قول محال کی تعریف اور مثالیں

کچھ اس تحریر سے:

  1. قول محال سے ایسا کلام یا بیان مراد ہے جو معنوی تضاد کا حامل ہو۔۔۔
  2. اس کو بعض اساتذہ نے دروغ نما راستی کہا ہے۔۔۔
  3. مغربی ادب کی اصطلاح پیراڈاکس (Paradox) اس کا قریب ترین متبادل ہے۔۔۔
  4. قول محال بالعموم ایک ایسے بیان یا صورت حال کا نام بھی ہے جو خود تنقیصی کا تاثر فراہم کرتا ہے۔۔۔
  5. مغرب میں پیراڈاکس کی اصطلاح انیسویں صدی کے نصف دوم میں رائج ہوئی ۔ جمال پرستوں اور رومانیوں کے ہاں اس اصطلاح کے نمونے عام دکھائی دیتے ہیں۔۔۔
  6. نثر میں رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی نے قول محال کو فنی التزام کے ساتھ برتا ہے۔۔۔
  7. ملنا ترا اگر نہ ہو آساں تو سہل ہے
  8. دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

قول محال کی تعریف

——>قول محال سے ایسا کلام یا بیان مراد ہے جو معنوی تضاد کا حامل ہو۔

اس کو بعض اساتذہ نے دروغ نما راستی کہا ہے، یعنی ایسا سچ جو جھوٹ میں ملفوف ہوتا ہے۔ شاعر یا ادیب جب قول حال کو قرینے اور سلیقے سے استعمال کرتے ہیں تو یہ معنوی تضاد کا حامل کلام معنی کے نئے آفاق اور ابعاد روشن کرتا ہے

اور عام سی بات اس کے سہارے خوب صورتی کا نقش بن جاتی ہے۔ مغربی ادب کی اصطلاح پیراڈاکس (Paradox) اس کا قریب ترین متبادل ہے۔ پیراڈاکس یونانی لفظ Paradoxan سے بنا ہے،

—-> جس کا لغوی مفہوم مختلف بیان ہے۔ ظاہری طور پر قول محال دو متضاد خیالات سے معنوی دوری کا حامل کلام دکھائی دیتا ہے اور بعض لوگ اسے رواروی میں مہمل یا مبہم کلام خیال کرتے ہیں، جو درست نہیں ۔ قول محال حقیقت میں یہ ایک صنعت ہے اور اس کا بہتر اور برمحل استعمال وہی کر سکتا ہے ، جو فن کے اسرار ورموز کا ماہر ہو۔

قول محال کی تعریف مختلف ناقدین کی نظر میں

پروفیسر اسلوب احمدانصاری

—–>قول محال کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

———-> قول محال سے مراد محض لفظی تضاد یا د تفنن نہیں ہوتا ، جو اس کے برعکس مطلب نکلنے سے پیدا ہوتا ہے بلکہ وہ روشنی (Illumination) اور وہ حیرت و استعجاب بھی جو متضاد شعری بیانات کے بالمقابل رکھنے اور ان کے بالآخر کسی مثبت حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔

———>اسلوب احمد انصاری: ادب و تنقید؛ الہ آباد سنگم پبلشرز، ص ۶۰ ]

——>قول محال بالعموم ایک ایسے بیان یا صورت حال کا نام بھی ہے جو خود تنقیصی کا تاثر فراہم کرتا ہے.

بقول جابر علی سید

—–> دو منفیوں کو مثبت میں بدلنا قول محال کا جو ہر ہے ۔“ قول محال تضاد کی حدوں سے آگے نکل کر منطقی وحدت میں ڈھل جانے کا نام ہے۔ مغربی نقاد کلنتھ بروکس (Cleanth Brooks) نے قول محال کو تنقیدی اصطلاحات میں خاص اہمیت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔

اس کا خیال ہے کہ قول محال کی زبان شاعری کے لیے مناسب اور لازمی ہے۔ اس کے مطابق قول محال کی حامل زبان توضیحی زبان کی نفی کرتی ہے۔ اس کے خیال کے مطابق استعارے میں چھپکنے والا جو ہر بھی قول محال کی روشنی سے فیض یاب ہوتا ہے۔ کیوں کہ استعارے میں پایا جانے والا بعد قول محال کی سب سے بڑی اور اہم صفت ہے۔

انور جمال کے نزدیک قول محال

——> ایسا تضادی بیان جو مسلمہ تصور کے برعکس ہو، پیرا ڈاکس کہلاتا ہے لیکن قول محال محض تضاد نہیں بلکہ قول محال جہاں شروع ہوتا ہے وہاں تضاد دختم ہونے لگتا ہے۔ تضاد تو ایک عمومی حقیقت ہے، جس کے فنی بیان میں دل کشی تو ہے صنعت کاری کا جمال دلفریب نہیں ۔

——> مغرب میں پیراڈاکس کی اصطلاح انیسویں صدی کے نصف دوم میں رائج ہوئی ۔ جمال پرستوں اور رومانیوں کے ہاں اس اصطلاح کے نمونے عام دکھائی دیتے ہیں۔

آسکر وائلڈ ، چیسٹرٹن اور برنارڈ شا کی تحریروں میں قول محال کی صنعت خوبی کے ساتھ استعمال ہوتی ہے۔

قول محال کی مثالیں

——>اُردو میں غالب* نے سب سے زیادہ قول محال کو فنی سلیقے کے ساتھ استعمال کیا ہے اور اس صنعت کے نادر استعمال کے باعث بعض معمولی مضامین میں وہ رفعت اور بلندی پیدا ہو گئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ دوسرے شعرا کے ہاں بھی اس کے خوب صورت نمونے دکھائی دیتے ہیں۔

——> نثر میں رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی نے قول محال کو فنی التزام کے ساتھ برتا ہے۔

—–>قول محال کی چند شعری مثالیں دیکھیں:

ملنا ترا اگر نہ ہو آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

ہم نے جس شخص کو توقیر شناسائی دی
اُس نے خوش ہو کے ہمیں عزت رسوائی دی

جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں ، بڑھ گئے سائے


حواشی

(موضوع)،{قول محال }}،[کتاب کا نام]،{{{ادبی اصطلاحات}}}،{کوڈ کورس :—–> : 9015}،{صفحہ نمبر { 109 تا 111 }،{مرتب کرده…مسکان محمد زمان}

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں