شفیع عقیل سوانح اور خدمات
پنجابی ادب کو اردو میں متعارف کرانے کے سلسلے میں شفیع عقیل کا نام بہت نمایاں ہے۔ انہوں نے پنجاب رنگ (مطبوعہ 1968 ء )اور پنجابی کے پانچ قدیم شاعر( مطبوعہ 1970ء )میں پنجابی شعراء اور ان کے شعری کارناموں کا تفصیل سے تعارف کرایا ہے۔
ان کی کتابیں پنجاب کی لوک کہانیاں 1973 ء میں اور پنجابی لوک داستانیں 1997ء میں شائع ہوئیں جن میں لوک کہانیوں اور داستانوں کو اردو کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ شفیع عقیل کی ترجمہ کی ہوئی ایک پنجابی لوک کہانی مختصر کر کے یہاں پیش کی جارہی ہے۔
لوک کہانی
کسان
کسی زمانے میں دو کسان رہتے تھے۔ دونوں سگے بھائی تھے۔ چھوٹا بھائی بہت غریب تھا اور بڑا بھائی امیر ، لیکن بڑے بھائی نے کبھی چھوٹے بھائی کی مدد نہیں کی بلکہ وہ اس سے ہمیشہ یہی کہتا کہ مفلسی تمہاری قسمت میں لکھی ہوئی ہے تم ہمیشہ غریب رہو گے۔
ایک مرتبہ چھوٹے بھائی کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ کسی دوسرے شہر میں چل کر اپنی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے ۔ چنانچہ ایک روز وہ اپنے گھر سے نکل کھڑا ہوا اور جدھر کو منہ اٹھا چل دیا۔
چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں کسی بادشاہ کا محل تعمیر ہورہا تھا لیکن اس کے ساتھ ایک عجیب و غریب بات یہ ہو رہی تھی کہ جب محل ایک طرف سے مکمل ہو جاتا اور کاریگر دوسری طرف کام کرنے لگتے تو پہلی طرف کا حصہ خود بخو دگر جاتا۔
کسان یہ عجیب و غریب بات دیکھ کر کچھ دیر وہیں کھڑا ہو گیا۔ اتنے میں وہاں بادشاہ آیا۔ اس نے کسان سے دریافت کیا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے اور کہاں جا رہا ہے؟
کسان نے کہا کہ میں ایک غریب کسان ہوں اور قسمت آزمائی کے لیے کسی دوسرے شہر کی طرف جا رہا ہوں ۔ اس پر بادشاہ نے کہا کہ جب تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ تو مجھے ضرور یاد رکھنا اور کسی سے اس کی وجہ معلوم کر کے بتانا کہ میرا محل اس طرح بننے کے بعد آدھا کیوں گر جاتا ہے؟
کسان نے بادشاہ سے وعدہ کر لیا کہ وہ یہ بات معلوم کر کے اسے بتائے گا۔ جب وہاں سے اپنے سفر پر آگے روانہ ہوا تو راستے میں ایک دریا آگیا۔ ابھی وہ دریا کو پار کرنے کی ترکیب سوچ ہی رہا تھا کہ دریا میں سے ایک بڑا سا کچھوا باہر نکلا اور پوچھا کہ اے مسافر! کون ہو اور کہاں جا رہے ہو؟
جب کسان نے اپنے سفر کا مقصد بتایا تو کچھوے نے کہا کہ جب تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ تو مجھے بھی یاد رکھنا۔ میں دریا کے ٹھنڈے پانی میں رہتا ہوں ۔ اس کے باوجود اندورنی طور پر جلتا رہتا ہوں ۔ میرے سینے میں ہر وقت آگ لگی رہتی ہے ۔ کسی سے یہ دریافت کرنا کہ آخر اس کا سبب کیا ہے؟
کسان نے کچھوے سے وعدہ کر لیا کہ وہ اس کے ہر وقت اندرونی طور پر جلتے رہنے کا سبب معلوم کر کے بتائے گا۔ کچھوے نے اس کسان کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر دریا پار کرا دیا۔ چلتے چلتے اسے شدید بھوک لگی ۔
اس نے راستے میں ایک آلوچے کا پیڑ دیکھا۔ اس نے کچھ پکے آلوچے توڑے اور بیٹھ کر کھانے لگا۔ سارے کے سارے آلو چے کڑوے تھے۔
اس نے آلو چے پھینک دیئے اور غصے میں پیڑ کی طرف لپکا کہ اسے توڑ دے تا کہ اس کی طرح کوئی دوسرا آدمی دھو کے میں وہ آلوچے نہ کھانے لگے ۔ جب وہ اس کی شاخیں توڑنے لگا تو آلوچے کا درخت فریاد کرتے ہوئے بولا کہ میں خود پریشان ہوں کہ میرا پھل اتنا کڑوا کیوں ہے ۔
جب تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ تو پھر کسی سے یہ ضرور دریافت کرنا کہ میرا پھل کڑوا کیوں ہوتا ہے۔ کسان نے درخت سے وعدہ کر لیا کہ وہ ضرور معلوم کر کے اسےبتائے گا۔
ایک روز وہ ایک جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس نے درختوں کے جھنڈ میں گھاس پھوس کی ایک جھونپڑی دیکھی ۔
وہ سستانے کے خیال سے جھونپڑی میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا فقیر گہری نیند سویا ہوا ہے ۔ وہ فقیر بارہ سال تک مسلسل سوتا تھا اور بارہ سال تک مسلسل جاگتا تھا۔
ابھی اسے وہاں پہنچے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ فقیر نیند سے جاگ پڑا اور بولا چونکہ تم نیند کے دوران میری حفاظت کرتے رہے ہو میں تم سے بہت خوش ہوں ۔ یہ بتاؤ کہ تم کون ہو اور کہاں جا رہے ہو؟ کسان کو جواب سن کر فقیر نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ اب تم آگے مت جاؤ اور جس راستے سے آئے ہو اسی راستے سے واپس چلے جاؤ۔
کسان نے فقیر کو بتایا کہ وہ جس راستے سے آیا ہے اس میں اس نے تین وعدے کئے ہیں ۔ جب تک اسے تین سوالوں کے جواب نہ ملیں وہ ادھر سے واپس نہیں جاسکتا۔
فقیر نے کسان سے وہ سوالات پوچھے۔ پہلے سوال کے جواب میں فقیر نے کہا کہ بادشاہ کی ایک جوان بیٹی ہے جو شادی کے قابل ہو چکی ہے جب تک بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرے گا اس کا محل اسی طرح گرتا رہے گا۔
کچھوے کے سینے میں ہر وقت آگ کیوں لگی رہتی ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فقیر نے کہا کہ کچھوے کو اللہ تعالیٰ نے دانش مندی دی ہے مگر وہ خود غرض ہے۔ اسے اپنے سینے میں دبائے بیٹھا ہے ۔
اس سے کہو کہ وہ اپنی دانش مندی دوسروں میں تقسیم کر دے۔
آلوچے کے درخت کا پھل کڑوا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فقیر نے کہا کہ آلوچے کے پیڑ کے نیچے جڑوں میں خزانہ دفن ہے۔ اگر وہ خزانہ نکال لیا جائے تو میٹھے آلو چے لگیں گے۔
واپسی پر کسان سب سے پہلے آلوچے کے درخت کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ اس کا پھل کیوں کڑوا ہوتا ہے۔
درخت نے کسان سے کہا کہ خدا کے لیے جتنی جلدی ہو سکے یہ خزانہ کھود کر نکال لو اور اسے اپنے ساتھ لے جاؤ۔کسان نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ کچھوے کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ وہ ہر وقت اندرونی طور پر کیوں جلتا رہتا ہے۔ کچھوے نے اپنے جلتے رہنے کا سبب بن کر اپنی آدھی دانش مندی کسان کو دے دی۔
آخر میں وہ بادشاہ کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ اس کا محل کیوں گرتا رہتا ہے۔ بادشاہ نے اس کا سبب سن کر کسان سے پوچھا کہ تم میری بیٹی سے شادی کرو گے؟ بادشاہ نے کسان کی رضا مندی پا کر اس سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔
شادی کے کچھ عرصے بعد کسان نے اپنے بڑے بھائی کو پاس بلا لیا۔
جب وہ دربار میں آیا تو چھوٹے بھائی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس پر چھوٹا بھائی بولا ۔ تم تو کہتے تھے کہ مفلسی میرا مقدر ہے۔ یہ کبھی دور نہیں ہو سکتی لیکن دیکھو میں نے اپنی قسمت بنالی ہے۔
بڑا بھائی بہت شرمندہ ہوا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ میں نے غریبی میں کبھی اس کی مدد نہیں کی۔
اب نہ جانے یہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔
مگر چھوٹے بھائی نے اسے معاف کر دیا اور اسے بھی اپنے محل میں بلا لیا۔ اس طرح وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
پروف ریڈر: عاصمہ بتول
حواشی
کتاب کا نام: پاکستانی زبانوں کا ادب،کوڈ :5618،صفحہ: 277 تا 278،موضوع: شفیع عقیل،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ