قرة العین حیدر کی فکشن نگاری | Qurratulain Hyder ki fiction nigari
قرة العین حیدر کی فکشن نگاری
(۱۹۲۷-۲۰۰۷)
صفرا مہدی کی معاصرین میں اردو کی معروف فکشن نگار قرۃ العین حیدر بھی شامل ہیں ۔ یہ علم وادب کے گہوارے علی گڑھ میں ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ کو پیدا ہوئیں۔ اس وقت ان کا نام نیلوفر رکھا گیا ۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کے والد سجاد حیدر یلدرم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں رجسٹرار کے عہدے پر فائز تھے۔ سجاد حیدر یلدرم اردو کے بہترین انشا پرداز ، ادیب اور معروف افسانہ نگار تھے۔ انھوں نے انشائیے ، افسانے ، ناول ، ڈرامے اور چند نظمیں بھی لکھیں ۔
علاوہ ازیں ترکی ، انگریزی اور فارسی کی متعدد تصنیفات کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ” خیالستان اور انشائیوں کا مجموعہ ” حکایات و احتساسات ہے۔ قرۃ العین حیدر کی والدہ نذر سجاد حیدر بھی ایک اچھی ادیبہ تھیں ۔ کم عمری میں ہی ان کی کہانیاں رسالہ تہذیب نسواں ، رسالہ ” پھول اور دیگر رسائل و جرائد میں شائع ہونے لگی تھیں۔
قرة العین حیدر نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں علم و ادب کو خاص اہمیت حاصل تھی ۔ ان پر اس علمی و ادبی فضا کا اثر پڑنا فطری بات تھی ۔ اسی باعث بہت چھوٹی عمر میں ہی ان کے ہاتھ میں قلم آگیا۔ ابتدا میں ایک کارٹون بنا کر رسالہ ” پھول "کو دیا۔ تقریبا چھ یا سات سال کی عمر میں انھوں نے اپنی پہلی کہانی لکھی ۔ انہوں نے لا تعداد تخلیقات اردو ادب کو دی ہیں ۔
قرۃ العین حیدر کے چار افسانوی مجموعے مستند طور پر منظر عام پر آئے ہیں۔ ستاروں سے آگئے (۱۹۴۷) شیشے کے گھر “ (۱۹۵۴) ” پت جھڑ کی آواز (۱۹۶۶) اور روشنی کی رفتار (۱۹۸۲) ہیں ۔ ” ایک شام "ان کا پہلا افسانہ ہے۔
قرة العین حیدر کا پہلا افسانوی مجموعہ ”ستاروں سے آگے "کا عنوان علامہ اقبال کی غزل کے ایک مصرعے سے ماخوذ ہے:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
قرة العین حیدر کی یہ خاصیت رہی ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں یا دیگر تخلیقات کے لیے
عنوان کسی نہ کسی غزل کے شعر سے مستعار لیے ہیں۔
قرۃ العین حیدر کے پہلے افسانوی مجموعے "ستاروں سے آگے” میں ان کے ابتدائی دور کے افسانے شامل ہیں۔ اس میں مختصر ترین ۱۴ افسانے ہیں جو تمام تر طالب علمی کے عہد کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس میں اعلیٰ طبقے کے خوش حال اور خوش ذوق نو جوانوں کی تفریحی زندگی کو نمایاں کیا گیا ہے۔
اس مجموعے کے تمام افسانے ان کی ابتدائی کاوشیں ہیں ۔ اسی باعث اس میں اس نوع کی فکر میں پختگی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ جو بعد کے فن پاروں میں پائی جاتی ہے
دوسرے افسانوی مجموعے "شیشے کے گھر” میں کل بارہ افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے کے زیادہ تر افسانے تقسیم ملک کے بعد لکھے گئے ہیں ۔ اسی لیے ان میں تقسیم کے دردو غم ، ایک نئی زندگی کے مسائل ، ٹوٹتی بکھرتی
تہذیب و ثقافت کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ شیشے کے گھر کے ایک مختصر ترین افسانے ” جہاں پھول کھلتے ہیں”، میں قرۃ العین حیدر نے اپنے والد کی وفات کا پر درد قصہ بیان کیا ہے۔ جس سے ان کے کرب وغم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس مجموعے کے زیادہ تر افسانے طویل ہیں۔ سب سے طویل افسانہ ” دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم” ہے۔
اپنی طوالت اور لاتعداد کرداروں کی بھر مار کی وجہ سے بعض لوگ اس کو ناولٹ کہنے پر مصر ہیں۔
مگر بہر حال یہ افسانہ ہی ہے۔ قرۃ العین حیدر کا ایک افسانہ جلا وطن ہے جو شیشے کے گھر“ اور ” پت جھڑ کی آواز دونوں افسانوی مجموعوں میں شامل ہے۔
اس میں تقسیم ملک سے کچھ پہلے اور بعد کے واقعات کو قلم بند کیا گیا ہے۔ اس میں خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی زوال پذیر تہذیب کا جائزہ لیا گیا ہے
جو کسی وجہ سے ملک کے بٹوارے کے بعد ہندوستان میں ہی رہ جاتے ہیں اور ان کو یہاں طرح طرح کے مصائب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح کا ایک خاندان کشوری کا بھی ہوتا ہے۔ جو بوارے کے بعد بھی اپنی مجبوریوں کی بنا پر پاکستان نہیں جا پاتا اور کشوری کو مسلمان ہونے کے باعث اپنے ہی ملک ہندوستان میں طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ کشوری کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی نوکری نہیں ملتی ۔ اور اس کے ہندو دوستوں کا رویہ بھی اس کے ساتھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک بار اتفاقا اس کی ہر دل عزیز ہندو سہیلی کھیم سے ملاقات ہو جاتی ہے تو وہ اس طرح کشوری پر طنز کرتی ۔
تم تو پاکستانی ہو۔ تمھیں نمستے نہ کہنا چاہیے کھیم نے بڑی طنز کے ساتھ کہا۔ میرے اوپر جانوکسی نے برف ڈال دی۔ میں نے کھسیانی ہنسی ہنس کر دوسری اور دیکھا“۔ اس کے شوہر نے جو بہت سمجھ دار معلوم ہوتا تھا۔ فورآ بات سنبھالی اور کہنے لگا ۔ اچھا بہن جی ۔ اس سے تو ہم بہت جلدی میں ہیں ۔ ہے
کھیم کی ان باتوں سے کشوری کو گہرا صدمہ پہنچتا ہے۔ یہ صرف کشوری کا اکیلا کر ب نہیں ہوتا ، بلکہ ہندوستان کے زیادہ تر مسلم گھرانے کو اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ جہاں پاکستان ہجرت کرنے پر ہندوستان کے مسلمان مہاجر کہلاتے وہیں ہندوستان رہ جانے پر انہیں غیر ملکی ہونے کا الزام سہنا پڑتا تھا۔
اس طرح کے حالات میں یہ لوگ اپنے ہی ملک میں غیر بن کر رہ گئے تھے۔
قرة العین حیدر پاکستان سے ۱۹۶۱ میں ہندوستان واپس آگئی تھیں ۔ انھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو اپنے تیسرے افسانوی مجموعے ” پت جھٹر کی آواز میں عمدہ طریقے سے برتا ہے۔ ان افسانوں کے مطالعے کے بعد ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان افسانوں میں بٹوارے کے بعد کا کرب ابھی بھی پوشیدہ ہے۔
افسانہ پت جھڑ کی آواز ” جلا وطن اور ہاؤسنگ سوسائٹی میں نئی زندگی نئی تہذیب واقدار کے اثرات کی وجہ سے مشترکہ تہذیب اور جاگیردارانہ نظام کے زوال کی ٹوٹتی بکھرتی جڑیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
قرۃ العین حیدر کے حوالے سے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے صرف اعلیٰ متوسط طبقے کی زندگی اور اس کے گلیمر ہی کو زیادہ فوکس کیا ہے مگر انھوں نے ” کارمن“ اور ” ڈالن والا جیسے افسانے میں افلاس و پسماندہ طبقے کے لوگوں کی زندگیوں کو پیش کر کے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔
افسانہ ” کارمن میں انہوں نے غریب اور مجبور و بے بس عورت کی کہانی بیان کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ افلاس و پس ماندگی اور عدم مساوات کی زندگی صرف ایشیا کے لوگوں کی بدقسمتی نہیں ہے بلکہ یوروپ کے بھی بعض ممالک میں ایسی زندگی دیکھی جا سکتی ہے۔
قرۃ العین حیدر کا چوتھا افسانوی مجموعہ ” روشنی کی رفتار ہے۔ یہ اٹھارہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔
اس میں کچھ افسانے داستانی طرز کے ہیں ۔ ان میں ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی ” سینٹ فلورا آف جار جیا کے اعترافات روشنی کی رفتار اور آئینہ فروش شہر کوراں اہم ہیں ۔ ان تمام افسانوں میں زیادہ تر یہودی اور عیسائی کرداروں کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ "روشنی کی رفتار ایسا انوکھا افسانہ ہے جس میں ایک طرف وہ دنیاد کھائی گئی ہے جس کا تعلق ۱۹۶۶ سے ہے اور دوسری طرف ۱۳۱۵ قبل مسیح کی دنیا ہے ۔ دونوں زمانوں کے درمیان تقریباً تین ہزار برس کا فاصلہ ہے اس افسانے میں حال کو ماضی سے جوڑنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
ان افسانوں کے علاوہ فوٹو گرافر ایک عمدہ افسانہ ہے جس میں جوانی اور بڑھاپے کی دو تصویر پیش کی گئی ہے۔ اس مجموعے کا ایک افسانہ ” یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے ہے ۔ یہ عنوان اقبال کی نظم طارق کی دعا سے ماخوذ ہے:
یہ غازی ، یہ تیرے پر اسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
افسانوں کے علاوہ قرۃ العین حیدر نے کل سات ناول قلم بند کیے ۔ انہوں نے ۱۹۴۷ میں تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور وہیں ۱۹۴۹ میں اپنا پہلا ناول ” میرے بھی صنم خانے” تخلیق کیا۔ اس لیے اس ناول میں تقسیم ملک سے پہلے کی ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ناول کے عنوان کو علامہ اقبال کے اس شعر سے مستعار لیا گیا ہے:
تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی دونوں کے صنم فانی
ناول ” میرے بھی صنم خانے” میں تقسیم ہند سے پہلے اودھ کی زوال پذیر تہذیب کی داستان بیان کی گئی ہے۔ جس کو انگریزوں نے اپنی سازش سے زوال کی طرف گامزن کیا اور ملک میں فرقہ پرستی کے وجود کو جگہ دی۔ انگریزوں کی اس سازشی چال سے فرقہ پرستی کے ذریعے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کروایا گیا ۔ ان تمام پہلوؤں پر ناول میں روشنی پڑتی ہے۔
قرة العین حیدر کا دوسرا ناول "سفینۂ غم دل” ۱۹۵۲ میں منظر عام پر آیا۔ ان کے پہلے ناول ” میرے بھی صنم خانے” اور "سفینۂ غم دل” میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ دونوں ہی ناول میں اودھ کی زوال پذیر تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے ۔ "سفینہ غم دل” کی کہانی تحریک آزادی سے شروع ہو کر تقسیم ہند کے کچھ عرصے بعد یعنی ۱۹۵۲ یا ۱۹۵۳ کے عہد پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ اس میں چار خاندانوں کی کہانی پیش کی گئی ہے۔
عیسائی ، ہندو مسلم بھائی چارے پر بنی ہے۔ ناول کی ابتدا بہت سادے طریقے سے ہوتی ہے مگر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے۔ پیچیدگی بھی بڑھتی جاتی ہے۔
قرة العین حیدر نے اپنے دوسرے ناول میں فنی خامیوں پر کافی حد تک قابو پا لیا تھا جو پہلے ناول ” میرے بھی صنم خانے” میں موجود تھیں۔
قرة العین حیدر کا تیسرا شہرۂ آفاق ناول ” آگ کا دریا "ہے۔ اس کا انگریزی و ہندی میں ترجمہ قرۃ العین حیدر کے زمانے میں ہو گیا تھا۔ قرۃ العین نے انگریزی میں اس کا ترجمہ The river of fire کے نام سے کیا۔ لیکن اس کا اصل زیادہ متاثر کن ہے۔ ترجمے میں وہ بات نہیں ہے۔ اس میں شعور کی رو کا عمدہ تجربہ کیا گیا ہے۔
اس تکنیک کے ذریعے وقت کو فطری تسلسل کے ساتھ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ جس سے ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے میں مل ں میں ہندوستان کی ڈھائی ہزار سالہ تہذیب کی نمائندگی کی گئی ہے۔
ناول "آگ کا دریا” ویدک عہد سے شروع ہو کر موریہ خاندان کے دور حکومت ، مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد ، انگریزی سامراج کے عہد اور پھر ملک کی تقسیم کے واقعات کے بعد اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
اس میں قدیم ہندوستان کے شہر سراوستی، ہستنا پور ، لکھنو ، ایودھیا، تکشلا ، کاشی ، پاٹلی پتر وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کا عنوان جگر مراد آبادی کے اس شعر سے ماخوذ ہے:
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
"آگ کا دریا” میں گوتم فیلمبر ، چمپا ، کمال الدین منصور اور ہری شنکر اہم کردار ہیں۔ جو ہر دور میں خفیف ردو بدل کے ساتھ موجود رہتے ہیں ۔ یہ ناول فنی نقطۂ نظر سے اپنی معراج کو پہنچا ہوا ناول ہے۔
قرۃ العین حیدر کا چوتھا ناول ” آخر شب کے ہم سفر” ہے ۔ اس کو ۱۹۷۹ میں تخلیق کیا گیا ۔ آگ کا دریا کے بعد یہ دوسرا اہم ناول مانا جاتا ہے ۔ ” آخر شب کے ہم سفر میں ڈھاکہ کے چار خاندانوں کے مختلف افراد کےآپسی تعلقات کو پیش کیا گیا ہے۔
ناول بنگال کی دہشت پسند اور انقلابی تحریک ۱۹۴۲ کے آندولن کے واقعات اور مطالبہ پاکستان سے شروع ہو کر تقسیم ملک کے بعد تک کے واقعات کی عکاسی کرتا ہے ۔ یہ ناول اس نوعیت سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے کہ قرۃ العین حیدر نے پہلی بار اپنے کسی ناول میں بنگال کی تہذیب و ثقافت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سے پہلے ان کے ناولوں کی فضا لکھنوی تہذیب کے اطراف گردش کرتی رہی ہے۔
"آخر شب کے ہم سفر "کا مرکزی کردار دیپالی سرکار ہے اور دوسرے اہم کرداروں میں روزی، جہاں آرا بیگم ، ریحان الدین، او مارانی، یاسمین بلمونٹ اور نجم السحر وغیرہ ہیں۔ یہ تمام کردار کافی اٹلکچول اور اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور علوم وفنون سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔ یہ تمام کردار جنگ آزادی کی لڑائی کو آگے بڑھانے میں بھی اہم رول ادا کرتے ہیں ۔
"آخر شب کے ہم سفر "کے بعد قرۃ العین حیدر کے تین ناول "کار جہاں دراز ہے”,” گردش رنگ چمن” اور "چاندنی بیگم” منظر عام پر آئے ۔ جن میں "کار جہاں دراز ہے” سوانحی ناول ہے ۔ اس کو فیملی ساگا بھی کہا جاتا ہے۔ جو تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد ۷ ۱۹۷ میں ، دوسری جلد ۱۹۷۹ میں اور تیسری جلد "شاہراہ حریر”کے نام سے ۲۰۰۳ میں منظر عام پر آئی ۔” کار جہاں دراز ہے“ کا عنوان اقبال کے اس شعر سے ماخوذ ہے:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
اردو ادب میں اس نوعیت کا سوانحی ناول پہلی بار دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ناول چلتا پھرتا معلومات کا ذخیرہ ہے اس کے مطالعے سے ہندوستان کی عظیم شخصیتوں، تہذیبوں ، سیاسی و معاشی حالات، انقلابی زمانوں سے بھی واقفیت ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ اس کو ناول ماننے سے انکاری ہیں ۔ مگر اس کے داستانوی اور افسانوی طرز بیان سے اس کو ناول کے ہی زمرے میں رکھا جاتا ہے ۔ اس ناول سے متعلق قمر رئیں لکھتے ہیں :
"کار جہاں دراز ہے میں مصنفہ نے ان گم شدہ زمانوں اور ان کہنہ آبادیوں کو دریافت کیا ہے کہ جن کا تعلق ان کے اجداد سے رہا ہے اور جن کو وقت نے روند کر خرابہ بنادیا ہے۔ یہ اردو میں اپنی نو عیت کی اچھوتی تخلیق ہے جو نا درو وقیع معلومات فراہم کرتی ہے”۔
"گردش رنگ چین "قرۃ العین حیدر کا ایک خوبصورت ناول ہے ۔ سات سو صفحات پر مشتمل یہ ناول بھی اودھ کی عظیم الشان مسلم تہذیب کی عکاسی کرتا ہے ۔ یہ ۱۹۸۸ میں لکھا گیا۔ ناول کا عنوان غالب کی غزل کے ایک مصرعے سے مستعار ہے:
گردش رنگ چمن ہے ماہ و سال عندلیب
"گردش رنگ چمن "میں طوائفوں کی ذاتی زندگی پر بحث کی گئی ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مہذب معاشرے کی نظر میں دھتکاری ہوئی اور بد نام عورتیں بھی اپنے دل میں صاف ستھری گھر یلو ازدواجی زندگی کی آرزو رکھتی ہیں۔ بشر طیکہ سماج کے ٹھیکیدار انھیں ایسا کرنے دیں۔
ناول کی کہانی بہت دلچسپ اور توجہ طلب ہے اور اس کا بہاؤ سابقہ تمام ناولوں سے کہیں زیادہ تیز ہے۔ اسی لیے "سرائے طغرل بیگ” سے لے کر "دریا نما تک” کا زمانی فاصلہ جو تین چارسوں پر محیط ہے بآسانی طے کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ کوئی زمانی وقفہ بیچ میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی کردار کی تکمیل میں تشنگی باقی رہتی ہے۔
قرۃ العین حیدر کا آخری ناول "چاندنی بیگم” ہے اس ناول کو ۱۹۹۰ میں قلم بند کیا گیا ہے ۔ یہ ناول موضوع اور مسائل کے لحاظ سے ان کے دوسرے ناولوں سے مختلف ہے اس میں سرحد کے دونوں طرف یعنی ہندوستان اور پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی معاشی اور معاشرتی صورتوں کو خاندانی زندگی کے توسط سے پیش کیا گیا ہے۔
اس میں ان بے سہارا عورتوں کی پریشانیوں کو واضح کیا گیا ہے جن کے شوہر یا والدین انھیں ہندوستان میں بے یارو مددگار چھوڑ کر پاکستان چلے جاتے ہیں اور ان لڑکیوں کی شادی ایک مسئلہ بن کر رہ جاتی ہے ۔ ناول میں قنبر علی ، چاندنی بیگم ، وکی میاں، چنبیلی بیگم، صفیہ ، بھوانی شنکر ، سوختہ اور بیلا ، کنور علی جیسے کردار بڑی مہارت سے تراشے گئے ہیں۔
قرۃ العین حیدر کے ناول ” آگ کا دریا” کے علاوہ باقی تمام ناول بھی اپنے فنی امتیازات کی بنا پر برسوں یاد کیے جانے والے ناولوں میں شمار ہوتے ہیں۔
قرۃ العین حیدر نے افسانے ، ناول کے علاوہ کئی ناولٹ بھی سپرد قلم کیے ہیں اور ناولٹ نگاری کے فن کو صنف ادب کا درجہ بھی دلایا۔ ان کی بعض طویل کہانیوں پر ناولٹ کا گمان ہوتا ہے مگر جن تخلیقات کو ہم وثوق سے ناولٹ کہہ سکتے ہیں۔ وہ "دلر با”,” سیتا ہرن”,” چائے کے باغ “ اور ”اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو” ہیں ۔ یہ چاروں ناولٹ ایک مجموعے میں چار ناولٹ کے نام سے شامل ہیں۔ اس کا پہلا ناولٹ ” دلر با “ طوائف کی زندگی کی نمائندگی کرتا ہے اس میں سید رفاقت حسین کی تحقیر آمیز باتیں گلنار جیسی انا پرست طوائف کے دل میں کانٹے کی طرح چھ جاتی ہیں اور پھر وہ اپنی توہین کا بدلہ وہ رفاقت حسین کی پوتی حمیدہ کو "دلر با” طوائف بنا کر لیتی ہے۔
چار ناولٹ مجموعے میں قرۃ العین حیدر کا ایک اہم ناولٹ "سیتا ہرن” ہے ۔ یہ ۱۹۶۰ میں تخلیق کیا گیا۔ اس میں تقسیم ہند کے بعد کے واقعات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ سیتا میر چندانی اس کا مرکزی کردار ہے۔ یہ پاکستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آتی ہے۔ اس ناولٹ کے بقیہ تمام کردار اس شر نار تھی لڑکی کے کردار کو نمایاں کرنے کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔
اس مجموعے کا ایک ناولٹ "چائے کے باغ “ بھی ہے اس کو ۱۹۶۴ میں لکھا گیا ۔ اس میں ڈھاکہ کے دولت مند اعلیٰ افسران کی طرز زندگی کی عکاسی کی گئی ہے ۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک مختلف ناولٹ "اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو” بھی اس میں شامل ہے۔ یہ اس معنی میں دوسرے سے الگ مانا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اعلیٰ طبقے کی بجائے ایک پسماندہ طبقے کی زندگی کو نمایاں کیا گیا ہے۔
رشک قمر نے اپنی زندگی کا سفر جہاں سے شروع کیا تھا قسمت نے اس کو وہیں لا کر کھڑا کر دیا۔ مفلسی اور پسماندگی ہمیشہ اس کا مقدر ہی رہتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے تمام افسانے ، ناول اور ناولٹ اپنے داستانی اور افسانوی اسلوب اور دلکش زبان و بیان اور نئے نئے تکنیکی نقطہ نظر کے باعث اپنی الگ انفرادیت رکھتے ہیں۔ ان کی اہمیت وافادیت اردو دنیا میں ہمیشہ قائم رہے گی۔
پی ڈی ایف سے تحریر: ملیحہ اکبر
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔