۱۹۷۰ء کے بعد کا افسانہ شمس الرحمٰن فاروقی کی نظر میں | Post-1970 Short Stories in the View of Shamsur Rahman Faruqi
تحریر از: ڈاکٹر رابعہ بی بی ایبٹ آباد،ڈاکٹر الطاف یوسف زئی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہزارہ یونیورسٹی اور ڈاکٹر عابد علی اسسٹنٹ پروفیسر ہزارہ یونیورسٹی
موضوعات کی فہرست
اس تحریر کے اہم مقامات:
- ۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں تاریخ سے ادب میں فلاں رجحان کا آغاز ہوا کیونکہ ادب میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بہت آہستگی سے رونما ہونے شروع ہوتی ہیں۔۔۔
- جدیدیت کے رجحان کے تحت افسانہ لکھنے والے افسانہ نگاروں نے افسانے کو نئی نئی تکنیکوں کے قالب میں ڈھالا۔۔۔
- جدید افسانہ نگاروں نے فارمولا اسٹوری کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے۔مصوری اور شاعری کے امتزاج سے شاعری کو نئی شکل دی۔۔۔
- جدیدیت کوئی مذہب نہیں کوئی الہامی فلسفہ نہیں ،جس سے انحراف کفر ہو۔۔۔
- شمس الرحمٰن فاروقی کہتے ہیں ادب کو کسی تصور کے تابع قرار دینا ادب کی موت قرار دینا ہے۔۔۔
- شمس الرحمٰن فاروقی کہتے ہیں کہ معاصر اردو ادب آج بھی جدیدیت کی راہ پر ہی گامزن ہے۔۔۔
۱۹۷۰ء کے بعد کا افسانہ شمس الرحمٰن فاروقی کی نظر میں
ادب میں تبدیلیاں چاہے فنی سطح پر ہوں یا فکری سطح پر ایک دم سے نہیں آتی ہیں۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں تاریخ سے ادب میں فلاں رجحان کا آغاز ہوا کیونکہ ادب میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بہت آہستگی سے رونما ہونے شروع ہوتی ہیں۔
کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے معاشرتی اور سماجی حالات بدلتے ہیں ۔ان تبدیلیوں کے اثرات ادب میں بھی نظر آنے لگتے ہیں۔ادب میں یکسانیت نہیں ہے ادب میں وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان یکسانیت سے اکتا جاتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: شمش الرحمن فاروقی کی تنقید نگاری
انسان کو نئی نئی منزلیں تلاش کرنے کی اور ہر دم کچھ نیا اور منفرد کرنے کی خواہش ہمیشہ رہتی ہے ۔اس لیےہم دیکھتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب ترقی پسندوں کے ادب کا بہت چرچاتھاایک وقت ان کے عروج کا دور تھا لیکن جب اس ادب میں بھی یکسانیت نظر آنے لگی ۔
تو ادیبوں کے ایک بڑے گروہ نےکچھ نیا کرنے کے لئے نئی زمینوں کی تلاش شروع کردی اور بہت جلد ترقی پسندوں کے نظریات سےانحراف نے جدیدیت کے رجحان کو پنپنے میں مدد فراہم کی اور جدیدیت کے تحت اردو ادب میں نت نئے تجربات ہونے لگے ناقدیں کے نزدیک اردو ادب میں جدیدیت کے رجحان کا آغاز ۱۹۶۰ء میں ہوا ۔
شمس الرحمٰن فاروقی کی ادارت میں چھپنے والے رسالہ’شب خون ‘جس کا اجراء ۱۹۶۶ء میں ہوا ۔
یہ بھی پڑھیں: شعریات بوطیقا از ارسطو مترجم شمس الرحمن فاروقی | pdf
اس رسالے نے جدیدیت کے اس رجحان کو عام کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اردو افسانے میں بھی افسانہ نگاروں نے نت نئے تجربات کیے۔
جس کی وجہ سے کہیں افسانے میں پلاٹ غائب کر دیا کہیں کردار نظر نہیں آرہے ۔کہیں مبہم علامتوں کے استعمال کی وجہ سے ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہوا ۔اس دور میں علامتی اور تجریدی افسانے کو بہت فروغ حاصل ہوا ۔
یہ بھی پڑھیں: اردو میں مابعد جدیدیت | PDF
شمس الرحمٰن فاروقی نے قارئین کو نئی سوچ اور نئی فکر سے روشناس کروایا۔اس دور کے افسانہ نگاروں نے افسانے میں نت نئے تجربات کیے ان تجربات کا ایک مثبت پہلو یہ تھا کہ اس دور کے افسانہ نگاروں نے نئے نئے موضوعات پر افسانے لکھے ان تجربات سے کہانی میں نیاپن اور تازگی آئی۔جدیدیت کے شروع کے دور میں لکھے گئے افسانے کے بارے میں شمس الرحمٰن فاروقی کہتے ہیں:
’’اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ افسانےمیں اس وقت جو ہوا بہہ رہی تھی وہ کتنی آسان اور سادہ تھی ۔اس لئے نئے افسانے نے لوگوں کو زیادہ مبتلائےرنج کیا ،پریشان کیا ۔کہیں تو کو ئی پلاٹ نہیں ہے ،کہیں کردار نہیں ہیں۔کہیں لکیریں کھینچی ہوئی ہیں،کہیں نثر کے نام پر نثری نظم نظر آرہی ہے ۔کہیں پر اتنی علامتیں ہیں کہ پلے ہی نہیں پڑرہا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے ۔
تو آہستہ آہستہ ظاہر ہے ،وہ بھی ختم ہوا ،کچھ تو افسانہ نگاروں کے ہاں بھی شدت ختم ہوئی کہ ان کا پہلا مقصد جو تھا ،لوگوں کو نئے امکانات کی طرف متوجہ کرنا تھا ،وہ پورا ہواکچھ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو عادت پڑ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانے کچھ تھوڑے بہت آسان بھی ہوئے اور لوگ کچھ مانوس بھی ہوئے اس کے ساتھ تو آہستہ آہستہ وہ جو ایک عنصر تھا سنسنی خیزی کا ،وہ نئے افسانے میں کم نظر آنے لگا۔ ورنہ تجربہ تو دونوں اصناف میں ہوا ،شعر میں بھی ہوا اور افسانے میں بھی ہوا اور دونوں میں نئی باتیں کہی گئیں۔
اور نئے اشارے دیے گئے اور نئی راہیں دریافت کی گئیں۔آج کوئی افسانہ نگار ایسا نہیں ہے جس نے ان راہوں سے کہیں نہ کہیں اپنے کو منسلک نہ کیا ہو ۔وہ لوگ جو جدیدیت کے خلاف ہیں ان کے افسانے دیکھئے ۔اچھے یا برے ،جیسے بھی وہ افسانے ہیں،اس طرح کے افسانے جدیدیت سے پہلے ممکن نہ تھے۔‘‘(1)
جدیدیت کے رجحان کے تحت افسانہ لکھنے والے افسانہ نگاروں نےافسانے کو نئی نئی تکنیکوں کے قالب میں ڈھالا ۔ شعری ،نثری،تمثیلی ،داستانی اور کتھا کی زبان میں افسانے لکھنے کو رواج ملا۔دیو مالائی ،حکایتی،تمثیلی ،اور داستانی زبان کا استعمال کیا جانے لگا ۔ جدید اردو افسانے کی اشاریت ،رمزیت،ایجاز و اختصارجدید افسانےکی خصوصیت ٹھہرا۔
جدید افسانہ نگاروں نے فارمولا اسٹوری کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے۔مصوری اور شاعری کے امتزاج سے شاعری کو نئی شکل دی۔جدید افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں کے لئے دلکش اسلوب کا استعمال کیا نئے انداز بیان اور اچھوتے پیرائے کے ذریعے اس کو روایتی افسانے سے منفرد کیا۔
ادیبوں نے ترقی پسندوں کے دور میں لکھے جانے والے افسانے کے فن اور موضوعات دونوں سے انحراف کیا جدیدیت کے شروع کے دور میں جو شدت پسندی نظر آتی ہے وہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوئی ۔1970 ء کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ افسانوں میں فکری اور فنی سطح پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ۔
ان تبدیلیوں کی وجہ سے کہا گیا کہ جدیدیت کی جگہ مابعد جدیدیت نے لے لی ۔شب خون رسالہ جس کے اوپر جدیدیت کے ترجمان کا لیبل چسپاں تھا لیکن 1970ء کے بعد’’ شب خون‘‘ کے افسانوی حصے میں اضافہ ہوا ہے۔ سید محمد اشرف اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’۱۹۷۰ء کے بعد کا قاری پہلے سے زیادہ معلومات کاحامل ہے مابعد جدید افسانےمیں نہ سمجھ آنے والی علامت نگاری ،،فیشن زدگی،تجریدیت اورمبہم موضوعات نہیں تھے ۔اس لئے قاری کی دلچسپی افسانوں میں بڑھی۔
یہی وجہ ہے کہ سوغات آج کل ،دستک،ایوان اردو،اثبات ونفی،شاعر،نیاورق یہاں تک کے شب خون کے افسانوی حصے میں اضافہ ہوا جس کا قاری نے پر تپاک خیر مقدم کیا ۔‘‘(2)
یہ بھی پڑھیں: جدیدیت مابعد جدیدیت اور اردو ادب از ناصر بغدادی | PDF
جدیدیت کارجحان جب عام ہوا تو اس کے ترقی پسندوں سے مختلف کچھ بنیادی تصورات تھے ۔جن پر عمل کرنے والا جدید کہلائے گا۔کیونکہ یہ رجحان ترقی پسند تحریک کے ردِعمل کے طور پر سامنے آیا تھا۔
اس لیےاس کے بنیادی تصورات بھی ان کے نظریات سے مختلف تھے ۔ترقی پسند تحریک کی بنیاد نظریہ پر رکھی گئی تھی ۔اس لیےاس تحریک سے وابستہ جو لوگ تھے انھوں نے وہ ادب تخلیق کیا جو ان کے منشور ان کے نظریے کے اصولوں کے مطابق تھا اب تخلیق کاروں کو نظریہ کی انتہا پسندی سے چھٹکارا دلایا گیا۔
ترقی پسند تحریک کی انتہا پسند رویے نے جدید ادب کو فروغ دیا ۔ترقی پسندوں نے ادب کو ایک خاص نظریے کا پابند بنا دیا تھا لیکن جدیدیت نے ادب کو فلسفے اور نظریے کی قید سے آزاد کر دیا ۔
ان کے خیال میں تخلیق کار کو اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہئے وہ جو سوچتا ہے جو محسوس کرتا ہے وہ بیان کرے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی کہتے ہیں ادب کو کسی تصور کے تابع قرار دینا ادب کی موت قرار دینا ہے۔
جدیدیت کے دور میں تجریدی افسانے کو بہت فروغ حاصل ہوا ۔اس لیے ناقدین ادب تجریدی افسانے کا تعلق جدیدیت سے جھوڑتے ہیں ۔شمس الرحمٰن فاروقی جدیدیت اور تجریدی افسانے کو ایک ہی چیز نہیں سمجھتے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’جدیدیت اور تجریدی افسانہ بالکل ایک ہی چیز نہیں ہیں۔۔یہ ممکن ہے کہ کوئی تحریر تجریدی افسانہ نہ ہو لیکن جدید افسانہ پھر بھی ہو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تجریدی افسانہ ہو اور اسے جدید نہ کہوں تجریدی افسانہ ایک زمانے میں بہت مقبول ہوا تھا جس طرح کہ اینٹی غزل کا یک میلان تھا ۔
وہ لوگ کہتے تھے کہ افسانے کی جوروایت یا جوضابطے پریم چند سے لے کر ہمارے اوپر جاری کیےجارہے ہیں،ہم اس کو نہیں مانتے۔ہم یہ کہتے ہیں کہ افسانہ بنانے کی اور بھی شکلیں ہوتی ہیں۔۔۔۔افسانے میں مشکل کہنے کا رجحان پیدا ہوا۔۔۔مشکل کہاجائے مبہم کہا جائے زیادہ معنویت پیدا کی جائے ۔
یہ کوشش تھی لیکن یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ ہمیشہ ہی جدیدیت کے ہم معنی ہوں۔ایک زمانہ تھا ان چیزوں کا اور ان سے فائدہ بھی بہت ہوا تو اگر ایسا افسانہ آج نہیں لکھا جارہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس افسانے نے اپنا کام پورا کر لیا ہے ۔‘‘(3)
1970 ء کے بعد جب اردو ادب میں فکری اور فنی سطح پر تبدیلیاں رونما ہونے شروع ہوئیں تو ناقدین نے کہاجدیدیت کے رجحان کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس نئے دور کو مابعد جدیدیت کے نام سے موسوم کیا گوپی چند نارنگ مابعد جدیدیت کے موجد تھے انھوں نے اس پر بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں ۔
شمس الرحمٰن فاروقی کہتے ہیں کہ ایک خاص طرح کی شاعری اور افسانہ جو 1960ء کے لگ بھگ مشہور تھا اگر آج نہیں لکھا جارہا تو ان چیزوں کو میں نے کبھی بھی جدیدیت کا جوہر نہیں کہا اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں:
’’جدیدیت کی بنیاد میں فرق اس لئے نہیں ہو سکتا کہ جدیدیت کی جو پوزیشن ہے وہی ہے ،جو تھی لیکن فرق ایک طرح سے ہوسکتا ہے مثلاََایک خاص طرح کی شاعری جو ء کے آس پاس بہت مقبول ہورہی تھی آج اس کا چرچا سننے میں کم آتا ہے ۔ایک خاص طرح کا افسانہ اس کا بھی چرچا کم سننے میں آتا ہے۔
تو ان چیزوں کو کبھی میں نے جدیدیت کا جو ہر نہیں کہا ۔میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ چار پانچ سات بنیادی تصورات ہیں جو ان کو تسلیم کرے۔ان پر عمل کرے وہ جدید ہے ۔اس سے بحث نہیں کہ وہ تجریدی افسانہ لکھ رہا ہے،مشکل افسانہ لکھ رہا ہے ۔آسان افسانہ لکھ رہا ہے ،اس کی شاعری مشکل ہے آسان ہے ۔‘‘(4)
جدیدیدیوں نے ادب کو کسی خاص نظریے اور فلسفے کی قید سے آزاد کیا اورادیب کو آزادی رائے کی آزادی دی۔اس لیے جدیدیت کے رجحان کے تحت لکھے گئے ادب اور ترقی پسندوں کے دور میں لکھے گئے ادب میں جوفرق ہے
وہ آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن مابعد جدیدیت میں ہمیں جدیدیت کے رجحان سے انحراف کی بجائے انجذاب کی صورت نظر آتی ہے یعنی اس دور کے افسانہ نگاروں نے جدیدیت کے بنیادی تصورات سے انحراف نہیں کیا اس دور کے افسانہ نگاروں نے علامتی اور تجریدی افسانہ لکھنا ترک نہیں کیا لیکن ایسی علامت نگاری سے گریز کیا جس سے افسانہ مبہم بن جائے ۔یعنی ۱۹۸۰ء تک پہنچتے پہنچتے افسانے کی ایک روایت قائم ہوچکی تھی ۔
جدیدیوں نے شروع میں جو افسانے لکھنے میں نئے نئے تجربات کئے تو ان میں سے کچھ کامیاب ہوئےکچھ ناکام بھی ہوئے لیکن ان ناکامیوں اور کامیابیوں نے بعد میں آنے والوں کی راہنمائی کی ۔
تو اس بارے میں احمد محفوظ نےشمس الرحمٰن فاروقی سے سوال پوچھاتھاکہ جن نظریات کی تبلیغ و تشہیر آپ نے کی ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں کوئی تبدیلی آئی ہےتو اس کے جواب میں انھوں نے کہا تھا:
’’تبدیلی سے اگر مراد یہ ہے کہ کوئی بنیادی رویہ بدلا ہے جن بنیادوں پر تصورات قائم کئے گئے تھےادب کے بارے میں،ان میں سے کوئی بنیاد تبدیلی کا تقاضا کررہی ہے یا رویہ تبدیل ہوچکا ہے تو اس کا جواب تو نہیں میں ہے ۔ایسا کچھ نہیں ہے تبدیلی دراصل اس طرح ہوتی ہے کہ آدمی کی عمر کے ساتھ ساتھ مطالعہ بڑھتا ہے ۔
کچھ چیزیں وہ نئی حاصل کرتا ہے ،کچھ پرانی چیزوں پرنظر ثانی کرتا ہے اور جب نئی چیزیں اس کے سامنے آتی ہیں اور اس کے مطالعے میں داخل ہوتی ہیں توپرانی چیزوں پر لا محالہ ایک روشنی پڑتی ہے ،تو اس طرح سے کبھی کبھی یوں ہو سکتا ہے کہ دلچسپی کا محور بدل جائے۔‘‘(5)
بعض ناقدین نے کہااب مابعد جدیدیت کا دور ہے ۔افسانوں میں مبہم علامتوں کی وجہ سے جو ابلاغ کا مسلۂپیدا ہوا تھا وہ ختم ہوچکا ہے ۔اب افسانے آسان ہوچکے ہیں کہانی پن افسانے میں لوٹ آئی ہے ۔ادب کا رشتہ جو پیچیدہ اور مبہم تحریر کی وجہ سےقاری سے ٹوٹ چکا تھا اب وہ بحال ہوگیا ہے لیکن شمس الرحمٰن کا ناقدوں کی ان باتوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی کہتے ہیں کہ معاصر اردو ادب آج بھی جدیدیت کی راہ پر ہی گامزن ہے جدیدیت کے چار پانچ بنیادی تصورات جن کو میں نے جدیدیت کا جوہر کہا ہے وہ آج بھی قائم ہیں اس بات پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ میرا خیال یہ ہے کہ ادبی تہذیب میں ایک رہنما اصول کی طرح جدیدیت نہ صرف ہمارے یہاں اردو میں بلکہ جدید دنیا کے بڑے حصے میں قائم اور مستحکم ہوچکی ہے ۔
جدیدیت کے جتنےبنیادی اصول تھے ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے آج دنیا میں کہیں بھی صفحہء ادب سےمحو کردیا گیا ہو جب میں یہ کہتا ہوں کہ معاصر اردو ادیب اپنے اس دعوے کے باوجود کہ وہ جدیدیت سے منحرف ہوگئے ہیں دراصل اپنے انحراف کا کوئی ثبوت نہیں فراہم کر پائے ۔تو میرا مطلب بس اتنا ہوتا ہے کہ معاصر اردو ادب آج بھی جدیدیت کی راہ پر گامزن ہے ۔
مابعد جدیدیت ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو لازمی طور پر جدیدیت کے بعد آئے اور نہ ایسی کوئی چیز ہے جسے جدیدیت کی ترقی یافتہ شکل یا جدیدیت کا اگلاقدم کہیں۔دراصل مابعد جدیدیت تو ذہن اور احساس کی ایک صورت ِحال ہے ۔‘‘(6)
ترقی پسند تحریک جس طرح ایک باقاعدہ تحریک تھی ایک سیاسی تنظیم کے سائے میں یہ پروان چڑھی تھی ۔ان لوگوں نے ادب کے کچھ اصول بنائے تھے جن پر عمل کرنا اس تحریک سے جڑے لوگوں کے لئے ضروری تھا ۔اگر کوئی ان اصولوں سے انحراف کرےگا تو وہ ترقی پسند بھی نہیں رہے گا ۔اگر ہم اس تناظر میں جدیدیت کو دیکھیں تو جدیدیت باقاعدہ تحریک نہیں تھی بلکہ ترقی پسندوں کی اپنے نظریے پر سختی سے عمل کرنے والے رویے کے ردِعمل نے جدیدیت کو پروان چڑھایا۔
1960ء کے لگ بھگ ترقی پسندوں کے نظریات سے مخالفت زیادہ نظر آتی ہے لیکن 1970ء کے بعد اس میں کمی آنے شروع ہوئی ۔بعد کے افسانہ نگاروں نے اس اصول کو مدِ نظر رکھا کہ ادب کا پہلا مقصد ابلاغ ہے اس لیے ایسی مبہم علامتوں کا استعمال کرنے سے گریز کیا جائے جس سے افسانہ چپستان بن جائے اور افسانہ لکھتے وقت ایسے تجربات سے گریز کیا جائے جس سے افسانے کی افسانویت کو نقصان پہنچے۔
یہ ہی وہ تبدیلیاں تھیں جس کی وجہ سے یہ کہا گیا کہ جدیدیت کا دور ختم ہو چکا ہے۔نئی نسل میں جوادیب اپنے آپ کو جدیدیت سے الگ قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کررہے تھے کہ ہمارے شناخت الگ ہے ہماری تخلیقات کو الگ اصولوں پر پرکھا جائے۔جب ایک انٹر ویو میں شمس الرحمٰن فاروقی سےیہ سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ :
’’کچھ نئے لوگ کچھ نوجوان لوگ اپنے آپ کو جدیدیت سے الگ قرار دیں۔وہ ان کا حق ہے۔بالکل جدیدیت کوئی فوج تو ہے نہیں،جس میں آدمی کو بھرتی کیا جائے ۔ڈنڈا مار کر سکھایاجائےکہ لیفٹ رائٹ مارچ کرو ۔جدیدیت تو ایک رجحان ہے،ایک طرزِ فکر ہے ۔ایک تصور ہے،ادب کےبارے میں اگر آپ کہتے ہیں کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں تو نہ سہی ۔رہی بات یہ کہ آپ جدیدیت سے الگ ہیں اور اپنے لئے ایک نیا معیار قائم کیا جائے تو آپ ضرور قائم کیجئےہم آپ کو منع نہیں کرتے۔ ‘‘(۷)
شمس الرحمٰن فاروقی کہتے ہیں جدیدیت ایک طرزِ فکر اور ایک تصور کانام ہے ۔جدیدیت کوئی مذہب نہیں ہے جس سے انحراف کفر ہوگا۔وہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’مجھے اس بات سے کوئی خوف نہیں آتا کہ نئے لکھنے والے جدیدیت سے انحراف کریں گے یا کرنا چاہیں گے ۔ادبی اصول و نظریات کو میں ترقی پسندوں کی طرح مطلق اور آفاقی اور ہمہ وقتی نہیں سمجھتا ۔میں امید کرتا ہوں کہ ادب کے بارے میں کئی طرح کے نظریات صحیح ثابت ہو سکیں گے ۔
جدیدیت کوئی مذہب نہیں کوئی الہامی فلسفہ نہیں ،جس سے انحراف کفر ہو۔۔۔۔۔۔۔ایک دن وہ بھی ہو گاجب جدیدیت اپنا کام اچھا برا کر چکے گی ،کوئی اور نظریہ ء ادب اس کی جگہ لےگا۔‘‘(۸)
شمس الرحمٰن فاروقی نے جدیدیت کے رجحان کے تحت افسانے لکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ۔
اس رجحان نے تخلیق کار کو اظہار رائے کی آزادی دی ۔ادیب اب کسی خاص نظریہ کا غلام نہیں رہا کہ وہ جو بھی ادب تخلیق کرے اس میں اس نظریے کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کا پر چار کرے لیکن 1970ء کے بعد لکھے جانے والے افسانہ 1960ء کے لگ بھگ لکھے گئے افسانے سے مختلف تھے ۔
جس کی وجہ سے ناقدین نے ان افسانوں کو مابعد جدید افسانہ کہا شمس الرحمٰن فاروقی ان ناقدین سے نظریاتی اختلاف رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جدیدیت کے جو بنیادی چارپانچ سات تصورات تھے جن پر عمل کرنے والے کو جدیدی کہا جائے گا
اس سے بحث نہیں کہ وہ تجریدی افسانہ لکھ رہا ہے ،مشکل افسانہ لکھ یاآسان افسانہ لکھ رہا ہے۔جدیدیت کے جتنے بنیادی اصول تھے ۔ان میں سے کوئی ایسا نہیں جسے آج دنیا میں کہیں محو کر دیا گیا ہو ۔اس میں سے کوئی بھی تصور ایسا نہیں ہے جس سےمابعد جدیدیت نے انحراف کیا ہے ۔
جدیدیت ایک طرزِ فکر اور ایک تصور کانام ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی ادبی اصول و نظریات کو ترقی پسندوں کی طرح مطلق اور آفاقی اور ہمہ وقتی نہیں سمجھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی نسل اگر خود کو جدیدیت سے الگ قرار دیتی ہے تو وہ اس سےالگ ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتے تھے کہ جدیدیت اپناکام اچھا برا کر چکے گی تو کوئی اور نظریہ ادب اس کی جگہ لے گاجدیدیت کوئی مذہب یا الہامی فلسفہ نہیں ہے جس سے انکار کفر ہو۔1966ء سے 2005ء تک ان کا رسالہ لگاتار چھپتا رہا ۔اس رسالے کے توسط سے بہت سے افسانے قارئین تک پہنچتے رہے ۔بہت سے نئے افسانہ نگاروں کو ادبی دنیا سے متعارف کروایا۔
حوالہ جات
1۔ شمس الرحمٰن فاروقی،انٹر ویو،شمس الرحمٰن فاروقی سے ایک بے تکلف گفتگو،مشمولہ الف عین لائبریری ،اکرام نقاش،۲۴ستمبر ،۲۰۰۹
2۔ سید محمد اشرف ،مضمون اردو میں مابعد جدید افسانے کی تشکیلی عناصر کی شناخت ۔۔کچھ اشارے ،مشمولہ ،اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ ،مرتبہ گوپی چند نارنگ ،اردو اکادمی دہلی ،۱۹۹۸ء،ص۱۳۰
3۔ شمس الرحمٰن فاروقی ،انٹرویو،ادب کو کسی فلسفے کسی پابندی کا محکوم نہیں ہونا چاہئے،مشمولہ سو تکلف اور اس کی سیدھی بات، رعنا بپلی کیشن حیدر آباد،۲۰۱۵ء،ص۴۴۵،۴۴۴
4۔ مابعد جدیدیت کے پاس کوئی لائحہ عمل،کوئی ایجنڈا،کوئی ادبی فلسفیانہ پروگرام نہیں ہے،مشمولہ،سوتکلف اور اس کی سیدھی بات،ص ا ۱۰۷
5۔ شمس الرحمٰن فاروقی ،جدیدیت کل اور آج ،احمد محفوظ مشمولہ،سوتکلف اور اس کی سیدھی بات ،ص ۲۶۳،۲۶۴
6۔ مابعد جدیدیت کے پاس کوئی لائحہ عمل،کوئی ایجنڈا،کوئی ادبی فلسفیانہ پروگرام نہیں ہے،مشمولہ،سوتکلف اور اس کی سیدھی بات،ص ا ۱۰۷
7۔ شمس الرحمٰن فاروقی ،انٹرویو،ادب کو کسی فلسفے کسی پابندی کا محکوم نہیں ہونا چاہئے،مشمولہ سو تکلف اور اس کی سیدھی بات ،ص۲۴۶
8۔ شمس الرحمٰن فاروقی ،ہماری صورتِ حال،مشمولہ ،شب خون،شمارہ ۱۶۴،الٰہ آباد،۱۹۹۲ء،ص