سفر نامہ دنیا رنگ رنگیلی کا تجزیہ

طارق مرزا نے اپنے سفرنامے میں جگہ جگہ مزاح نگاری سے کام لیا ہے ایسی ہی ایک مثال اور دیکھیں :

’’اس حسینہ کے جواب سے میں اتنا خوش ہوا جیسے اس نے سیٹ نہیں اپنا دل دے دیا ہو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنی ہم نشین بھاری بھرکم خاتون کو یہ خوش خبری سنائی کہ میں کہیں اور جا کر بیٹھ رہا ہوں۔ وہ بھی ایسے خوش ہوئی جیسے پچاس برس کی عمر کے بعد اچانک اولاد کی خوش خبری مل گئی ہو۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے دور ہو کر ایسے خوش ہو رہے تھے جیسے ساٹھ ستر سال کی عمر میں میاں بیوی الگ الگ بستر ملنے پر خوش ہوتے ہیں۔ اس عمر میں ایک بیڈ پر سونا خوشی کی بجائے بے آرامی کا سبب بنتا ہے ۔‘‘(۳۰)

طارق محمود مرزا نے اپنے سفر نامے میں طنزیہ انداز بھی اپنایا ہے. وہ مختلف چیزوں اور مختلف لوگوں پر طنز بھی کرتے ہیں۔ ان کے طنز کرنے کا مقصد اصلاح ہے۔ وہ ملک کی چیزوں کو بہتر دیکھنا چاہتے ہیں ان کے سفرنامے سے یہ مثال دیکھیں :

’’لیکن یہ قانون کی کتابیں سرکاری دفاتر میں ایسے محفوظ و مامون اور سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں جس طرح ہم نے قرآن مجید کو سنبھال کر الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں رکھ کر بھول جاتے ہیں نہ اسے پڑھتے ہیں ، نہ سمجھتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ بلکہ اسے سینت سینت کر رکھ کر ثواب دارین حاصل کرتے ہیں نہ جانے کب وہ وقت آئے گا جب ہمارے ملک میں بھی قوانین پر عمل ہوگا۔ اور لوگوں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوگا۔ ‘‘(۳۱)

طارق مرزا ان لوگوں پر بھی طنز کر رہیں جو ہر وقت موبائل فون کی اسکرین میں ڈوبے ہوتے ہیں ان کے سفرنامے سے ایک مثال اور دیکھیں :

’’کسی عوامی ٹوائلٹ میں جاؤ تو اندر سے ٹیلیفونک گفتگو کی آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ باہر کھڑے بےچینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور اندر کاروباری امور طے پار ہے ہوتے ہیں۔ اس طرح گھروں میں بھی ایک بھائی موبائل لے کر ٹوائلٹ میں بیٹھا ہوتا ہے۔ اور دوسرے اپنی باری کے انتظار میں باہر تلملا رہے ہوتے ہیں۔ اس چھوٹے سے برقی آلے نے دنیا کا نظام پلٹ کر کے رکھ دیا ہے اس کا استعمال دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے نہ جانے یہ سلسلہ کب اور کہاں جا کر رکے گا۔‘‘(۳۲)

 طارق محمود مرزا اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کے لیے مختلف جگہوں پر شاعرانہ انداز سے بھی کام لیتے ہیں۔ وہ اپنے سفرناموں میں مختلف شاعروں کے اشعار سے بھی استفادہ کرتے ہیں ان کے سفرنامے سے یہ مثال دیکھیں:

دل کی خاموشی پہ مت جا

راکھ کے نیچے آگ دبی ہے (۳۳)

ان کے سفرنامے سے ایک مثال اور دیکھیں :

کچھ اس طرح سے بنائی ہے اس نے یہ دنیا

کہیں کہیں تو یہاں دل لگانا پڑتا ہے (۳۴)

 ان کے سفرنامے سے ایک مثال اور ملاحظہ کریں:

ایمان مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

 کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے(۳۵)

طارق محمود اپنے سفرنامے میں انگریزی الفاظ اور جملوں کا استعمال بھی کرتے ہیں وہ انگریزی الفاظ اور جملوں کو ایسی مہارت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں کہ وہ اردو کے ساتھ مل کر اردو زبان کا ہی حصہ معلوم ہوتے ہیں انگریزی الفاظ کے  استعمال پر ان کے سفرنامے سے یہ مثال دیکھیں :

’’کوشی گایا میں ہمارا چھ منزلہ ہوٹل باہر سے اپارٹمنٹ بلڈنگ نظر آیا۔ باہر سے نمایاں نہ ہو نے کے باوجود بیرونی دروازہ کھولتے ہی فائیو سٹار ہوٹل کا خوشگوار تاثر قائم ہوا۔ صاف ستھرا خوبصورتی سے سجا لاؤنج ، آرام دہ صوفے ، آرٹسٹک کاؤنٹر اور اس کے پیچھے تھری پیس سوٹ میں ملبوس جاپانی نوجوان اور گڑیا جیسی دوشیزہ جھک کر آداب بجالائے تو ہمیں لگا کہ کسی مغلیہ دربار میں پہنچ گئے ہیں ۔‘‘(۳۶)

طارق مرزا انگریزی جملوں کا استعمال بھی کرتے ہیں ان کے سفرنامے سے یہ مثال دیکھیں :

’’ وہ میری طرف متوجہ ہوا تو میں نے اس کے کان کے پاس منہ لےجاکر کہا ‏”

Please bring the smile on your face ‘‘

یہ کہہ کر میں آگے بڑھ گیا۔ وہ کافی دیر تک مجھے گھورتا رہا۔ جیسے میں نے کوئی انہونی بات کہہ دی ہو ۔‘‘(۳۷)

طارق مرزا ایک امریکن شاعرہ Nancy Byrd Turner کے کچھ اشعار بھی تحریر کرتے ہیں۔ ان کے سفر نامے سے ایک مثال دیکھیں:

Death is only an old door

Set in a garden wall

on quiet hinges it gives at dusk,

When the thrushes Call. (۳۸)

 طارق مرزا نے اپنے سفرنامے میں مکالماتی انداز سے بھی کام لیا ہے۔ وہ سفر کے دوران جن لوگوں سے گفت گو کرتے ہیں وہ اس بات چیت کو اپنے سفرنامے کی زینت بھی بناتے ہیں وہ اس بات چیت کو مکالماتی انداز سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے سفرنامے سے یہ مثال دیکھیں :

’’میری بیگم نے پوچھا آپ لوگوں کے بچے نہیں ہیں؟ فرینک مسکرایا تو ماریہ بھی مسکرا اٹھی۔ بالآخر وہ گویا ہوا "ماریہ کو بچے پالنا اچھا نہیں لگتا اس لیے ہمارے گھر میں بچوں کا کوئی امکان نہیں ہے ۔”

میں نے قدرے حیرانگی سے پوچھا تم لوگوں کے گزر جانے کے بعد اس فارم ہاؤس کا کیا ہوگا؟‘‘

فرینک نے اطمینان سے جواب دیا اگر ہم نے بیچ نہیں دیا تو یہ حکومت کے پاس چلا جائے گا بہر حال ہمیں پرواہ نہیں ہے۔ کہ ہمارے مرنے کے بعد اس کا مالک کون ہوگا؟ (۳۹)

طارق محمود مرزا کے سفرنامے کے اسلوبیاتی جائزے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اس سفرنامے کو تحریر کرنے کے لیے عام فہم الفاظ ، مزاح نگاری ، طنزیہ انداز ، شاعرانہ انداز ، مکالماتی انداز اور انگریزی الفاظ اور جملوں کا استعمال بہت دلکش اور خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں