموں کی ایک بڑی خصوصیت اس کی فضا ہوتی ہے۔ شہر یار کو فضا باندھنے میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ ان کی نظم اٹل لائف کی چند لائنیں دیکھیے :
پھول، پتیاں ، شاخیں
ہونٹ، ہاتھ اور آنکھیں
موج خوں ، صدائے دل
ماہتاب اور سورج
منجمد ہیں سب کے سب
وقت کی کماں میں اب تیر ہی نہیں کوئی
اس نظم کے حوالے سے ساجد حسین انصاری لکھتے ہیں:
"پھول، پتیاں، شاخیں ، ہاتھ ، آنکھیں ، سورج، اور صدائے دل ،
(72 صفحہ مکمل)
ماہتاب اور سورج یہ تمام اشیا ایسی ہیں جو انسان کو لذت دے سکتی ہیں یا وسیلہ لذت بن سکتی ہیں لیکن حالات کے جبر نے اسے ایک منجمد شے بنا دیا ہے جس کی وجہ سے انسان بجائے اس سے لطف اندوز ہونے کے ان اشیا سے محروم ہے اور یہ اداسی اور محرومی اسے مایوسی کے گہرے سمندر میں ڈھکیل دیتی ہے جہاں وہ ہاتھ پاؤں مارنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتا اور رفتہ رفتہ مایوسی کے گہرے سمندرمیں ڈوب جاتا ہے”۔(۲۴)
شہر یار کی نظموں کی خصوصیات و امتیازات تک رسائی کے لیے شمس الرحمن فاروقی کا یہ اقتباس مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں :
"ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے تجربے اور جذ بے دونوں کو بہت جلد وسیع کر لیا اور یہی نہیں بلکہ اکثر ایک تجربہ کا بدل اس کا متضاد تجربہ اور ایک جذبے کا جواب اس کا متضاد جذ بہ دریافت کر لیا۔ چنانچہ حسیاتی اور جذباتی سطح پر رد عمل کی جتنی فراوانی اور جتنا تنوع شہر کے یہاں ملتا ہے وہ کسی بھی معاصر شاعر کے حصہ میں نہیں آیا ۔ خوف اور خوفزدگی ، بے چینی اور اکتاہٹ طنز اور ہمدردی ، بے چارگی اور جارحانہ پن، استفهام و انکار ، گریز اور استقبال جوش اور سرد مہری ، وفاداری اور ہر جائی بین عشق کی صداقت اور اس کا جھوٹ یہ اور اس طرح کی تمام جذباتی پیچیدگیاں شہر یار کے یہاں اپنے پورے تنوع کے ساتھ بیان ہوتی ہیں”۔ (۲۵)
پی ڈی ایف سے تحریر: اقصیٰ طارق
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔