ریاض احمد نفسیاتی تنقید اور حلقہ اربابِ ذوق میں شمولیت
تعارف
ریاض احمد ایک نفسیاتی نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق میں ان کی شمولیت 1935 کہ اجلاسوں میں نظر آتی ہے۔حلقہ ارباب ذوق کے 23 اکتوبر 1935 کہ ایک جلسے کی کاروائ جو کہ دیال سنگھ کالج ہاسٹل لاہور میں ہوا ۔ حاضرین کی فہرست میں ریاض احمد کا نام درج ہے۔
نفسیاتی اثرات اور نظریات
حلقہ ارباب ذوق کہ پلیٹ فارم سے اور اسکے علاوہ ان کی تنقید کا جایزہ لیا جاۓ تو پتہ چلتا ہے ریاض احمد فرایڈ کہ نظریات سے متاثر ہیں۔ انھوں نے اردو شاعری میں بھی جنس سے متعلق تین نظریات پر بحث کی ہے پہلا نظریہ جو شاعری من ابھرتا ہے وہ ” نظریہ روحانی” ہے۔ دوسرا نظریہ وہ ہے جس میں محبوب گوشت پوست کا انسان ہوتا ہے ،وہ کوی ماورا چیز نہیں ہے ۔ تیسرا نظریہ لغو تصورات پر مبنی ہے۔ انھوں نے اپنے نظریات سے ثابت کیا ہے کہ یہ تینوں نظریات قدیم و کلاسیکل شعرا کہ ہاں ملتے ہیں۔
ہم جنس پرستی اور رومانی تحریک
ایک اور رویہ جس کہ بارے میں ریاض احمد نے اشارہ کیا ہے وہ ہم جنس پرستی کا ہے رومانوں تحریک کی وجہ سے یہ ختم ہو گیا مگر آج بھی بعض اوقات اس کہ اثرات نظر آجاتے ہیں۔ آگے چل کر ریاض احمد نے فیض اور میراجی کی مثالیں دی ہیں ۔ان کہ خیال میں فیض کے ہاں جنس کم اور حقیقت پسندی زیادہ ہے جبکہ میرا جی کہ ہاں جنسی جذبے کی فراوانی ہے۔ میرا جی کہ ہاں تو عورت کہ اعضا کا لفظوں می بیان عام مل جاتا ہے۔
متن (دہرایا ہوا)
ریاض احمد ایک نفسیاتی نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق میں ان کی شمولیت 1935 کہ اجلاسوں میں نظر آتی ہے۔حلقہ ارباب ذوق کے 23 اکتوبر 1935 کہ ایک جلسے کی کاروائ جو کہ دیال سنگھ کالج ہاسٹل لاہور میں ہوا ۔ حاضرین کی فہرست میں ریاض احمد کا نام درج ہے۔
"ریاض احمد، ، قیوم نظر، امجد الطاف، سجاد رضوی، شہرت بخاری، صدر: ریاض احمد”
سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں:
"میراجی کہ بعد نفسیاتی دبستان کہ اہم نقاد ریاض احمد ہیں”
حلقے کہ حوالے سے دیکھا جاۓ تو "میراجی” کو اس لحاظ سے اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے نفسیاتی تنقید کو اردو میں باقاعدہ ایک دبستان کی حیثیت دی۔ بطور نقاد انکا اپنا ایک الگ اسلوب ہے، حلقہ ارباب ذوق میں ان کے اثر اور تنقید کہ بارے میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:
” ریاض احمد کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ انھوں نے ادبی تنقید کو ساینسی عمل بنا دیا۔ چنانچہ انھوں نے متخیلہ، ہییت اسلوب، جمال اور ذوق جمال جیسے مسایل کو عالمانہ انداز میں سلجھانے کی کوشش کی اور ترقی پسند نقطہ نظر کو ہدف بناۓ بغیر حلقے کہ نقطہ نظر کو مثبت انداز میں ابھارا۔
نفسیات ریاض احمد کی تنقید کی امتیازی جہت ہے۔انھوں نے بیشتر مباحث کو نفسیاتی اصطلاحات سے اور ان کی صداقت کو شاعری کہ داخلی تجزیے سے ثابت کرنے کی سعی کی۔
ریاض احمد نے زندگی کو ادب کا موضوع قرار دیا۔ وہ ادب کہ وسیلے سے حسن، خیر،اور صداقت کی قدروں کو اجاگر کرنے کہ آرزومند ہیں اور ادب میں حقیقت کہ منطقی پہلو کو اجاگر کرنے کی بجاۓ اس کے جمالیاتی تاثر کو جذباتی اسلوب میں پیش کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
ریاض احمد جدید اردق تنقید میں توازن اور استدلال کی مثال ہیں چنانچہ انکے بیشتر تجزیے خالصتاً علمی نوعیت کہ ہیں اور ان کے ہاں جانبداری کا شائبہ موجود نہیں”
حلقہ ارباب ذوق کہ پلیٹ فارم سے اور اسکے علاوہ ان کی تنقید کا جایزہ لیا جاۓ تو پتہ چلتا ہے ریاض احمد فرایڈ کہ نظریات سے متاثر ہیں۔ انھوں نے اردو شاعری میں بھی جنس سے متعلق تین نظریات پر بحث کی ہے
پہلا نظریہ جو شاعری میں من ابھرتا ہے وہ ” نظریہ روحانی” ہے۔
دوسرا نظریہ وہ ہے جس میں محبوب گوشت پوست کا انسان ہوتا ہے ،وہ کوئی ماورا چیز نہیں ہے
تیسرا نظریہ لغو تصورات پر مبنی ہے۔
انھوں نے اپنے نظریات سے ثابت کیا ہے کہ یہ تینوں نظریات قدیم و کلاسیکل شعرا کہ ہاں ملتے ہیں۔
ایک اور رویہ جس کہ بارے میں ریاض احمد نے اشارہ کیا ہے وہ ہم جنس پرستی کا ہے رومانوی تحریک کی وجہ سے یہ ختم ہو گیا مگر آج بھی بعض اوقات اس کہ اثرات نظر آجاتے ہیں۔
آگے چل کر ریاض احمد نے فیض اور میراجی کی مثالیں دی ہیں۔
ان کہ خیال میں فیض کے ہاں جنس کم اور حقیقت پسندی زیادہ ہے جبکہ میرا جی کہ ہاں جنسی جذبے کی فراوانی ہے۔ میرا جی کہ ہاں تو عورت کہ اعضا کا لفظوں می بیان عام مل جاتا ہے۔
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اردو تنقید اور حلقہ اربابِ ذوق (70کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاہ
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام
- صفحہ نمبر: —
- آپ تک پہنچانے میں معاون: ام زینب