کتاب کا نام: "نثری اصناف”: تعارف وتفہیم (حصہ دوم)،
بی ایس اردو کورس کوڈ: 9009،
موضوع: سوانح عمری کی تعریف و تفہیم،
صفحہ: 42/43،
مرتب کردہ: کنول۔
موضوعات کی فہرست
سوانح عمری کی تعریف و تفہیم
«”سوانح” سانحہ کی جمع ہے اور یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔
لغوی معانی
اس کے لغوی معنی "ظاہر ہونا، پیش آنے والا اور ماجرا” کے ہیں۔ عموماً "سانحہ” کا لفظ ناپسندیدہ اور وحشت انگیز واقعے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن سوانح عمری بہ حیثیت اصطلاح:
«”واقعاتِ حیات، حالاتِ حیات یا سرگزشت حیات کا مجموعہ ہوتی ہے جس میں تلخ و شیریں، اچھے برے، نشیب و فراز ہر قسم کے واقعات شامل ہوتے ہیں۔”
یہ بھی پڑھیں: اردو میں خودنوشت سوانح عمری کی روایت | PDF
«یعنی سوانح نگاری سے مراد کسی شخص کی سوانح عمری یا حالات زندگی تحریر کرنے کو کہتے ہیں۔
«انگریزی میں اسے "Biography” کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شاہ علی سوانح عمری کے بارے میں لکھتے ہیں:
"سوانح نگاری کا موضوع ایک انسان ہے اور تاریخ کا ایک ملک۔ سوانح نگار کے لیے ہجوم ثانوی اہمیت رکھتا ہے اور تاریخ کے لیے افراد خواہ وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں؟ ضمنی حیثیت رکھتے ہیں۔ مؤرخ انسانوں کا ایک دوربین کے ذریعے اور سوانح نگار منفرد آدمیوں کا خوردبین کے تحت مشاہدہ کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خودنوشت سوانح عمری کا فن | PDF
تاریخ ہمیں سرکاری ایوانوں میں لے جاتی ہے۔ سوانح نگاری نجی قیام گاہوں میں۔ تاریخ میں ایک فاتح کی سپاہیانہ صفات اہم ہوتی ہیں اور سوانح نگاری میں اسے بہ حیثیت انسان پیش کیا جاتا ہے۔”
(ڈاکٹر شاہ علی، اردو میں سوانح نگاری، کراچی: گلڈ پبلشنگ ہاؤس، 1961، ص: 83)
سوانح عمری کی مکمل تصویر
«سوانح عمری میں صرف انسان کی زندگی کا احاطہ کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کے جملہ کیفیات، احساسات، اس کی نفسیات کا بھی تجزیہ کرنا پڑتا ہے تاکہ اس شخصیت کی مکمل اور صحیح تصویر پیش کی جاسکے۔
ڈاکٹر عمر رضا لکھتے ہیں:
"سوانح عمری صرف انسان کی پیدائش، خاندان، تعلیم، مشاغل زندگی اور وفات کا ہی بیان نہیں ہے بلکہ کسی شخص کے ظاہر و باطن، عادات و اطوار، اخلاق و معاشرت، نفسیاتی کیفیت اور اس کی زندگی کے نشیب و فراز کا مرکب ہے۔ سوانح نگار کی وہ سب باتیں اہم ہوتی ہیں جن سے شخصیت کی تعمیر کرنے اور ایک مکمل تصویر اخذ کرنے میں مدد ملتی ہے۔”
(ڈاکٹر محمد عمر رضا، اردو میں سوانحی ادب، لاہور: فکشن ہاؤس 2012، ص: 285)
تاریخ کا عنصر
«سوانح عمری میں تاریخ بھی اہم عنصر ہے۔ وہ شخصیت جس کی سوانح عمری لکھی جارہی ہے کسی عہد سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس عہد کی جملہ سرگرمیاں اس شخصیت کے ذہنی و فکری رجحانات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس لیے تاریخ کے عنصر کو نظر انداز کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ممتاز فاخرہ کا نقطہ نظر:
"سوانح عمری کسی فرد کی پیدائش سے لے کر موت تک کے خارجی حالات کے ساتھ ساتھ داخلی کوائف (جذبات و احساسات) کے بیان پر مشتمل ہوتی ہے۔ بیانات کے تجزیے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جہاں تاریخ کی طرح فرد کے حالات زندگی بتاتی ہے وہاں فکشن کی طرح اس کی زندگی کی نقاب کشائی بھی کرتی ہے۔
جس طرح اول درجہ کا مؤرخ حقیقت سے چشم پوشی نہیں کر سکتا، اسی طرح اچھے سوانح نگار کے لیے بھی حقیقت سے دامن کشی ممکن نہیں۔
فرق یہ ہے کہ سوانح نگار حقائق کا ذکر مؤرخ کی طرح نہیں بلکہ تخلیقی فن کار کی طرح دل کش پیرایہ بیان میں کرتا ہے۔”
(ڈاکٹر ممتاز فاخرہ، اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقا، دہلی: رونق پبلشنگ ہاؤس 1984، ص: 24)
ہیرو کے محاسن و معائب:
«سوانح عمری میں ہیرو کے محاسن و معائب دونوں کو پیش نظر رکھنا لازمی امر ہے۔ ابھی دو عناصر سے ایک معیاری سوانح عمری تشکیل پاسکتی ہے۔
ڈاکٹر الطاف فاطمہ کی رائے:
"سوانح نگاری کا فن کسی فرد واحد کی شخصیت کو منظر عام پر اس طرح لانے کا نام ہے کہ اس کی فطرت اور سیرت کا کوئی پہلو پوشیدہ نہ رہے۔
اس میں لکھنے والا اپنے ذاتی جذبات کو شامل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ ہیرو کے محاسن و معائب کو پیش کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔”
(ڈاکٹر الطاف فاطمہ، اردو ادب میں فن سوانح نگاری کا ارتقاء، دہلی: اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، 1970، ص: 19)