کتاب کا نام۔۔۔ اسالیب نثر اردو
صفحہ ۔۔۔39 تا 40
کورس۔۔۔۔5609
موضوع۔۔۔ سب رس کا تعارف
مرتب۔۔۔ اقصیٰ طارق
سب رس کا تعارف
سب رس کو اردو کی ادبی اور افسانوی نثر کا اولین سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر مولوی عبد الحق ۔ ۱۹۴ نے پچھلی مرتبہ اس کتاب کو دریافت کیا اور ان عالمانہ اور بسوط مقدمے کے ساتھ انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام اور تنگ آباد (دکن) سے شائع کیا ۔ ورنہ اس سے قبل فضلی کی وہ مجلس ( کربل کتھا ) ہی کو اردو کی ادبی نڑ کا پہلا شاہکار مانا جاتا رہا ہے ۔ اس کتاب کے اسلوب اور ادبی مقام کے بارے میں مولوی عبدالحق کی یہ رائے جہاں اس کتاب کے بارے میں اولین تنقیدی رائے کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں انتہائی واضح بھی ہے۔ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہم وجہی کو استاد مانتے ہیں اور جو کام اس نے کیا ہے۔ اس کا احسان نہ ماننا حقیقت میں نا انصافی ہے۔ اس زمانے میں اردو نثر کا نام نہ تھا اور نہ نثر لکھنا کمال کی بات سمجھی جاتی تھی ۔ ایک دور سالے جو اس سے قبل ں پائے جاتے ہیں، سو وہ اس قابل نہیں کہ محفل ادب میں جگہ پائیں ۔ سب رس اردو نثر کی پہلی کتاب ہے ۔ جو ادبی اعتبار سے بہت بڑا درجہ رکھتی ہے اور اس کی فضیلت اور تقدم کو ماننا پڑتا ہے ۔“
سب رس کے مصنف ملا وجہی کے تفصیلی حالات منظر عام پر نہ آسکے ۔ تا ہم اس حد تک معلوم ہو سکا ہے کہ وہ سلطان محمد قلی قطب شاہ کا درباری شاعر تھا۔ اور ملک الشعراء، بادشاہوں محمد قلی قطب شاہ محمد قطب شاہ، ابراہیم قطب وجہی طویل السن تھا ۔ وہ چار دکنی درباروں سے منسلک رہا اور اس طرح قطب شاہ خاندان کا پروردہ تھا۔ اس کا پورا نام تک لوگوں کو معلوم نہ ہو سکا، تا آنکہ اس کے فارسی دیوان کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کے ایک شعر سے اس کے پورے نام کا علم ہوا ، وہ شعر یہ ہے۔
اسم اسد الله وجهی است مخلص آرائش و کانچه بازار کلام است
اس فارسی دیوان میں وجہی نے اپنے وطن کے بارے میں بھی اشارے کیے ہیں کہ اس کے آبا واجداد کا تعلق خراسان سے تھا ۔ جبکہ وہ خود ہندوستان میں پیدا ہوا ۔ قطب شاہی دور سے وجہی کو عبد اللہ قطب شاہ کے دور میں بڑی پذیرائی ملی اور اس دور میں بادشاہ کی فرمائش پر اس نے سب رس کی تصنیف کی ۔جو مصنفین تاریخ ادبیات کے مطابق دکن کی سب سے اہم اردو کتاب ہے۔
سب رس اردو کی متصوفانہ نثر کے پس منظر میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ اور ۱۰۴۵ ھ یعنی ۱۶۳۵
میں اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی اردو ادب میں تمثیل نگاری کی روایت کا آغاز بھی ہوا اور افسانوی نثر کی خشت اول بھی رکھی گئی۔ بلکہ عزیز احمد کا خیال تو یہ ہے کہ سب رس میں ناول کے خدو خال نظر آتے ہیں۔
سب رس کے علاوہ ملا وجہی کی دو اور تصانیف کا سراغ ملتا ہے۔ ایک تاج الحقائق اور دوسری قطب مشتری” تاج الحقائق میں صوفیائے کرام کی مذہبی تعلیمات کا ذکر ہے اور یہ نثر میں لکھی گئی ہے۔ جبکہ قطب مشتری مثنوی ہے ۔ جس میں قطب شاہی شہزادے محمد قلی قطب شاہ کے عشق کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔لیکن جو مقبولیت سب اس کے حصے میں آئی ہے ۔وہ ملا وجہی کی کسی اور تصنیف کو حاصل نہ ہو سکی ۔