ساغر صدیقی کی زندگی اور شاعری

میری غربت نے اڑایا میرے فن کا مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں

موضوعات کی فہرست

میری غربت نے مرے فن کا اڑایا ہے مذاق
تیری دولت نے ترا عیب چھپا رکھا ہے

ساغر صدیقی کی زندگی

یہ ساغر صدیقی تھے جن کی شاعری نے ایک نسل کو متاثر کیا تقسیم ہند کے بعد ساغر صدیقی لاہور آگئے اور پھر ہمیشہ اسی شہر میں رہے لاہور آکر آپ نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کے مقابلے میں بھی شرکت کی۔

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

یہ شعر صدر ایوب خان کے ہندوستان کے دورے کے دوران کسی ایک صحافی نے صدر صاحب کو سنایا اور ان سے استفسار کیا کہ آپ کے ملک کا ایک شاعر آپ کے بارے میں یہ کہتا ہے اور پھر صدر صاحب نے ان کے لیے بلاوا بھیجا۔

مغرب سے کچھ بعد کا وقت تھا داتا دربار چوک کے پاس ایک مفلوک الحال شخص سر جھکائے بیٹھا تھا جو حلیے سے دیوانہ یا نشئی معلوم ہوتا تھا پاس سے گزرنے والی ٹریفک اور دنیا داری کے معاملات سے بے خبر اور اس شخص کے ارد گرد کئی کاغذات بکھرے پڑے تھے اس کے لمبے بالوں نے چہرے کو کافی حد تک چھپا رکھا تھا وہاں سے اس کے جاننے والے دو افراد گزرے انہیں شک ہوا کہ شاید یہ ان کا ایک پرانا دوست ہے وہ پاس بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ کیوں اپنی یہ حالت بنا رکھی ہے کیوں اتنی پیتے ہو کہ دنیا سے لاتعلق ہو جاتے ہو؟ کیا مسئلہ ہے ؟اس نے کوئی جواب نہ دیا انہوں نے کندھا دبانا شروع کر دیا اور محبت و عقیدت کے لہجے میں اپنا سوال دہرایا کہ کیوں اتنی پیتے ہیں آپ؟ اس شخص نے بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ چہرہ اٹھایا اور بولا

میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا

چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغرؔ وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا

یہ ساغر صدیقی تھے جن کی شاعری نے ایک نسل کو متاثر کیا ساغر صدیقی 1928 میں انبالہ میں پیدا ہوئے ان کا خاندانی نام محمد اختر تھا ساغر کے گھر میں بدترین غربت تھی اور اس غربت میں اسکول یا مدرسے جانے کا کوئی امکان نہ تھا محلے کے ایک بزرگ حبیب حسن کے پاس ساغر آنے جانے لگے انہوں نے ساغر کو ابتدائی تعلیم دی ساغر کا دل انبالہ کی عسرت و تنگدستی سے اچاٹ ہو گیا تو وہ 13 یا 14 برس کی عمر میں امرتسر آگئے یہاں ساغر نے لکڑی کی کنگھیاں بنانے والی ایک دکان پر ملازمت کر لی اور کنگھیاں بنانے کا فن بھی سیکھ لیا اس دوران شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا شروع میں قلمی نام ناصر حجازی تھا لیکن جلد ہی بدل کر ساغر صدیقی رکھ لیا ۔ساغر اپنے اشعار بے تکلف دوستوں کو سنانے لگے
1944 میں امرتسر میں ایک آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا جس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی موجود تھے ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ ایک لڑکا ساغر صدیقی بھی شعر کہتا ہے انہوں نے منتظمین سے کہہ کے اسے مشاعرے میں شعر کہنے کا موقع دیا ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا ترنم کی روانی تھی جس سے انہوں نے اس مشاعرے میں سب کا دل جیت لیا اس مشاعرے نے انہیں شہرت کی بلندی تک پہنچا دیا اس کے بعد ساغر لاہور اور امرتسر کے مشاعروں میں بلائے جانے لگے شاعری ساغر کے لیے وجۂ شہرت کے ساتھ ساتھ وسیلہ روزگار بھی بن گئی اور یوں نوجوان شاعر نے کنگھیوں کا کام چھوڑ دیا
تقسیم ہند کے بعد ساغر امرتسر سے لاہور چلے گئے ساغر نے اصلاح کے لیے لطیف انور گرداس پوری کی طرف رجوع کیا اور ان سے بہت فیض پایا 1947 سے لے کر 1952 تک کا زمانہ ساغر کے لیے سنہرا دور ثابت ہوا اسی عرصے میں کئی روزناموں ، ماہوار ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میں ساغر کا کلام بڑے نمایاں انداز میں شائع ہوتا رہا
فلمی دنیا نے ساغر کی مقبولیت دیکھی تو کئی فلم پروڈیوسروں نے ان سے گیت لکھنے کی فرمائش کی اور انہیں معقول معاوضہ دینے کی یقین دہانی کرائی پھر انہوں نے فلمی گیت لکھے جو بہت معروف ہوئے جیسا کہ مہدی حسن کا گایا ہوا گیت

چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے

اپنی وفات سے 20 سال پہلے تک ساغر صحت مند نوجوان تھے جن کی زندگی میں سید سلیم یزدانی نے ساغر سے بہت مشکل سے اس کی ابتدائی زندگی کے متعلق کچھ معلومات حاصل کی تھیں
محمد عبداللہ قریشی مدیر "ادبی دنیا” نے ساغر کے آخری مجموعہ کلام "مقتل گل” میں یزدانی صاحب سے ساغر کی مختصر آپ بیتی کو لے کر اسے کتاب میں شائع کر دیا ساغر نے یزدانی صاحب کے سوالوں کے جواب میں اپنی سرگزشت کچھ یوں بیان کی:
میری زندگی زنداں کی ایک کڑی ہے 1928 کے کسی ماہ میں پیدا ہوا گھٹنوں کے بل چلنے کا زمانہ سہارن پور اور انبالہ میں گزارا انبالہ اردو اور پنجابی بولنے والے علاقے کا سنگم ہے ۔ماں کی مامتا ، باپ کی شفقت ،کہاں اور کیسے پیدا ہوا ہوں؟ یہ میرے لیے”کسی مقدس سراۓ کے غلیظ باڑے میں ” کے سوا کچھ بھی نہیں ۔یا "علی بابا چالیس چور” کے پراسرار غار کی کہانی ہے ۔
میں نے دنیا میں خداوند رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا یہ معلوم نہیں خدا کو اس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ بہرحال شاید میری تسکین قلبی کے لیے کسی کا نام بھائی رکھ دیا ہو اسی طرح ایک وجود کا تذکرہ میرے بارے میں لکھنے والوں نے کیا ہے جو سراسر غلط ہے دنیا کی چھ سمتوں پر نظر رکھنے والے صاحب فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہوا بازو کالی کملی میں چھپائے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں اگر کوئی بھائی بہن ہوتا تو شاید یہ حال نہ ہوتا میں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سنا ہے البتہ ایک پر شکوہ ماضی کی سرسراہٹ میں نے اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کی ہے 1936 میں جب ذرا سمجھ بوجھ کا زمانہ آیا تو ایک ویران مکان کی افسردہ دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے لکڑی کے پرانے صندوق میں دیمک چاٹتی ہوئی کتابیں دیکھیں شاید ان کے پڑھنے والے 1857 کی گھٹاؤں میں ڈوب چکے تھے ہاں رات کی تاریکی میں ایک کگر پر روشنی پھیلانے کی جستجو کرتا ہوا ایک دیا میرے مشاہدے کی پہلی چیز تھی۔ اس گھر میں مجھ سے پہلے حاجی محمد حنیف اور خواجہ محمد حسین نام کے دو بزرگ آباد تھے یہ کتابیں شاید انہی کی تھیں یہ بزرگ انبالہ شہر کی سماجی زندگی میں اچھی خاصی شہرت کے حامل تھے اور ان کی پکی اور بیل بوٹوں والی قبر کا کوئی پتھر شاید آج بھی وہاں کے قبرستان کے کسی کونے میں موجود ہو۔ میں نے اردو اپنے گھر میں پڑھی ایک 40 یا 50 سالہ بزرگ جن کا نام حبیب حسن تھا بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت ذوق رکھتے تھے یہی مجھ میں شاعری کا شوق پیدا ہوا میری عمر سات یا آٹھ سال کی ہوگی کہ میں اردو میں اتنی مہارت حاصل کر چکا تھا کہ اکثر خط لکھنے والے اپنی گزارشات کو میرے اندازِ بیان میں سن کر داد و تحسین سے نوازتے تھے میں نے بچپن کا دور بھی غربت میں صبر و شکر سے گزارا جو کچھ ملتا اس پر بخوشی قناعت کرتا اس وقت کے تمام اردو روزناموں "زمیندار” ٫”احسان”٫ "انقلاب” کا مطالعہ میرا شغل تھا میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید ہی میں نے آج تک اردو کا کوئی لفظ غلط پڑھا یا لکھا ہو میں نے شروع میں ” ناصر حجازی” تخلص رکھا ٫تقریبا دو ماہ بعد مجھے یہ تخلص واضح دکھائی نہ دیا تب میں نے اپنا تخلص ساغر صدیقی پسند کیا جو اب تک موجود ہے 10 یا 12 برس کی عمر میں، میں اپنے استاد حبیب حسن کے ساتھ امرتسر میں رہا کرتا تھا میں چھوٹی عمر میں بھی 20 ،22 سال کا سنجیدہ نوجوان معلوم ہوتا تھا میری عمر 16 سال کی تھی جب 1944 میں امرتسر کی جامعہ السنہ شرقیہ حال بازار میں جو کہ علوم شرقیہ کی بہترین درسگاہ تھی اور وہاں ماہانہ طرحیہ مشاعرے ہوتے تھے ان میں شرکت کرنا میرے لیے سب سے بڑی خوشی کی بات تھی 1944 ہی میں اردو مجلس کے نام سے ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور شمس العلماء تاجور نجیب آبادی کے زیر سایہ ایک بزم قائم ہوئی اردو زبان کی ترویج و ترقی اس کے اغراض و مقاصد تھے اس کے مشاعروں میں بھی باقاعدہ شریک ہوتا رہا ہوں امرتسر میں عرشی امرتسری، شمس مینائی مرحوم، فرخ امرتسری، مرزا بیضا خان مروی ایرانی عیسی امرتسری ان لوگوں نے میری صلاحیتوں اور خوبیوں کو بہت سراہا
1945 میں ولی صابر رحمت اللہ علیہ کے مشہور کلیر کے عرس میں شرکت کی کلیر میں عرس مبارک کے موقع پر تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان کے تمام اہل فن اکٹھے ہوتے تھے عرس کے آخری ایام میں کاشانہ احباب سہارنپور ایک بزم شعر و سخن منعقد کیا کرتے تھے جس میں چیدہ چیدہ فوج کے تین جرنیلوں کے استقبال کے لیے جلیاں والا باغ میں تقریباً 30 40 ہزار کے مجمعے میں میں نے زندگی میں پہلی بار اسٹیج پر آ کر نظم پڑھی۔ اس جلسے میں پڑھی جانے والی نظم کا ایک شعر اور مصرع مجھے یاد ہے جو یوں تھا

ہو جس کا رخ ہوائے غلامی پہ گامزن
اس کشتی حیات کے لنگر کو توڑ دو
اور
تہذیب نوع کے شیشہ و ساغر کو توڑ دو
امرتسر میں امین گیلانی پہلے ادبی دوست تھے۔ ساحر لدھیانوی، نریش کمار شاد جن کا میں بے حد احترام کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہوں میری یادداشت کا ابتدائیہ ہیں ۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے جید علماء کے دست شفقت سے سرفراز ہوا ساغر صدیقی پر اورینٹل کالج لاہور کے ایک طالب علم نے ایم اے کا تحقیقی مقالہ بھی لکھا ہے اس مقالے سے ساغر کے حالات زندگی کے متعلق بہت سی معلومات ملتی ہیں
تقسیم ہند کے بعد ساغر صدیقی لاہور آگئے اور پھر ہمیشہ اسی شہر میں رہے لاہور آ کر آپ نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کے مقابلے میں بھی شرکت کی بلکہ ساغر کی خواہش تھی کہ یہ ترانہ فلمایا جائے اور سینما میں بھی دکھایا جائے ساغر نے فدا شاہجہان پوری اور نعیم شاہ کے ساتھ مل کر یہ ترانہ لکھا اور اسے فلمایا بھی اور ریجنٹ سینما میں یہ اسکرین پر دکھایا بھی گیا ساغر نے فلم انقلاب کشمیری بھی بنائی اس کے علاوہ ساغر ہفت روزہ تصویر کے ایڈیٹر رہے اور پھر اس کے بند ہونے پر ہفت روزہ فلمی اخبار کا ڈیکلریشن منظور کروایا اس کے فقط تین شمارے ہی نکل سکے پھر ساغر کے حالات آہستہ آہستہ خراب ہونا شروع ہو گئے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ انہیں سر اور جسم میں درد محسوس ہو رہا تھا انہوں نے ساتھ بیٹھے افراد کو اپنی جسمانی درد کا بتایا تو ان میں سے ایک نے انہیں مارفیہ کا ٹیکہ لگا دیا درد تو ٹھیک ہو گیا مگر ساغر نشے کے عادی ہو گئے اور جہاں جگہ مل جاتی پڑے رہتے مشق سخن تو جاری رہی لیکن ساغر کا حلیہ ان کی صحت بگڑتی چلی گئی اور وہ اپنی جسمانی صفائی اور ہر بات سے بے پرواہ فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے لگے اس زمانے میں بھی لوگ انہیں کچھ ہوش میں پاتے تو مشاعروں میں لے جاتے ، جہاں ان کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی انہیں اکثر داتا دربار کے اطراف اور احاطے میں دیکھا جانے لگا تھا اور وہی قریب ہی فٹ پاتھ پر ان کے شب و روز بسر ہو رہے تھے 1952 کے بعد ساغر کی صحت روز بروز خراب ہوتی گئی لیکن ساغر غزل ،نظم، قطع اور فلمی گیت ہر صنف سخن میں شاہکار تخلیق کرتے رہے ان کی تصانیف میں غم بہار ،شب آگہی، لوح جنوں، مقتل گل، کلیات ساغر شامل ہیں
جنوری 1974 میں وہ فالج میں مبتلا ہو گئے اس کی وجہ سے ان کا دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گیا پھر کچھ دن بعد منہ سے خون آنے لگا جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچا ہو گیا ساغر صدیقی کا آخری وقت داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گزرا اور ان کی وفات 19 جولائی 1974 کی صبح کو اسی فٹ پاتھ پر ہوئی انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک کیا گیا۔ ہر سال ان کے مزار پر عظیم الشان عرس منعقد کیا جاتا ہے جس میں ان کے پرستار اور عقیدت مندوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے ان کا کلام ترنم اور میوزک کے ساتھ بھی سنایا جاتا ہے ساغر صدیقی کے بقول

محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

ہر مسرت غم دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا

ان گنت محفلیں محروم چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا

آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا

حواشی

موضوع: ساغر صدیقی کی شاعری
پروف ریڈنگ: کائنات خورشید ۔
مواد: پروفیسر آف اردو گروپ کے ایک ممبر کا فراہم کردہ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں