سفر نامہ دنیا رنگ رنگیلی کا تجزیہ

طارق مرزا نیوزی لینڈ اور پاکستانی ڈرائیوروں کا تقابل کرتے ہیں۔ پاکستان میں جو اکثر ڈرائیور ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس لائسنس بھی نہیں ہوتا۔ وہ مخالف سمت میں غیر قانونی طریقے سے گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہر روز حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ طارق مرزا اسلام آباد کے دامن کوہ سے چوٹی پر آباد پیر سوہا وہ جانے کے لیے پہاڑی پر موجود تنگ سڑک کا انتخاب کرتے ہیں۔ سڑک کے بائیں جانب خطر ناک کھائی تھی۔

یہ سڑک دولین پر مشتمل تھی۔ اس سڑک پر اوور ٹیکنگ کی گنجائش نہیں تھی۔ اتنے میں مخالف سمت سے ایک گاڑی تیزی سے طارق مرزا اور ان کے اہل خانہ کی طرف بڑھتی ہوئی آتی ہے ۔ اگر ان کے آگے والی گاڑی آہستہ نہ ہوتی تو ایک خطرناک حادثے کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ جس میں جان جانے کا بھی اندیشہ تھا ۔ اس کے برعکس نیوزی لینڈ میں گاڑی صرف لائسنس یافتہ ہی افراد چلا سکتے ہیں  وہ  ٹریفک کے اصولوں سے واقف ہوتے ہیں کسی دوسرے کی لین میں گاڑی چلا کر خطرنے کا باعث نہیں بنتے۔ طارق مرزا تحریر کرتے ہیں :

’’ میں تو اور کچھ نہیں کر سکتا تھا البتہ اپنی گاڑی بالکل آہستہ کر دی مگر مخالف سمت سے آنے والی گاڑی سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ وہ گاڑی اتنی تیزی سے ہمارے سامنے آئی کہ گاڑی میں موجود خاتون چیخ اٹھیں اچانک بائیں جانب والی گاڑی آہستہ ہوئی اور ہماری طرف بڑھنے والی گاڑی کو اوور ٹیک کرنے کا موقع مل گیا۔ جب وہ گاڑی اوور ٹیک کر کے اپنی لین پر گیا تو اس وقت وہ ہم سے دو میٹر آگے ہوگا۔ یہ سب آخری لمحے میں ہوا تھا۔‘‘(۱۴)

پاکستان میں ٹریفک کے مسائل دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ روزانہ حادثات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ٹریفک قوانین میں سختی کی جائے اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جرمانہ کیا جائے۔ جب کہ بغیر لائسنس گاڑی چلانے والوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جائے۔ پاکستان میں کم عمر ڈرائیور حضرارت کی تعداد  بہت زیادہ ہیں ۔

جو سٹرک پر دوسروں کی جان گنوانے کا باعث بنتے ہیں۔ طارق محمود مرزا اپنے آبائی وطن کی شاہراوں کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔

 پاکستان میں بے شمار سیاحتی مقامات ہیں جہاں ہر سال لاکھوں پاکستانی چھٹیاں منانے جاتے ہیں پاکستان کے سیاحتی مقامات میں  سوات، سکردو ، گلگت ، آزاد کشمیر اور مری جیسے بہت سے مقامات ہیں یہ علاقے قدرتی حسن سے مالا مال ہیں جس طرح نیوزی لینڈ کے شہر اور قصبے ہیں جہاں ہر طرف درخت سبزہ اور آبشاریں دیکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان بھی دنیا کے باقی ممالک کی طرح قدرتی نعمتوں سے محروم نہیں ہے طارق مرزا نوشت ہیں:

’’وطن عزیز پاکستان میں بھی ایسے حسین اور پرکشش مقامات کی کمی نہیں ہے۔ اگر سفر ، سکیورٹی ، قیام ،  طعام اور دیگر سہولتیں اچھی طرح مہیا کر دی جائیں تو ہمارے شمالی علاقے مری، نتھیا گلی اور ایبٹ آباد جیسے مقامات بین الاقوامی سیاحتی مراکز بن سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف کثیر آمدنی ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان اور اس کے عوام کے بارے میں ایک خوشگوار اور مثبت پیغام پوری دنیا تک پہنچ سکتا ہے ۔‘‘(۱۵)

مری پاکستان کے شہریوں کے لیے ایک بہترین سیاحتی مقام ہے مگر وہاں انتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دو سال قبل ۸ جنوری ۲۰۲۲ ء میں مری میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں داخل ہوتی ہیں۔ دو دن کی مسلسل برفباری سے وہاں لوگوں کی گاڑیاں برف میں پھنس جاتی ہیں جس سے بائیس افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اگر انتظامیہ اپنا کام ایمان داری سے کرے تو اس طرح کے حادثات سے بچا جا سکتا ہے مری میں ہوٹل انتظامیہ کو بھی لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ان کے من مانے کرایوں کی وجہ سے ہزاروں افراد سرد راتیں سڑکوں پر گزارنے کے لیے مجبور ہیں۔ ان تمام مسائل کا اگر حل تلاش کر لیا جائے تو حکومت پاکستان ہر سال ایک کثیر زرمبادلہ کما سکتی ہے۔ پاکستان کے اپنے شہری انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے ایک مرتبہ یہاں کا رخ کر کے دوبارہ وہاں جانے کی زحمت نہیں کرتے ۔

باہر سے آنے والے غیر ملکیوں پر بھی بہت بڑا تاثر پڑتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ مقامی ہوٹل اور دکانداروں کی نگرانی کرے اگر وہ زیادہ نرخ وصول کریں تو ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ جس سے سیاحوں کو اچھا تاثر جائے۔

طارق محمود مرزا ٹور گائیڈ کے بغیر ہی سیاحت کرتے ہیں اگر ٹور گائیڈ ساتھ ہو تو وہ معلوماتی سفر تو ضرور کہلاتا البتہ اس کو ہم سیاحت نہیں کہہ سکتے۔ ان ٹور گائیڈ کا جہاں دل کرتا ہے۔ لوگوں کو گھومانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ انسان کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا ہے۔ راستے کی تمام تر مشکلات سے انسان انجان ہوتا ہے۔ انسان کے تاثرات ایسے ہوتے ہیں جیسے وہ گھر بیٹھا نیٹ فلیکس پر کوئی فلم دیکھ رہا ہے۔ طارق مرزا سیاحت کی تعریف کچھ اس انداز میں کرتے ہیں :

’’ بغیر کسی گائیڈ کے، بغیر کسی گروپ کے، بغیر کسی منزل کے،جیسے کوئی آوارہ  شہروں اور گاؤں میں گھومتا ہے۔ دراصل یہ آوارگی ہی سیاحت ہے۔ ورنہ ٹور گائیڈ کی رہنمائی میں مقررہ مقامات کو چھو کر بس میں میں بیٹھ کر سفر کرنے کو معلوماتی دورہ تو کہا جا سکتا ہے سیاحت نہیں۔  سیاحت تو آوارگی، کھوجنے، بھٹکنے ، پرکھنے ، اجنبیوں سے ملنے ، ان کے رہن سہن ، تہذیب و تمدن کو جاننے اور ان کے اندر چھپی کہانیوں تک پہنچنے کا نام ہے۔‘‘(۱۶)

طارق محمود مرزا نے سفر یورپ کے لیے ٹور گائیڈ کا انتخاب کیا تھا۔ وہ سفران کے لیے معلوماتی اعتبار سے بہت مفید ثابت ہوا جب وہ ٹور گائیڈ کے بغیر سفر کرتے ہیں تو وہ دن ان کے لیے بہت پر لطف ثابت ہوتے ہیں۔ جب انسان تنہا سفر کرتا ہے تو وہ بہت سے لوگوں سے ملاقات بھی کرتا ہے۔ ان کی کہانیاں بھی سنتا ہے۔ راستے میں آنے والے خطرات

سے اس کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے ۔ انسان کے تجربات اور مشاہدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہاں وہ تمام حقائق جان سکتا ہے۔ اس کے برعکس ٹور گائیڈ جس ملک کے ہوتے ہیں وہ اس ملک کی تعریفیں ہی کرتے ہیں۔ جس سے حقائق چھپے ہی رہ جاتے ہیں۔

طلاق مرزا ان لوگوں پر تنقید بھی کرتے ہیں جو لوگ کتابیں پڑھنے کے عادی نہیں ہوتے۔ انسان کو بہت سا علم کتابوں سے ملتا ہے۔ طارق مرزا اپنی کتابیں گولڈ کوسٹ سے جاپان لے جارہے تھے جس کے لیے انھوں نے ٹکس کی مد میں سو ڈالر سے زائد ادا کیے۔ اردو کتابیں پڑھنے والے قارئین کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے۔ اس حوالے سے طارق مرزا رقم طراز ہیں:

’’ اردو کتابوں کے خالق کو یہ بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ انگریزی کی کتابیں نہیں تھیں جن کے مصنفین ایک کتاب لکھ کر ساری زندگی بیٹھ کر اس کتاب کی کمائی کھاتے ہیں جن کے قارئین کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ اردو کی کتابوں میں قارئین کی دلچسپی یہی رہی تو غالب اور اقبال کی کتابیں بھی تہہ خانوں میں پڑی سڑتی رہیں گی اور پوری قوم موبائل فون ہاتھوں میں لے کر اپنے قلب و ذہن کو گرماتے رہے گی۔ ‘‘(۱۷)

پاکستانیوں میں کتابیں پڑھنے کا رواج بہت کم ہے جس کے سبب  یہ قوم علم کے معاملے میں دنیا کی باقی اقوام سے بہت پیچھے  ہے۔ پاکستان میں پانچ فیصد لوگوں میں ہی کتاب بینی کی عادت پائی جاتی ہے۔ باقی تمام لوگ اپنا وقت موبائل فون پر صرف کرتے ہیں۔

آج کل جدید دور ہے تمام کتابیں موبائل کی سکرین پر آسانی سے میسر ہو جاتی ہیں قارئین کو چاہیے وہ کتابیں خرید کر پڑھا کریں جس سے مصنف کے مالی معاملات بھی بہتر ہو سکیں اگر مصنف کو مالی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوگا تو وہ اس کام پر اپنا وقت صرف نہیں کرے گا۔

بعض مصنفین کی کتابوں میں کوئی مقصد نہیں وہی پرانی عشق و محبت کی داستانیں ہوتی ہیں جس سے کتاب بینی بے مقصد ہو جاتی ہے۔ لوگوں کی اصلاح کی بجائے ان کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں کتاب بینی کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔ طارق مرزا کی خواہش ہے کہ لوگ کتاب بینی کی طرف دھیان دیں اور موبائل فون کا استعمال کم سے کم کریں۔

طارق محمود مرزا کی جاپان کے سفر کے دوران تین عربی دوستوں سے ملاقات ہوئی یہ تینوں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ اپنے ملک میں کئی برسوں سے ایک ہی خاندان کی بادشاہت سے نالاں تھے۔ وہ اپنی حکومت کے خلاف بر ملا گفتگو بھی کیا کرتے تھے جس کی بدولت یہ باتیں بہت دور تک پھیل گئی۔ ایک دن ان کو سعودی پولیس کے اہلکار گرفتار کرنے یونیورسٹی پہنچ گئے۔

یہ لوگ کسی طرح وہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے پھر ان نوجوانوں نے چھپ کر سرحد پار کی اور یمن میں کچھ دن قیام کیا۔ وہاں سے دبئی اور دبئی سے جاپان پہنچ گئے۔ جاپان میں پہنچ کر بھی وہ اپنے احباب اور والدین کے لیے فکر مند تھے۔ کیوں کہ پولیس اب بھی ان کو پریشان کر رہی تھی۔ طارق مرزا تحریر کرتے ہیں :

’’ وہ اپنے ملک میں ایک صدی پر محیط سعودی خاندان کی بادشاہت سے نالاں  تھے۔ وہ سعودی عوام کی آزادی جمہوری حقوق اور آزادی رائے  کے بارے میں بر ملا گفتگو کرتے رہتے تھے تھے۔ ان نوجوانوں کے خیالات کی بازگشت بلند ہوئی تو پولیس انھیں گرفتار کرنے کے لیے یونیورسٹی پہنچ گئی نوجوانوں کو قبل از وقت علم ہو گیا اور وہ وہاں سے فرار ہو گئے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ایک دفعہ گرفتار ہو گئے تو آزادی  سورج  دیکھنا پھر نصیب نہیں ہوگا ۔‘‘(۱۸)

دنیا کے بہت سے ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ایک خاندان کئی سالوں سے حکومت کر رہا ہے۔ وہاں لوگوں کو آزادی رائے کی اجازت نہیں ہے۔ لوگ اگر حکومت وقت کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں تو ایسی آوازوں کو ہمیشہ کے لیے دبا جاتا ہے۔ لوگ خوف اور غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کے منتخب نمائندے ہی حکومت کرتے ہیں۔ جہاں تمام لوگوں کو آزاد خیالی کا حق حاصل ہوتا ہے۔

طارق محمود مرزا فرقہ بندی سے سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں فرقہ بندی کی وجہ سے مسلمان پاکستان تو کیا دریارغیر میں بھی تقسیم ہو چکے ہیں۔ جاپان کے علماء کرام کی بھی کچھ یہی خصوصیات ہیں وہاں پر موجود پاکستانی اس بات کا گلا کرتے ہیں ہم اپنی اصلاح کے لیے جن علماء کرام کو پاکستان سے یہاں لاتے ہیں۔

 وہ کچھ عرصہ بعد ہی فرقہ وارانہ تعصب اور نفرت کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کر نے لگ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مساجد میں جھگڑے ہوتے ہیں جاپانی پولیس جوتوں سمیت مسجد میں داخل ہو کر اس کے تقدس کو پامال کرتی ہے۔ طارق مرزا اس بارے میں تحریر کرتے ہیں:

 ’’ میں نے جاپانی احباب کی یہ باتیں سنیں تو بہت دکھ ہوا اگر ہمارے دینی رہنما ہمارے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کر کے ہمیں گروہوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کریں گے تو کسی اور سے خیر کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نفرت و عداوت کی ایسی چنگاری کہیں نظر آئے تو علماء اسے بجھا کہ اتفاق و اتحاد اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کریں نہ کہ اسے مزید ہوا دیں ۔‘‘(۱۹)

 پاکستان میں بہت سے علماء کرام ایسے ہیں جو لوگوں کے درمیان انتشار پیدا کرتے ہیں۔ پوری امت مسلمہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ان علماء کرام کو چاہیے کہ لوگوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لیے درس دیں اسلام میں بہت سے امور ایسے ہیں جن پر بات کی جا سکتی ہے۔ وہ لوگوں کو نماز ، روزہ ، زکوۃ کے احکامات اور قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر سیکھانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔

تاکہ پوری دنیا میں مسلمان متحد ہو سکیں اس کے برعکس عیسائیت میں بھی بہت سے فرقے موجود ہیں لیکن دنیا میں آج تک ان کے درمیان مذہب پر مبنی لڑائی نہ دیکھی نہ سنی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ دنیا میں ہر جگہ متحد دیکھائی دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور آپس میں تفرقے میں نہ پڑنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان علماء کرام کو چاہیے کہ دریار غیر میں لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق اور دین کی تعلیم دینی چاہیے ۔

 طارق محمود مرزا سیاست کو ناپسند کرتے ہیں بہت سی سیاسی محفلوں کا آغاز خوشگوار ہوتا ہے۔ جب کہ ان کا اختتام لڑائی پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاست ایک سنگین مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ جان سے بھی چلے جاتے ہیں سیاست دان تو ووٹ لے کر چلے جاتے ہیں مگر لوگوں میں تلخیاں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں یہ لڑائیاں خاندانی دشمنی تک پہنچ جاتی ہیں طارق محمود مرزا تحریر کرتے ہیں :

’’ چوں کہ میزبان کا تعلق سیاست سے تھا لہٰذا وہاں سیاسی گفتگو بھی ہوئی ویسے بھی ہم پاکستانی جہاں اکٹھے ہوں وہاں سیاست بہر حال زیر بحث آتی ہے۔ یہ میرا نا پسندیدہ موضوع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی گفتگو کا انجام عموماً تلخی کی صورت میں نکلتا ہے ۔  کسی نہ کسی کو کوئی نہ کوئی بات ناگوار گزر جاتی ہے۔‘‘(۲۰)

 پاکستانی جہاں بھی موجود ہوتے ہیں وہاں ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ سیاست پر بات چیت نہ ہو۔ پاکستان کے ہر گلی، محلہ کھانے کے ہوٹلوں اور مختلف قسم کی محفلوں میں یہی بحث ہوتی ہے۔ سیاست ایک ایسا موضوع ہے جس نے خاندانوں تک کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے پاکستان میں الیکشن کے دنوں میں خوب گہما گہمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے نوبت مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں