پطرس بخاری کی تخلیقات کا تنقیدی جائزہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پطرس بخاری کی تخلیقات کا تنقیدی جائزہ

آپ کی تخلیقات کو ہم ان حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: مضامین ، خطوط ، مقدمات ، افسانے ڈرامے اور ناولٹ ( طبع زاد اور ترجمہ ) تنقیدی مضامین اور دو سفر نا مے۔ پطرس بخاری نے صورت واقعہ سے مزاح پیدا کرنے کا منفرد اسلوب اپنایا ہے۔ آپ اردو کے ساتھ انگریزی ادب سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ اس لیے آپ کی تحریر پر مغربی اثرات نمایاں تھے۔ لطافت، متانت اور شگفتگی کی موجودگی تو بہ کثرت ہے مگر آپ کے مزاح میں طنز و تمسخر کا فقدان ہے۔

یعنی ان کے مزاح میں تلخی نہیں ہے بلکہ پاکیزہ شوخی ، باوقار ظرافت اور شائستگی کی آمیزش نظر آتی ہے۔ جہاں جہاں طنز ملتا ہے۔ وہاں اس کا اثر ایسا کہ کاٹ کی بہ جائے شیرینی کا احساس ہوتا ہے۔ ”کتے اور لاہور کا جغرافیہ” اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

وہ انسانی نفسیات کے زبردست نباض تھے۔ نفسیات پر گرفت ہی کی وجہ سے وہ جو واقعاتی مزاح پیش کرتے ہیں ۔اس میں زبر دست قوت مشاہدہ اور تخیل کی بلند پروازی چھلکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مرید پور کا پیر (تجزیہ)

تصنع اور بناوٹ سے پاک تجربے اور مشاہدے کے بل بوتے پر چھوٹی چھوٹی جزئیات کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے اکثر مضامین میں واحد متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس تکنیک سے انھوں نے ہر واقعے کو اہم بنا دیا ہے ۔ وہ قاری کے ساتھ خود موجود ہوتے ہیں اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ سب واقعات جن میں معاشرتی ناہم واری ، عدم توازن اور تضادات موجود ہیں۔ ان کا وہ خود بھی شکار ہے مگر اس انداز میں کہ یہ امور گراں بھی نہیں گزرتے بل کہ ان سے بھر پور لطف اندوز ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پطرس بخاری اور انشائیے لاہور کا جغرافیہ | pdf

پطرس بخاری خود پر شائستگی اور وقار کے ساتھ واقعات بنتے ہیں اس لیے ایک دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ ان کا پلاٹ ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وہ اپنی فطری برجستگی اور ندرت سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ پھر اسے خوب ہنساتے ہیں۔

مزاحیہ ادب میں انھوں نے بہت قلیل اثاثہ چھوڑا ہے مگر مقدار جتنی کم ہے معیار اتناہی بلند ہے۔ آپ کے مضامین میں ہاسٹل میں پڑنا ” اور ". سویرے جو کل آنکھ میری کھلی "میں بہ طور طالب علم طلبہ کی لطیف خواہشات ، اس عمر کی نفسیات اور دروغ بیانی کا اظہار انتہائی مہارت سے کیا ہے۔

"کتے” میں کتوں سے خوف زدہ نو جوان کا افسانوی انداز میں کتوں سے نفرت کا اظہار اس پیرائے میں کیا ہے کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ اللہ نے یہ مخلوق اس لیے بنائی کہ پطرس اس پر ایک شان دار مضمون لکھ سکیں ۔ اردو کی آخری کتاب” اور ” لاہور کا جغرافیہ” میں پیروڈی کا فن نقطہ عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ ان میں تحریف نگاری کا کمال ، طنز کی انتہا اور مزاح کا لطیف ترین پہلو موجود ہے۔

مرحوم کی یاد میں معاشرتی رویوں اور دوستی نما دشمنی کی تلخ حقیقتوں کو اس شوخی سے بیان کیا ہے کہ سب تلخی مٹ جاتی ہے۔ ” میں ایک میاں ہوں” میں سوفیصد مزاح ہے۔ واقعات فرضی ہیں مگر حقیقی لگتے ہیں۔ ہر شادی شدہ شخص اسے اپنی ہی کہانی سمجھتا ہے۔ سیدھے سادے واقعے کو اپنی نفاست، ندرت اور نظامت کے ساتھ لکھنا کمال ہے۔ "مرید پور کا پیر "میں اہلیت کے فقدان کے باوجود خود کو سیاسی رہ نما بنانے والوں پر لطیف طنز ہے۔ یہاں بھی انھوں نے اپنا ہی تمسخر اڑا کر کسی طبقے کو شکایت کا موقع دینے سے گریز کیا ہے۔

” انجام بخیر "ایک عمدہ فکاہیہ ہے۔ آپ اسے مکالمہ یا ڈراما کہ سکتے ہیں۔” سینما کا عشق” میں آپ کے پسندیدہ مرزا صاحب کا کردار ، ان کی سستی اور غفلت کا نقصان خود بھی برداشت کرتے ہیں مگر دوست کے بغیر رہ نہیں پاتے۔ اس مضمون میں روانی اور تسلسل سے دل چسپی جھنجھلاہٹ اور تیکھا پن نمایاں کیے گئے ہیں۔

"میبل اور میں” یہ ایک طنزیہ افسانہ ہے۔ جس میں مرد اور عورت کے درمیان فرق کو انتہائی شگفتگی سے ختم کیا گیا ہے۔ بہ ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ مرد عورت کو دھوکا دیتا ہے مگر اس افسانے کے انجام سے مرد کی معصومیت کی دلیل مل جاتی ہے۔ ان مضامین میں پطرس نے سماجیات، ثقافت، تہذیب، تمدن، روز مرہ زندگی اور نفسیات و فطرت انسانی کے کئی راز افشا کیے ہیں۔

کتے

علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سرکھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجیے، دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجیے ، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی ۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگا تار بغیر دم لیے صبح کے چھے بجے تک بھونکتے چلے گئے۔ تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔

کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گد گدائی تو انھوں نے باہر سڑک پر آکر طرح کا ایک مصرع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کر دیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا ، ایک حلوائی کے چولھے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہ گئے ۔ اس پر شمال مشرق کی طرف سے ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھیے ۔

کمبخت بعض تو دو غزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے۔ وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ آرڈر آرڈر پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پر دھان کی بھی کوئی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھیے کہ میاں تھیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے ۔ یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے؟

اور پھر ہم دیسی لوگوں کے کتے بھی کچھ عجیب بد تمیز واقع ہوئے ہیں۔ اکثر تو ان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون اور کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہے۔ اس کا ذکر ہی جانے دیجیے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات ہے یعنی ہمیں بار ہا ڈالیاں لے کر صاحب لوگوں کے بنگلوں پر جانے کا اتفاق ہوا۔ خدا کی قسم ان کے کتوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ اش اش کرتے لوٹ آئے ہیں۔

جوں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے ، کتے نے برآمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی بخ کر دی اور پھر منھ بند کر کے کھڑا ہو گیا۔ ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں پھر بخ کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی ۔

ہمارے کتے ہیں کہ نہ راگ نہ سر ، نہ سر نہ پیر ۔ تان پرتان لگائے جاتے ہیں۔ بیتالے کہیں گے۔ نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں۔ بس گلے بازی کیے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ تان سین اس ملک میں پیدا ہوا تھا۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے تعلقات کتوں سے ذرا کشیدہ ہی رہے ہیں لیکن ہم سے قسم لے لیجیے جو ایسے موقع پر ہم نے کبھی ستیا گرہ سے منہ موڑا ہو۔ شاید آپ اس کو تعلی سمجھیں لیکن خدا شاہد ہے کہ آج تک کبھی کسی کتے پر ہاتھ اٹھ ہی نہ سکا۔ اکثر دوستوں نے صلاح دی کہ رات کے وقت لاٹھی چھڑی ضرور ہاتھ میں رکھنی چاہیے کہ دافع بلیات ہے لیکن ہم کسی سے خواہ مخوا د عداوت پیدا نہیں کرنا چاہتے۔

کتے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پر اس درجہ غلبہ پا جاتی ہے کہ آپ ہمیں اگر اس وقت دیکھیں تو یقیناً یہیں سمجھیں گے کہ ہم بزدل ہیں ۔ شاید آپ اس وقت یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ یہ البتہ ٹھیک ہے۔ ایسے موقع پر کبھی گانے کی کوشش کروں تو کھرچ کے سروں کے سوا اور کچھ نہیں لگتا۔

اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبیعت پائی ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پر آیت الکرسی آپ کے ذہن سے اتر جائے گی۔ اس کی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جائیں۔

بعض اوقات ایسا اتفاق بھی ہوا ہے کہ رات کے دو بجے چھڑی گھماتے تھیٹر سے واپس آ رہے ہیں اور ناٹک کے کسی نہ کسی گیت کی طرز ذہن میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔چوں کہ گیت کے الفاظ یاد نہیں اور نو مشقی کا عالم بھی ہے اس لیے سیٹی پر اکتفا کی ہے کہ بے سرے بھی ہو گئے تو کوئی یہی سمجھے گا انگریزی موسیقی ہے۔ اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی ۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو۔

آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا۔ ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ چھڑی کی گردش دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نا معقول زاویے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔

سیٹی کی موسیقی بھی تھر تھرا کر خاموش ہوگی۔ لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بے آواز نے ابھی تک نکل رہی تھی۔ طب کا مسئلہ ہے کہ لیجیے ایسے مواقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں
،بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے۔

چوں کہ ہم طبعاً زرا محتاط ہیں اس لیے آج تک کتے کے کاٹنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا یعنی کسی کتے نے آج تک ہم کو کبھی نہیں کاٹا۔ اگر ایسا سانحہ کبھی پیش آیا ہوتا تو اس سرگزشت کے بجائے آج ہمارا مرثیہ چھپ رہا ہوتا۔ تاریخی مصرعہ دعائیہ ہوتا کہ "اس کتے کی مٹی سے بھی کتا گھاس پیدا ہو”۔

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے کہ سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

حواشی

موضوع ۔۔۔{تخلیقات کا تنقیدی جائزہ}کتاب کا نام ۔۔۔{نثری اصناف}کوڈ نمبر ۔۔۔{9009}مرتب کردہ ۔۔۔{عارفہ راز}پروف ریڈر ساغر علی ارداسؔ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں