رضیہ سجاد ظہیر کی ناول اور افسانہ نگاری | Razia Sajjad Zaheer ki novel aur afsana nigari
رضیہ سجاد ظہیر کی ناول اور افسانہ نگاری
(۱۹۷۹-۱۹۱۷)
صغرا مہدی کی معاصرین میں رضیہ سجاد ظہیر اہم مقام رکھتی ہیں۔ انہوں نے افسانے ، ناول، خاکے اور تراجم اردو ادب کو دیئے ہیں ۔ یہ ۱۵ رفروری ۱۹۱۷ میں راجستھان کے اجمیر میں پیدا ہو ئیں ۔ ان کو ابتدائی تعلیم گھر پر ہی دی گئی۔ زمانے کے دستور کے خلاف انہوں نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی ۔
۱۰ دسمبر ۱۹۳۸ میں ان کی شادی مشہور مارکسی لیڈر اور ادیب سجاد ظہیر سے ہوئی۔ شادی کے بعد انہوں نے ایم ۔ اے اردو کیا۔ اور ایک عرصے تک لکھنو کے کرامت کالج میں پڑھاتی رہیں ۔ ۱۹۶۵ میں دہلی آگئیں آخری عمر تک یہیں رہیں اور اپنے شوہر کے پہلو میں آسودہ خواب ہوئیں۔
رضیہ سجاد ظہیر کو ابتدا سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔ یہ زمانہ رسالے میں رضیہ دلشاؤ” کے نام سے مضامین لکھا کرتی تھیں۔ ان کے دو افسانوں کے مجموعے ” زرد گلاب اور اللہ دے بندہ لئے ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے ۔ افسانوں کے ان مجموعوں میں ان کے خاکے بھی شامل کیے گئے ہیں ۔
رضیہ سجاد ظہیر اشتراکی ذہن کی مالک تھیں ۔ ان کا ایسا ذہن بنانے میں ان کے شوہر سجاد ظہیر کا بڑا رول رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں اشتراکیت کی چھاپ نظر آتی ہے۔ ان کے فن پاروں میں زندگی کی حقیقت نظر آتی ہیں کیونکہ جو کچھ انہوں نے اپنی زندگی میں دیکھا محسوس کیا اس کو اپنی کہانیوں میں کردار بنا کر پیش کر دیا۔
انہوں نے خیالی پیکر سے زیادہ تر گریز کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی عمدہ مثال ان کے پہلے افسانوی مجموعے کے افسانے نمک میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس افسانے میں تقسم ملک کے بعد لوگوں کی ذہنیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ جو اپنے وطن سے بے گھر ہو کر دوسرے ملکوں میں جا کر تو بس جاتے ہیں۔ مگر ان کو اپنا وطمن شدت سے یاد آتا ہے۔
اس افسانے کے کردار ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کرتے نظر آتے ہیں ۔ اس میں ایک سکھ عورت ملک کےہوارے میں اپنے ملک پاکستان کو چھوڑ کر ہندوستان بس جاتی ہے۔ اس کی ملاقات اسٹیشن پر ایک مسلم خاتون صفیہ سے ہوتی ہے جو اپنے رشتے داروں سے ملنے پاکستان جارہی ہوتی ہے۔ اس سے سکھ عورت لاہوری نمک کی خواہش ظاہر کرتی ہے۔ صفیہ پاکستان پہنچ کر سب سے پہلے اس کے لیے نمک خریدتی ہے
اور پوری کوشش میں رہتی ہے کہ اس تک یہ نمک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس عورت کو جانتی تک نہیں، کسٹم پر جانچ پڑتال کے وقت اسے اپنے کسی سامان کی فکر نہیں ہوتی لیکن نمک کے لیے وہ کشم افسر سے گزارش کرتی ہے کہ اس کو یہ لے جانے دیں اور لاہوری نمک لے جانے کے پیچھے چھپی پوری داستان اسے سنا دیتی ہے۔ کشم افسر کا دل بھی وطن کی محبت سے ملول ہوتا ہے ۔ وہ سامان
چیک کرنے کے بعد صفیہ سے کہتا ہے ملاحظہ فرمائیں :
محبتیں تو کشم سے اس طرح گزر جاتی ہیں کہ قانون حیران رہ جاتا ہے ۔ لے
یہ ایک دلچسپ افسانہ ہے۔ اس کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ وطن کی محبت ہندو مسلم سکھ اور عیسائی میں یکساں پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس مجموعے کے دوسرے افسانے ” پت جھٹر کی آواز : ” بیجوں کی پیری دو دل ایک داستان ، کہانی کی کہانی ایک کو نہ بھی نہیں، کچھ تو کہیے اور زرد گلاب ہیں ۔ اس کے تمام
افسانے سماجی و معاشرتی مسائل کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔
رضیہ سجاد ظہیر نے اپنے افسانوں میں پسماندہ طبقے کی زندگی پر زیادہ توجہ دی۔ ان کے افسانوں کے دوسرے مجموعے میں اس طبقے کے مسائل کو ہی زیادہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ہی ایک افسانہ نیچ ہے۔
اس میں ایسی عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے جو چھوٹی ذات کی ہوتے ہوئے بھی اپنی انا و خوداری کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونے کے بجائے اس کو چھوڑ آتی ہے اور محنت مزدوری کر کے اپنی زندگی بسر کرتی ہے۔ محلے کا رام اوتار جو سرکاری دفتر میں چوکیدار ہوتا ہے۔ اس سے شاملی کے تعلقات بن جاتے ہیں ۔ چوکیدار کی اس حرکت پر اس کو نوکری سے نکالنے کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔
شاملی کو جب یہ بات معلوم ہوتی ہے تو و ورام اوتار کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔
محلے میں رہنے والی ڈاکٹر سلطانہ کو شاملی کے اس طرح چلے جانے پر بڑی حیرت ہوتی ہے۔ وہ سوچتی ہے نیچ ذات کی ایسی ہی بے وفا ہوتی ہیں۔ بہت عرصے بعد ایک دن اتفاق سے راستے میں سلطانہ سے امرود بیچتی شاملی سے مڈ بھیڑ ہو جاتی ہے۔ تب وہ شاملی سے رام اوتار کو چھوڑ جانے کی وجہ پوچھتی ہے ۔ پھر شاملی کہتی ہے کہ :
دو بار بار مجھ سے کہتا تھا کہ تیرے کا رن میں نوکری بھی چھوڑ نے کو تیار ہوں۔ مجھ پر احسان دھرتا
تھا۔ آپ بتائیے کیا میں نے اس سے کہا تھا کہ میرے کارن نوکری چھوڑ دے۔ وہ مجھے پاتا، میں اس کو پاتی ۔ اس میں نہ میرا احسان اس پر تھا نہ اس کا مجھ پر ہوں کیا سمجھتا ہے مجھ کو ۔ عمر بھر طعنے دیتا کے تیرے کا رن میری سرکاری نوکری چھوٹی اس جیسے دس کو کھلانے کی ہمت رکھتے ہیں ہم یہ ہے
اس افسانے کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ رضیہ سجاد ظہیر عورت کی قید و بند کی زندگی کے خلاف تھیں ۔ وہ عورت کی خود مختاری و آزادی کی قائل نظر آتی ہیں۔ ان کے دوسرے افسانوں کے مجموعے کے دیگر افسانے معجزہ رئیس بھائی سوداگر انتظار ختم ہوا انتظار باقی ہے لاوارث ، اور شعلئے ہیں۔ ان تمام افسانوں میں بیانیہ انداز اپنایا گیا ہے اور مکالموں کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ رضیہ سجاد ظہیر نے اپنے افسانوں کے ذریعے عورت کے دیگر مسائل کو بیان کیا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے یہاں سیاسی و سماجی رجحان کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے۔ افسانوں کے علاوہ رضیہ سجاد ظہیر نے چار ناول بھی لکھے ہیں۔ ان میں سر شام ان کا پہلا مختصر ناول
ہے۔ یہ ۱۹۵۳ میں شائع ہوا۔ اس کا موضوع تقسم ملک اور بنگال کا ہزارہ ہے۔ اس میں دو حساس نو جوانوں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ حلیمہ اس کا مرکزی کردار ہے۔ حلیمہ ایک جذباتی لڑکی ہوتی ہے۔ وہ اپنے رشتے کے بھائی سلمان کے دوست بشیر کے ذریعے منصور سے ملتی ہے اور اس کے خیالات اور حالات جان کر اس سے متاثر ہو جاتی ہے۔
منصور مشرقی بنگال کا رہنے والا ہوتا ہے۔ اس کے والدین تقسم ہند کے دوران نواکھالی میں قتل کر دیئے جاتے ہیں ۔ جس سے وہ بہت نمکین ہوتا ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے ملک، اپنی زبان ، اپنی تہذیب وثقافت کو بچانے کے لیے اپنے وطن واپس لوٹ جانا چاہتا ہے۔
حلیمہ اور منصور ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ مگر معاشرے کا قانون انہیں ایک ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ تب یہ دونوں چھپ کر شادی کر لیتے ہیں ۔ حلیمہ کے والد کو جب اس کی شادی کی خبر ملتی ہے تو وہ مشتعل ہو جاتے ہیں۔
مگر وقت کے ساتھ وہ بھی نرم پڑ جاتے ہیں۔ منصور کے دوستوں اور عزیزوں کے خطوط آتے ہیں کہ اس کے وطن کو اس کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے وطن لوٹنے کا ارادہ کر لیتا ہے۔
اپنے شوہر کی خراب طبیعت کی وجہ سے حلیمہ بھی اس کے ساتھ جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔ مگر راستے میں منصور کی طبیعت زیادہ بگڑ جاتی ہے اور وہ دم توڑ دیتا ہے ۔ حلیمہ اپنے شوہر کی موت کے بعد ہمت سے کام
لیتی ہے اور اس کی لاش اس کے وطن لے جانے اور اپنے آنے والے بچے کو اس کی راہ پر چلانے کا ارادہ کر لیتی ہے۔ اس ناول میں عورت کی ہمت اور اس کے پر عزم ارادے کو نمایاں کیا گیا ہے۔ حالانکہ عورت کو بہت کمزور مانا
جاتا ہے جو ذراسی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتی ہے۔ مگر حلیمہ کی باہمت فطرت کو دیکھ کر بالکل بھی ایسا نہیں لگتا کے کانچ کی طرح نازک سبھی جانے والی عورت تن تنہا ایک مرد کے مقاصد کو پورا کرنے کا ارادہ کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس ناول میں بٹوارے کے بعد کے حالات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے کہ اس وقت کا انسان کسی طرح انحطاطی، سیاسی اور معاشرتی مشکلوں کا سامنا کر رہا تھا۔
رضیہ سجاد ظہیر کا دوسرا ناول کانٹے ۱۹۵۷ میں شائع ہوا۔ یہ ایک سماجی ناول ہے۔ اس میں امیری و غریبی کے مسئلے کو اٹھایا گیا ہے۔ یہ ثریا اور جاوید کی عشقیہ داستان ہے۔ تریا ایک حساس طبیعت کی مالک ہوتی ہے۔ اس کو دولت کی بے جا نمائش سے بے زاری ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو اپنے گھر کے ماحول سے الجھن ہوتی ہے ۔
مگر اس کے اندر بغاوت و احتجاج کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ اس کی ملاقات جب جاوید سے ہوتی ہے تو اسے صحیح معنوں میں اپنا ہمدرد ساتھی مل جاتا ہے۔ کیوں کہ جاوید کو بھی اپنے انجینئر والد کا رویہ پسند نہیں ہوتا ۔ اس لیے وہ اپنے والد کے آئی اے ایس آفیسر بنانے کے خواب کو روند کر اخبار کی ایک معمولی نوکری کرنے میں سکون محسوس ہوتا ہے۔
اس وجہ سے اس کے والد اسے اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں۔ پھر یہ کرائے کے کمرے میں اپنی گزر بسر کرنے لگتا ہے۔ ثریا اور جاوید ایک دوسرے سے شدید محبت کرنے لگتے ہیں۔ مگر ظالم سماج ان کو ایک ہونے نہیں دیتا۔ ثریا کی ماں اس کی خواہش جانے بغیر اس کی شادی ایک امیر و کبیر خاندان میں طے کر دیتی ہے۔
ثریا اندر ہی اندر گھٹتی ہے مگر کسی سے کچھ نہیں کہتی ۔ جب کہ جاوید اس سے چھپ کر شادی کرنے کو بھی کہتا ہے مگر اس کے لیے ثریا رضا مند نہیں ہوتی ۔ آخر کار عشق کی آگ میں جلتے ہوئے اس کی موت ہو جاتی ہے۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے گھر وا. ہو والے اس کے غم سے واقف ہوتے ہیں۔
اس ناول میں عورت کی اس عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے جو اپنے خاندان کی عزت کی خاطر اپنی محبت سے دستبردار ہونا پسند کرتی ہے۔ مگر اپنے جذبات کی شدت کو روکنا اس کے بس میں نہیں ہوتا تبھی تو موت کی پرسکون آغوش اس کو اپنے آنچل میں سمیٹ لیتی ہے۔
رضیہ سجاد ظہیر کا تیسرا ناول "من” ہے ۔ جو ۱۹۶۳ میں منظر عام پر آیا۔ یہ ایک رومانی ناول ہے۔ اس میں طوائف کی بیٹی کی زندگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ جو اپنی ماں کی طرح طوائف نہیں بننا چاہتی۔ بلکہ پڑھ لکھ کر عزت دار زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ اپنے اس ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ اپنی ماں کا گھر چھوڑ کر آشرم چلی جاتی
ہے۔ مگر وہاں کے ماحول سے وہ پرسکون نہیں رہتی ۔ پھر وہ کرائے کا کمرہ لے کر رہنے لگتی ہے اور ٹیوشن پڑھا کر اپنی گزر بسر کرتی ہے۔ سلمان سے اس کو محبت ہونے کے باوجود وہ اس کے قابل خود کو نہیں سمجھتی ۔ دوسری طرف سلمان کو اس کے ماضی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ وہ اس سب میں سمن کا کوئی قصور نہیں سمجھتا:
دیکھو سمن ، پھول کو ہم گلے لگاتے ہیں اس کی خوشبو اور پاکیزگی ، رنگ اور نرمی حسن اور لطافت کے لیے نہ۔ وہ کس زمین سے پیدا ہوا کس مٹی پر بڑھا ، پا ، کتنے کانٹے اس کے آس پاس تھے اس کا سوال تو کوئی گدھا ہی اٹھا سکتا ہے۔“ سے
یہ ایک عمدہ ناول ہے۔ اس معنی میں کہ طوائف زادی کا شریف زندگی گزارنے کا خواب دیکھنا بلکہ یہی نہیں اس کو عملی جامہ پہنا کر زندگی کی تلخ حقائق سے ڈٹ کر مقابلہ بھی کرتا ہے۔
رضیہ سجاد کا چوتھا اور آخری ناول ” اللہ میگھ دے ہے۔ جو ۱۹۷۳ میں شائع ہوا۔ اس کا موضوع ان کے تمام ناولوں سے منفرد ہے۔ اس لیے یہ سب سے اہم بھی مانا جاتا ہے۔ اس کا موضوع ۱۹۶۰ کا سیلاب ہے۔ جو گوشتی ندی پر باندھ ٹوٹنے کی وجہ سے آیا تھا۔
اس سیلاب میں ہونے والی تباہی کا ذمہ دار سرکاری افسران کو ٹھہرایا گیا ہے۔ ناول کے چارا ہم کر دار امتیاز ، نہال ، نریند اور بوس ہیں یہ چاروں نو جوان لکھنو یو نیورسٹی سے انجینئر نگ کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان سب کو ہر وقت یہی فکر لگی ہوتی ہے کہ اس سیلاب کی تباہی سے لوگوں کو کس طرح بچایا جائے ۔ اس لیے وہ گو متی ندی کا معائنہ کرنے جاتے ہیں اور جب ان کو باندھ ٹوٹنے کے آثار نظر آتے ہیں
تو وہ شہر کے اعلیٰ افسران کے پاس جا کر شہر کے لوگوں کو اس سیلاب کے آنے سے باخبر کرنے کو کہتے ہیں تا کہ لوگ وقت رہتے اپنا تحفظ کر سکیں۔
مگر حکومت کے غیر ذمہ دار افسران کی بات پر کان نہیں دھرتے اور ان کو نو جوانی کا جوش کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیلاب آجاتا ہے اور گوشتی ندی کا باندھ ٹوٹ جاتا ہے۔
آس پاس کے علاقے اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ یہ چاروں نو جوان سیلاب کی زد میں آئے لوگوں کو بچانے کے لیے اپنی جان کی بازی تک لگا دیتے ہیں ۔ نہالایک لڑکی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان گنوا دیتا ہے۔
اس ناول میں زندگی کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی و تہذیبی مسائل کو حقیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں قومی یک جہتی کی خوبصورت مثال دیکھی جاسکتی ہے۔
رضیہ سجاد ظہیر سیاسی طور پر کمیونزم سے متاثر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے ناولوں میں یہ نقطۂ نظر پایا جاتا
ہے۔ ان کے ناولوں کے کردار ایک انسان دوست ہمدرد دل کے مالک نظر آتے ہیں اور وہ اپنی محبت قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ناولوں میں ایک خاص بات یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اس کے اہم کردار کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ سر شام میں منصور کی موت کانٹے میں شریا کی اور اللہ میگھ دئے میں نہال کی موت اس بات کو ثابت کرتی ہے۔
مجموعی طور پر رضیہ سجاد ظہیر کے ناول کسی نہ کسی مقصد کے تحت لکھے جاتے ہیں اور اس میں مقصدیت کے ساتھ لکشی و رعنائی بھی پائی جاتی ہے۔ جس سے ناول کا قاری محفوظ ہوئے بغیر نہیں رو سکتا۔
رضیہ سجاد ظہیر کی تخلیقات کے جائزے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی تخلیقات کا دیا زندگی کے حقیقی چیزوں سے جلایا ہے۔ اپنے سیدھے سادے اسلوب میں انہوں نے اردو ادب کو دلکش اور خوبصورت فن پارے عطا کیے ہیں۔
پی ڈی ایف سے تحریر: ثمینہ کوثر
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔