سجاد حیدر یلدرم اور افسانہ سودائے سنگین
موضوعات کی فہرست
سجاد حیدر یلدرم کا تعارف
سجاد حیدر یلدرم کا شمار اردو افسانے کے بانی اور رومانوی میلانات کے معماروں میں ہوتا ہے۔وہ کامیاب مترجم بھی تھے ان کے یہاں رومانوی عنصر ترکی ادب کے افسانوی سے آیا۔انہوں نے انگریزی عربی اور ترکی کے افسانوں کے ترجمے کے ذریعے اردو افسانے کو نئی سمت عطا کی۔
سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں:
"وہ ہماری زبان میں ایک نئی صنف ادب کے بانی تھے۔اس لیے ہماری ادبی تاریخ میں ان کا ایک پایہ ہے”
سجاد حیدر یلدرم 1880 میں ضلع بجنور میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بنارس میں حاصل کی۔
سجاد حیدر یلدرم کی افسانہ نگاری
یلدرم کا ادبی تعارف
ان کی ادبی خدمات میں
خیالستان
حکایات و احتساسات
حکایات لیلہ
زہرا
ثالث بالخیر
پرانا خواب
طارق
جنگ و جدل
ہمہ خانم
اور کئی تصنیفی خدمات بھی شامل ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم کا پہلا مجموعہ 1908 میں خیالستان کے نام سے چھپا۔اس وقت ان کے سارے کے سارے افسانے ادبی رسائل میں چھپ کر عام ہو چکے تھے۔
افسانہ سودائے سنگین کا تنقیدی جائزہ
یلدرم نے خیالستان کے اغاز میں ہی ایک نوٹ دیا ہے:”یہ فسانے کچھ توازاد ہیں کچھ ترکی و انگریزی سے ملخص۔۔۔خارستان و گلستان،صحبت ناجنس،نکاح ثانی،سودائے سنگین یہ ترکی سے لیے گئے مگر ان میں میں نے بہت کچھ تصرف کیا ہے”
سودائے سنگین حقیقی محبت کے رشتے کی ایک ناکام تصویر ہے جس کے نقش و نگار ابھارنے میں باریک مشاہدہ اور فطرت انسانی کے تجزیاتی مطالعہ سے کام لیا گیا ہے۔افسانہ کا ہیرو فرامرز جمشید اپنی محبوبہ کی بے وفائی سے ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے اور ایک خیالی دنیا اباد کر کے خود کو سونپ دیتا ہے۔
ڈاکٹر انوار احمد سودائے سنگین کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"سودائے سنگین”یلدرم کے تمام کرداروں میں سے زیادہ پچیدہ ذہنی واردات سے گزرنے والے فرد (فرامرز) کی روداد ہے۔افسانے کا مؤثر ترین حصہ وہ ہے جب فرامرز کے اندھیرے کمرے میں بکھری اشیاء کا ذکر ہوتا ہے۔
ساری دیواروں پر سرخ کاغذ لپٹا ہوا تھا اور ایک غیر منظم ہوس کے ساتھ دیواروں پر طرح طرح کی تصویریں چینی کی رقابیوں میں جڑی ہوئی تھیں۔۔۔ایک چینی کی رقابی تھی جس پر ایک تصویر منقش تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سجاد حیدر یلدرم بطور افسانہ نگار | pdf
ایک گھنے جنگلوں کا درخت ہے اس میں ایک بارہ سنگا ہے جس کے سینگ درخت کی شاخ میں الجھ گئے ہیں اور انہیں چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ایک اور تصویر تھی جس میں ایک وحشی صورت لڑکی تھی جس کا آدھا دھڑ سیاہ زمین میں غائب تھا اور بالوں سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے”
افسانے کا انجام منطقی ہے کیونکہ فرامرز کی شخصیت کے تضاد جذبہ و فکر کی اویزش سے خود فریبی کا نتیجہ وہیں نکلنا چاہیے تھا جو نکلا۔اس کی خود فریبی خود تسکینی پر منتج ہوئی اور اس کا اپنا ہیولا اس کا "ہم زاد” ہی نہیں "جنسی رفیق” بن جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ادب لطیف میں سجاد حیدر یلدرم کا مرتبہ pdf
یلدرم کی افسانہ نگاری کا کمال سب سے زیادہ سودائے سنگین میں ظاہر ہوتا ہے کہ یہ افسانہ ماخوذ ہوتے ہوئے بھی خود ساختہ ہے۔اس میں حقیقی محبت کے رشتے کی ایک ناکام تصویر ہے جس کے نقش و نگار ابھارنے میں اردو کے پہلے رومانوی افسانہ نگار یلدرم نے باریک مشاہدہ اور فطرت انسانی کے تجزیاتی مطالعہ سے کام لیا ہے۔
سودائے سنگین کی کہانی بمبئی کی فضاؤں میں پروان چڑھتی ہے۔انگریزوں کی امد کے بعد سب سے پہلے بنگال اور بمبئی نے ہی نئے خیالات کو قبول کیا تھا اور ان شہروں کی تہذیب نے انگریزی تہذیب کے ساتھ میل جول شروع کیا تھا اور انہیں علاقوں کی تہذیب و ثقافت میں تبدیلی کی لہر نظر ائی تھی۔
ان شہروں میں ہندی انگریزی کلچر کے مظاہر دیکھنے کو ملے اور بمبئی تو اس سلسلے میں اچھی خاصی پیش رفت کر چکا تھا۔یلدرم کے اس افسانے کے کردار پارسی نژاد ہیں اور پارسی دوسرے ہندوستانیوں کے مقابلے میں زیادہ جدیدیت پسند اور یورپی تمدن کے دلدادہ واقع ہوئے تھے۔
افسانے کا پلاٹ مربوط اور گھٹا ہوا ہے۔اس کے کردار اس کے پلاٹ میں رنگ بھرتے ہیں۔مناسب کردار نگاری اور موضوع مکالموں نے کہانی کو مربوط،متوازن اور متناسب حسن سے نوازا ہے۔شاعرانہ اسلوب اور زبان و بیان کا اعلی معیار موجود ہے۔
بقول پروفیسر ارشد کیانی:
"سودائے سنگین اپنے رومانی پس منظر کے تناظر میں موضوع و اظہار کے اعتبار سے ایک نمائندہ کہانی ہے جس میں ان کا فن بجائے خود اپنے اپ کو منوا رہا ہے”