طارق مرزا کا یہ سفر تھائی لینڈ کے واٹ پاؤ مندر ، دیوتا واٹ آرون کا مندر، شاہی محل گرینڈ پیلس ، کھاؤ سین روڈ ، سفاری پارک، چائنا ٹاؤن اور دریائے چاؤ پھرایا جیسے علاقوں کی سیر کے احوال پر مبنی ہے۔ طارق مرزا رقم طراز ہیں:
’’۲۰ نومبر ۲۰۱۷ء کی خوش گوار صبح تھائی ایئر لائن کا طیارہ بنکاک کے خوب صورت ایئر پورٹ پر اترا تو اسے دیکھ کر میرے ذہن میں ایک خوشگوار تاثر ابھرا میں نے بنکاک کا پرانا ایئر پورٹ بھی دیکھ رکھا ہے۔ جو اتنا بڑا تھا نہ اس کا لینڈنگ ایریا اتنا پرکشش تھا ۔‘‘(۳)
طارق محمود مرزا نے اس سفرنامے میں تھائی لینڈ کے تمام حالات و واقعات کو قلم بند کرتے ہیں۔ طارق مرزا جب بھی اپنے آبائی وطن پاکستان آتے تھے ۔ تو وہ دوران سفر تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں لازمی قیام کرتے تھے۔ لیکن ان کا یہ قیام چند گھنٹوں کے لیے ایئر پورٹ تک محدود ہوتا تھا۔
طارق محمود مرزا کو اس سفر نامے کے لکھنے کے دوران بھائی کی موت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے بھائی کمانڈر طالب حسین کا جب انتقال ہوا تو طارق مرزا کو اس صدمے سے باہر نکلنے کے لیے چھ ماہ لگ گئے۔ طارق مرزا اپنے بھائی سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی وفات کا صدمہ ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ وہ اس بارے میں رقم طراز ہیں:
’’ اس کتاب کو لکھنے کے دوران مجھے جس جذباتی مدو جزر سے گزرنا پڑا۔ اس میں میری اہلیہ اور بچوں نے بہت مدد کی ان کی اعانت کے بغیر میرے لیے یہ کام جاری رکھنا نا ممکن تھا خصوصاً میری اہلیہ نے قدم قدم پر مجھے سہارا دیا ہے۔‘‘(۴)
طارق مرزا کے اہل وعیال ان سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ ان کی اس محبت کی بدولت طارق مرزا اس صدمے سے باہر آئے ۔ اپنے سفرنا مے کے آغاز میں اپنے بھائی کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ محترم بھائی کمانڈر طالب حسین کے نام جو محبتوں کے سفر میں اچانک تنہا کر گئے۔‘‘(۵)
۲۳ اگست ۲۰۱۷ء کو ان کے بھائی کو ان کی رہائش گاہ پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا ان کے بھائی کو کسی ذاتی دشمنی کی بنا پر قتل نہیں کیا گیا تھا بلکہ حرص اور لالچ کی بنا پر قتل کیا گیا تھا۔ ان کے بھائی کو قتل کرنے والا ان کے جاننے والوں میں سے ہی تھا۔ جس انسان پر ساری زندگی ان کے بھائی احسان کرتے رہے اسی سفاک اور ظالم نے ان کے بھائی کی جان لی تھی۔
طارق محمود مرزا نے دوران سفر پیش آنے والے تمام واقعات کو اپنے اس سفر نامے کی زینت بنایا ہے۔ طارق مرزا سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات کو سچائی سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے سفرنامے میں لوگوں کی کہانیاں بھی شامل ہیں۔ عرفان جاویدان کےسفرنامے سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’اس داستان ہفت رنگ جاپان میں ملنے والی "اینا” کی الم ناک کہانی حزیں پیرائے میں موجود ہے۔ نیوزی لینڈ کے غریب کسان کی سخت کوشی کی روداد نقش ہے ، قطر سے محبت کی خاطر حلیہ بدل کر فرار ہونے والے جوڑے کی روداد دل گرفتہ ہے ، پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کی جرات و بہادری کا ولولہ انگیز بیان ہے اور بے شمار چھوٹے چھوٹے واقعات کی خوش رنگ خوش بودار ٹکڑیاں ہیں ۔‘‘(۶)
ان کی یہ کہانیاں صداقت پر مبنی ہوتی ہیں۔ طارق مرزا کی یہ کہانیاں ان کے سفر ناموں میں دلچسپی کے رنگ پیدا کر دیتی ہیں جن کی بدولت. قاری سفرنامے کے آغاز سے اختتام تک لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ یہ کہانیاں وہ کسی ٹور گائیڈ سے سن کہ تحریر نہیں کرتے بلکہ یہ ان کا اپنا مشاہدہ ہوتا ہے۔
طارق محمود مرزا اپنے سفر کے دوران نئے نئے لوگوں سے ملتے ہیں دوران سفر لوگوں سے گفتگو کرتے ہیں۔ پاکستان کے متعلق لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرتے ہیں۔ پروفیسر محمد رئیس علوی تحریر کرتے ہیں :
’’شہروں میں انوکھا پن تلاش کرنا، معاشروں کے جمال کی جستجو کرنا ،نئے لوگوں سے مل کر ان کے تہہ دل جانے کی کوشش کرنا، تہذیبوں کےساتھ ربط و ضبط بڑھانا ، پاکستان، آسٹریلیا اور اسلام آباد کے بارے میں کسی بھی سمت سے آنے والے نادرست حقائق کی تصیح کرنا ، غلط فہمیوں کو دور کرنا، ملکوں اور معاشروں کے درمیان اپنے سفر کے ذریعہ باہمی تفہیم کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالنا ، ان کے سفر ناموں کی شناخت ہے۔‘‘(۷)
طارق محمود مرزا کی یہ صفت ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں پر دھیان نہیں دیتے بلکہ خود جستجو کرتے ہیں دوران سفر جب بہت سے لوگوں سے جب ان کی ملاقات ہوتی ہے تو طارق مرزا انگریزوں کی اسلام سے متعلق غلط فہمیاں دور کرتے ہیں۔ بنکاک میں جب پروفیسر جونزان کو رات کے کھانے کے لیے مدعو کرتے ہیں۔ تب وہ ان سے اسلام کے متعلق بہت سے سوالات کرتے ہیں طارق محمود مرزا مہارت سے ان سوالات کے جوابات دیتے ہیں
اور اس کی اسلام سے متعلق بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈا کے حقائق ان کے سامنے بے نقاب کرتے ہیں۔ ان کو بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے لوگوں کو قتل کرنے کا کوئی سبق نہیں دیتے ۔ ریاست مدینہ میں یہودی ، عیسائی اور دوسرے غیر مسلم مکمل محفوظ زندگی بسر کرتے تھے۔
طارق محمود مرزا کے اس سفر کا آغاز نیوزی لینڈ سے ہوا اور تھائی لینڈ کے شہر بنکاک پر اختتام ہوا۔ طارق مرزا ان تمام ممالک سے بہت ساری یادیں سمیٹ کر رخصت ہو رہے تھے۔ گھر واپسی کے لیے ان کی فلائٹ شام پانچ بجے کی تھی۔ وہ دوپہر بارہ بجے ہی ائر پورٹ پر پہنچ گئے تھے۔ وہ جب ائیر پورٹ کے لیے نکلتے ہیں تو ٹیکسی ڈرائیور اُن کو بہت جلدی وہاں پہنچا دیتا ہے اس دن ان کے پاس کہیں اور سیرو سیاحت کے لیے اتنا وقت نہیں تھا۔ ان کو اپنے گھر واپس جانے کی بہت جلدی تھی۔ انسان اپنے گھر سے زیادہ دیر تک دور نہیں رہ سکتا۔ طارق محمود مرزا نے تھائی لینڈ سے سڈنی کے لیے تھائی ائیر لائن کا انتخاب کیا۔ طارق مرزا سڈنی پہنچ کر اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں ۔:
’’مشکل ہو یا آسان وقت بالآخر گزر جاتا ہے جیسے تیسے یہ آٹھ گھنٹے گزر گئے۔ ہمارا جہاز ہماری منزل ، ہمارے شہر سڈنی کی فضاؤں میں جاپہنچا تھکے ہارے مسافروں کے چہرے کھل اٹھے، نیند سے بوجھل آنکھیں سرسبز و شاداب سیمڈنی کو دیکھ کر مسکرا اٹھیں ۔‘‘(۸)
سفر چاہے جتنا مرضی طویل کیوں نہ ہو جب ایک بار سفر کا آغاز ہو جائے تو وہ اختتام پذیر ہو ہی جاتا ہے۔ تھائی لینڈ سے آسٹریلیا کا فاصلہ آٹھ گھنٹے کا تھا اس سفر میں طارق محمود مرزا جس ائیر لائن میں سفر کر رہے تھے اس کی نشستیں بھی آرام دہ تھیں جس کی بدولت طارق مرزا کا یہ سفر سکون سے گزر گیا۔ طارق محمود مرزا کو اپنے ہم وطنوں سے بہت محبت ہے۔
طارق مرزا جب نیوزی لینڈ کے حسین مناظر کو دیکھتے ہیں تو اپنے ہم وطنوں کے لیے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ ان نعمتوں سے محروم ہیں طارق مرزا کی یہ خواہش ہے کہ ان کے ہم وطنوں کو بھی ایسی نعمتیں میسر ہوں اپنے سفرنامے کے پیش لفظ میں تحریر کرتے ہیں :
’’ میں دنیا میں جہاں بھی گیا اور جتنے حسین منظر دیکھے ، تصور کی آنکھ سے پاک سر زمین اور اس کے باسیوں کو اس منظر کا حصہ دیکھا۔ جہاں میں نے محسوس کیا کہ میرے اپنے ان نعمتوں سے محروم ہیں جو غیروں کو حاصل ہیں تو دکھ کی ہر لہر مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
انسان جب کوئی شے دیکھتا ہے تو لا محالہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ نعمت اسے اور اس کے قریبی لوگوں کو بھی حاصل ہو میرا بھی یہ خواب ہے کہ یہ سارے منظر، یہ حسن اور یہ رنگ و نکہت میرے آبائی وطن کے آنگن میں بھی اترے ۔‘‘(۹)
طارق محمود مرزا اپنے آبائی وطن پاکستان کے لوگوں کے دکھ اور درد میں برابر کے شریک ہیں اللہ تعالٰی نے ملک پاکستان کے لوگوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان کے لوگ ان نعتوں کی قدر نہیں کرتے پاکستانی اگر درخت لگائیں تو چند سالوں میں یہ ملک بھی قدرتی حسن سے مالا مال دیکھائی دے گا یہ لوگ اتنے درخت نہیں لگاتے جتنے درختوں کو کا ٹتے ہیں۔
اگر اس ملک کے تمام سرکاری ملازمین اپنا کام ایمانداری سے کرنا شروع کر دیں تو اس ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ بیرون ممالک کے سرکاری ملازمین عوام کے پیسوں پر عیاشیاں نہیں کرتے۔ اُن کے پیسے کو ان پر خرچ کرتے ہیں جس بدولت ان ممالک کے لوگوں کو قدرتی حسن اور بہت ساری سہولیات میسر ہوتی ہیں اس کے برعکس پاکستان میں مقیم لوگ ایسی سہولیات سے محروم ہیں۔