مولوی عبدالحق کے بقول:
"ان اوقاف کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اول تو ان کی وجہ سے نظر کو سکون ملتا ہے اور وہ تھکنے نہیں پاتی، دوسری بڑی بات یہ ہے کہ ذہن ہر جملے یا جزوِ جملہ کی اصلی اہمیت کو جان لیتا ہے اور مطلب سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔”
(مولوی عبدالحق، ڈاکٹر، قواعد اردو، ص 249)
رشید حسن خاں رقم طراز ہیں:
"اوقاف ان علامتوں کو کہتے ہیں جن کی مدد سے جملے اور جملے کے مختلف ٹکڑوں کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کا استعمال اس لیے ضروری ہے۔ اعراب کی طرح یہ بھی املا میں شامل ہیں۔
جس طرح اعراب کی مدد سے لفظوں کو صحت کے ساتھ پڑھنے میں مدد ملتی ہے، اسی طرح ‘اوقاف’ کی مدد سے جملے اور عبارت کو صحیح طور پر پڑھنے اور اس کے اجزا کے تعین میں بیش قیمت مدد ملتی ہے۔”
(رشید حسن خان، رموزِ اوقاف [مضمون]، مطبوعہ سہ ماہی اردو، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، ص 150)
کسی بھی تحریر کو، خواہ وہ قلمی ہو یا مطبوعہ، اُس کے درست مفہوم تک پہنچنے اور صحیح انداز میں پڑھنے کے لیے رموزِ اوقاف کا استعمال ضروری ہے۔ دورانِ گفتگو انسان آواز کو کبھی بلند کرتا ہے اور کبھی پست۔ کہیں رک کر بات کرتا ہے تو کہیں ٹھہرتا ہے۔
چہرے کے تاثرات، آنکھوں کے اشارے، آواز کے اتار چڑھاؤ اور ہاتھوں کی حرکات و سکنات کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ تحریر میں یہ سب ممکن نہیں، اس لیے ماہرینِ زبان نے ایسی علامات مقرر کیں جو اس کمی کو پورا کر سکیں۔
رموزِ اوقاف کی اہمیت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
- رموزِ اوقاف کے استعمال سے عبارت کا مفہوم واضح اور تفہیم آسان ہو جاتی ہے۔
- نظر کو سکون اور ذہن کو آسودگی حاصل ہوتی ہے۔
- مصنف کے لہجے، زور و غیرہ کی پہچان میں مدد ملتی ہے، جس سے ابلاغ بہتر ہوتا ہے۔
- قاری جان لیتا ہے کہ عبارت کو کس انداز میں ادا کرنا ہے۔
- پڑھنے میں روانی آتی ہے اور ابہام و تعقید رفع ہو جاتی ہے۔
- ان کے بغیر عبارت الفاظ کا ملغوبہ بن کر رہ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر:
"روکومت، جانے دو”
"روکو، مت جانے دو”
ان دونوں جملوں میں صرف سکتہ کا مقام بدلنے سے مفہوم بالکل مختلف ہو گیا۔
رموزِ اوقاف، نہ صرف عبارت کے صوری اور بصری حسن کا ذریعہ ہیں بلکہ مفہوم کی وضاحت اور صحتِ بیان کے لیے بھی ضروری ہیں۔ دفتری اور قانونی زبان میں ان کی حیثیت اور بھی اہم ہو جاتی ہے کیونکہ ایک علامت کی تبدیلی سے مطلب میں فرق آ جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے نصاب میں رموزِ اوقاف پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اردو کے اساتذہ اور اہلِ قلم ان کی اہمیت سے یا تو غافل ہیں یا ان کے درست استعمال پر قادر نہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق کالج کے طلبہ بھی سکتہ (comma) اور ختمہ (full stop) کے استعمال سے ناواقف ہوتے ہیں۔
مقتدرہ قومی زبان کے سیمینار "اردو املا و رموزِ اوقاف” میں عملی تجاویز پیش کی گئیں۔ خوش قسمتی سے یہ موضوع انٹرمیڈیٹ اردو لازمی کے نصاب میں شامل کر لیا گیا، لیکن عملی سطح پر صورتحال تسلی بخش نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رموزِ اوقاف کی تدریس پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ طلبہ میں ان کا شعور بیدار ہو۔
جب کوئی زبان ارتقاء کے مراحل طے کرتی ہے اور ایک موثر ذریعۂ اظہار و ابلاغ بنتی ہے تو جملوں میں اتار چڑھاؤ اور وقفوں کی نشان دہی کے لیے مکتوبی علامات کا تعین ناگزیر ہو جاتا ہے۔ قدیم اردو میں اوقاف کا رواج بہت کم تھا۔ فارسی اور اردو کے قدیم مخطوطات میں وقف کے نشانات محض نقطوں، دائروں اور ستاروں کی صورت میں ملتے ہیں اور ان کے اصول و قواعد متعین نہ تھے۔
انیسویں صدی میں اردو کو دفتری، عدالتی، تعلیمی اور ادبی زبان کے طور پر فروغ ملا تو رموزِ اوقاف کے اصول و ضوابط مرتب کرنے اور ان میں یکسانیت لانے کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔
حواشی
رموزِ اوقاف کی اہمیت،کتاب: اردو زبان: قواعد و املا،کورس کوڈ: 9010،مرتبہ: کنول،صفحہ: 145 تا 147
پروف ریڈر [طیبہ]